مکّہ کا وہ مشہور کنواں جس میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہ بچا تو رسول ﷺ نے اس کے کنارے بیٹھ کر دعا کی اور پھر صحابہؓ سے فرمایا ’’ اب کچھ دیر کے لئے کنویں کو تنہاچھوڑدو ‘‘اس کنویں سے مسلمانوں کی کیا نسبت قائم ہوئی جان کر آپ کا ایمان تازہ ہوجائے گا
صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمانوں نے اللہ کے نبیﷺ کے صبر و حکمت کو بغور دیکھا اور اسکے مثبت دوررس نتائج سے پیدا ہونے والے ثمرات کو بھی سمیٹا تو ان بیس دونوں کے دوران صحابہ کرامؓ نے اللہ کے نبیﷺ کے معجزات کو رونما ہوتے بھی دیکھا ۔
مکہ سے ایک منزل دور جس مقام پر کفار مکہ اور رسول اللہ ﷺ کے مابین صلح حدیبیہ ہوئی ،وہاں ایک کنواں حدیبیہ کے نام سے معروف تھا ۔628ء میں جب رسول اللہ ﷺ نے چودہ سے پندرہ سو صحابہؓ کے ہمراہ عمرہ ادا کرنے کی نیت سے مکہ کا رخ کیا تو حدیبیہ کے مقام پر حضرت خالد بن ولیدؓ (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے ) نے دو سومسلح ساتھیوں کے ساتھ انہیں روک لیا تھا ۔رسول کریم ﷺ نے قریش مکہ کو اپنے مقاصد سے آگاہ کرنے کے لئے حضرت عثمان غنیؓ کو مکہ بھیجا تو آپؓ کی واپسی میں تاخیرہوئی تو تشویش پیدا ہوئی جس پر بیت رضوان ہوئی تھی ۔یہ سب واقعات اسی میدان حدیبیہ میں رونما ہوئے جہاں صحابہؓ کو پانی بھی میسر نہ رہا تھا اور حدیبیہ کا کنواں خشک ہونے لگا تھا ۔
بخاری شریف میں براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ ہم چودہ سو افراد حدیبیہ میں نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ تھے۔ حدیبیہ میں ایک کنواں تھا۔ اس کا پانی ہم نے سب کھینچ کر استعمال کرلیا۔ ایک قطرہ بھی اس میں پانی نہ بچا۔ آپ ﷺ کو خبر ہو ئی تو اس کنویں پر تشریف لے گئے اور اس کے کنارے بیٹھ گئے اور ایک برتن میں پانی منگوا کر وضو کیا پھر کلی کی اور دعا کی اور بچے ہوئے پانی کو کنویں میں ڈال کر فرمایا کہ تھوڑی دیر کنویں کوتنہا چھوڑ دو۔ چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد اتنا پانی ہوگیا کہ ہمارے لشکر اور لشکروالوں کے مویشی خوب سیر ہوگئے۔ بیس دن تک یہاں قیام رہا۔ برابر اسی کنویں سے پانی لیتے رہے۔
حضرت جابرؓ کی روایت میں تعداد پندرہ سو تھی اور براء بن عازب کی روایت میں چودہ سو آدمی بیان کئے گئے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ چودہ سو سے زیادہ پندرہ سو سے کم تھے۔ جس راوی نے کسر کو شمار کرکے بیان کیا اس نے پندرہ سو سے بتائے اور جس نے کسر کو چھوڑ کر بتایا اس نے حدیبیہ میں مسلمانوں کی تعداد چودرہ سو بتائی۔ دونوں بیان تخمینی ہیں۔ حدیبیہ میں آنحضور ﷺ کا قیام بیس دن رہاتھا۔