کمزور نگران حکومت اور شفاف الیکشن  

کمزور نگران حکومت اور شفاف الیکشن  
کمزور نگران حکومت اور شفاف الیکشن  

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نگران حکومت نے ایک مہینے میں دوسری بار اوگرا سمری منظور کرتے ہوئے فیول پرائس بے تحاشہ اضافہ کر دیا ہے۔ عام انتخابات کے شور شرابے میں شاید کوئی شدید عوامی رد عمل نہ آئے جبکہ سیاسی جماعتوں کی مذمت بھی زبانی کلامی رہے گی کیونکہ انکا بنیادی فوکس انتخابی مہم چلانے پر ہے۔وہ الگ بات کہ ہر جگہ ہر ایک کو عوامی رد عمل دیکھنے کو مل رہا ہے اور ابھی تک کوئی جماعت اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
فیول پرائس میں زیادہ اضافہ ڈیزل کی قیمت میں تقریباً چودہ روپے فی لٹر کیا گیا ہے۔ اور ڈیزل ہی پبلک ٹرانسپورٹ۔ کمرشل وہیکل۔ اور انڈسٹری میں زیادہ استعمال ہوتاہے۔ جہاں جہاں ٹرانسپورٹ استعمال ہوگی۔چاہے سبزی۔ فروٹ کی ترسیل ہو یا دیگر اشیاء کی ٹرانسپورٹیشن ۔ عنقریب مہنگائی کے پنجے ہر جگہ گڑے ہوئے نظر آئیں گے۔
ایک سادہ سا سوال تو نگران حکومت سے بھی بنتا ہے کے اسکا بنیادی ٹارگٹ تو بروقت۔ شفاف انتخابات کا انعقاد ہے تو اقتصادی صورتحال سے متعلق فیصلے آئندہ آنے والی حکومت کے لیئے چھوڑ دے۔اگر عام انتخابات کے انعقاد میں پاکستان آرمی کا تعاون حاصل نہ ہو تو سیکورٹی کی صورتحال مجموعی طور پر نا گفتہ نظر آرہی ہے۔
مختلف پارٹی رہنماو¿ں اور امیدواروں کے خلاف ہونے والے عوامی رد عمل کو احتجاج تک محدود نہ رکھا گیا تو شرپسند عناصر کسی بھی موقع سے فائدہ اٹھا کر امن و امان کی صورتحال متاثر کر سکتے ہیں۔اب تک ہونے والے جلسوں اور ریلیوں کو دیکھنے کے بعد اندازہ لگایا جاسکتا ہے کے عمران خان اور بلاول زرداری کی سیکورٹی کافی کمزور ہے۔تحریک انصاف کے میانوالی کے جلسے میں اسٹیج پر عمران خان کے ساتھ جس طرح بے شمار لوگ چپک کر کھڑے تھے یہ بڑا سیکورٹی کولیپس تھا۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال بلاول زرداری کی لیاری کے دورے کے موقع پر نظر آئی جہاں انہیں پتھراو کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اور وہ گاڑی سے باہر نکل کر خطاب بھی کرتے رہے جسے دیکھ کر انکی والدہ کے ساتھ گزرا المناک واقعہ آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ سیاسی جماعتوں کے سیکورٹی ونگز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان کوآرڈینیشن کی بھرپور ضرورت ہے تا کہ کسی بھی سانحہ سے بچا جا سکے۔
دوسری طرف ڈالر کی بلند اڑان کا سفر جاری ہے۔ اسٹیٹ بینک کی سابق گورنر موجودہ وزیرِ خزانہ بیگم شمشاد اختر کی ٹپم اس اڑان کو روکنے میں تا حال ناکام ہیں ۔انکی ساری توجہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم پر یا فیول پرائس بڑھانے پر ہے۔یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہشارٹ ٹرم گزارنے والی نگران حکومت لانگ معاملات پر فیصلے کیوں لے رہی ہے۔
نگران حکومت کی کمزور پالیسیز کو دیکھتے ھوئے کہا جا سکتا ہے کے شفاف تو درکنا ر اگر انتخابات بر وقت ہی ہوجائیں تو یہ وزیراعظم ناصر الملک کی ٹیم کا بڑآ کارنامہ ہوگا۔جوڈیشل ایکٹو ازم بھی ز وروں پر ہے ۔ عدلیہ نے ڈیم بنانے کا ذمہ بھی اپنے سر لے لیا ہے۔ کب۔ کہاں۔ کیوں کیسے۔ خاکہ ابھی واضح نہیں ہے۔دوسری طرف چیف جسٹس صاحب نے سانحہ ماڈل ٹاو¿ن کیس کا فیصلہ پندرہ دن میں کرنے کی ہدایت کی تھی۔ مگر بار تاریخ پر تاریخ سے آگے نہیں بڑھ رہی ہے۔چوہدری نثار کا جیپ پر سفر ہو یا شیخ رشید کا موٹر سائکل پر۔سب کا بیانیہ آج کل ووٹر کو عزت دینے کا ہے۔پانچ سال بعد ایک ووٹ ڈال کر گھر جانے والی قوم کو الیکشن کی شفافیت سے یا نگران حکومت کے غلط فیصلوں سے کوئی سروکار نہیں ہے بس ووٹ ڈال کر سونا ہے۔ میڈیا کا دور ہے نتائج شام کو ٹی وی پر پتہ چل جائیں گے۔ اس لیئے لمبی تان کر سو رہو۔

۔۔

۔۔

 نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -