پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔ 19

پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی ...
پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔ 19

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ب) ایئر مارشل اصغر خان : ایئر مارشل اصغر خان صاحب کو بھٹو صاحب نا پسند کرتے تھے۔ چند موقعوں پر جب کبھی ایئر مارشل اصغر خان صاحب کا کسی نہ کسی پیرائے میں ذکر ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ بھٹوصاحب ان سے نفرت کرتے ہیں۔ انہوں نے اصغر خان صاحب کے متعلق ایک دو مرتبہ کہا کہ وہ ایک عام سے سیدھے سادھے انسان ہیں اور سیاست کی ان کو الف ‘ ب تک کا علم نہیں۔ وہ سخت بے لچک ( Rigid )انسان ہیں اور کبھی بھی سیاست میں کامیاب ہوں گے۔

پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔ 18 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مجھے ان دو لیڈروں کے درمیان اصلی اختلاف کی کوئی خاص وجہ معلوم نہیں تھی۔ جب میں بھٹو صاحب کے ساتھ تھا اس وقت تک میں جناب اصغر خان صاحب سے کبھی نہ ملا تھا۔ بہرحال ان کی لگن سچائی اورایمانداری کے متعلق بہت کچھ سن چکا تھا۔ بد قسمتی سے ان کی پارٹی‘ تحریک استقلال نے بھی جب سے وجود میں آئی ہے کوئی کارنامہ نہیں دکھایا اور اصغرخان صاحب کی سخت گیری بہت حد تک درست ہوگی کیونکہ آج کل بدقسمتی سے ہمارے سیاستدانوں نے سیاست کو ایک تجارت سمجھ رکھا ہے۔ جھوٹ‘ دغابازی‘ بے ایمانی اور ریاکاری وغیرہ ہماری سیاست کے ستون بن چکے ہیں۔ ہمارے سیاست دان‘ ما سواچند ایک کے‘ جب الیکشن لڑتے ہیں تو ان کا نصب العین یہ ہوتا ہے کہ جیتی ہوئی پارٹی میں ہوں یا چند مراعات کے بدلے اس میں شامل ہو جائیں تا کہ انتخابات میں خرچ کی ہوئی رقم کو جس طرح بن پڑے کم از کم ستر بار اور موسم بہت اچھا ہو جائے تو سات سو بار زیادہ کر سکیں۔ صاف ظاہر ہے اس طرح تو ملک اور قوم کو لوٹنا ہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کھیل میں اصغر خان صاحب جیسا محب وطن اور ایماندار شخص ایک ناکام سیاستدان ہی رہے گا او ر فصلی بٹیرے تو کبھی بھی ان کے اردگرد جمع نہیں ہو ں گے۔ انہیں کسی اور ملک اور معاشرے میں ہونا چاہئے تھا۔ یہ میرا ذاتی تجزیہ ہے۔ ممکن ہے بھٹو صاحب کی ناپسندیدگی کی وجوہات کچھ اور ہوں۔ 
ج) ایئر مارشل نورخان: ایک ملاقات کے دوران محمد حیات ٹمن جو بھٹو صاحب کے پولیٹیکل ایڈوائزر رہے تھے کے متعلق بات چیت چھڑ گئی۔ شاید اس دن کے اخبار میں حیات ٹمن صاحب کا تذکرہ ہو تھا۔ بھٹو صاحب نے کہا ملک محمد حیات ٹمن ایک اپنی قسم کا شخص ہے لیکن ابھی تک اس نے مارشل لاء اتھارٹی کے سامنے اپنے آپ کو ایک حد تک قابل اعتماد شخص ثابت کیا ہے۔ اسی نشست کے دوران بھٹو صاحب نے ایئر مارشل نور خان صاحب کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا نورخان بہت ہوشیار‘ روشن دماغ اور تیز فہم انسان ہیں۔ ایئر فورس نے ایک اچھا ایڈمنسٹریٹر اور قابل افسر پیدا کیا ہے لیکن وہ ایک الو العزم‘ شہرت اور عزت کا خواہشمند انسان ہے۔ میں نے ان سے ذکر کیا کہ ایئر مارشل نورخان صاحب کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ جب وہ پاکستان ایئر فورس کے کمانڈر انچیف تھے تو میں پشاور میں پیرا شوٹ سکول کی کمانڈ کر رہا تھا۔ وہ پیرا شوٹ جمپ کیلئے کچھ دن میرے سکول میں زیر تربیت رہے تھے۔ دراصل وہ تمام ہوابازوں کو اپنا نمونہ پیش کرنا چاہتے تھے تا کہ وہ بھی بلا خوف و خطر اور بغیر جھجھک پیرا شوٹ جمپ کریں اور جب کبھی انہیں جہاز کی خرابی کی حالت میں چھلانگ لگانی پڑے تو خوامخواہ جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں یا ٹانگ وغیرہ نہ توڑلیں بلکہ چھتری کے ذریعے سیکھے ہوئے طریقے کے مطابق زمیں پر بحفاظت اتر سکیں۔ ان کی سکھلائی اور چھتری کے ذریعے چھلانگ لگانے کے دوران میں نے ایئر مارشل نورخان صاحب کو بڑا نڈر اور بہادر انسان پایا۔ بھٹو صاحب کہنے لگے نورخان کو میری پارٹی میں شامل ہو جانا چاہئے تھا لیکن وہ نامعلوم وجوہ کی بنا پر ایسا نہ کر سکے۔ ان جیسی متحرک شخصیات اور قابل ایڈمنسٹریٹر کی میری پارٹی کو ضرورت تھی۔
د) جنرل یحییٰ خان: جب کبھی یحییٰ خان صاحب کا نام آیا بھٹو صاحب نے انہیں اچھے الفاظ سے یاد کیا لیکن ہر دفعہ ایک خاص مسکراہٹ کے ساتھ ان کا ذکر کیا۔ ایک دفعہ فرمانے لگے ’’ جنرل یحییٰ خان ایک بہت اچھے اور انٹیلجنٹ شخص تھے ۔وہ ایک شائستہ انسان تھے بشرطیکہ انہوں نے پی نہ رکھی ہو اور اگر شراب کے نشے میں ہوتے جو عموماًہوا کرتے تھے تو پھر وہ انسان نہیں تھے بلکہ شیطان( Devil ) تھے‘‘ کچھ اور باتیں بھی ہوئیں جنہیں قلمبند کرنا شائستگی کے خلاف ہے۔
ر) مولانا کوثر نیازی: اسیری کے دوران بھٹو صاحب مولانا کوثر نیازی صاحب سے کوئی زیادہ خوش نہ تھے۔ چند مرتبہ ان کا ذکرہوا توبھٹو صاحب نے کچھ برہمی کا سا اظہار کیا۔ ایک دن کہنے لگے مولانا کوثر نیازی کو اﷲتعالیٰ نے اچھا دماغ عطا کیا ہے مگر وہ مولوی کا مولوی ہی رہا۔ بھٹو صاحب کومولویوں سے بے حد چڑ تھی۔ 
بھٹو صاحب کی پھانسی کے کافی عرصہ بعد میری مولانا سے ایک دن اچانک ملاقات ہو ئی۔ میں نے ان سے بھٹو صاحب کی ناخوشی کا ذکر کیا۔ کہنے لگے جناب میں بھٹو صاحب کا بے حد ممنون ہوں اور ان کی تہہ دل سے عزت کرتا ہوں اور ان کو اپنا قائد تصور کرتا رہوں گا۔ جب ہم نے دیکھا کہ بھٹو صاحب اور فوج کا ٹکراؤ ہو گیا اور ایسی حالت میں ان کا ہی نہیں بلکہ پارٹی اور ملک کا بھی نقصان ہو گا توہم نے دلی کوشش کی کہ اس ٹکراؤ سے بچا جائے۔ ہر ذی شعور شخص کو اس ٹکراؤ کے نتیجے کا علم تھا۔ میں نے چاہا کہ ہر قیمت پر بھٹو صاحب کو بچایا جائے اور جو راستہ ہمارے کچھ ساتھیوں نے اختیار کرنا چاہا اس سے بچا جائے تاکہ مارشل لاء حکام اور بھٹو صاحب کے درمیان صلح جوئی کا کوئی راستہ نکالا جائے۔ ہماری کوشش کو بدقسمتی سے غلط سمجھا گیا اور ہماری فوج کے ساتھ صلح کو بالکل غلط تصور کیا گیا اس محاذ آرائی کانتیجہ کیا نکلا؟ وہی جس کامجھے ڈر تھا‘ یعنی ہم اپنے لیڈر کو کھو بیٹھے۔
انہوں نے کہا جن لوگوں کا خیال تھا کہ میں فوج کے ساتھ مل گیا ہوں۔ انہوں نے خود محسوس کیا ہو گا کہ میرارویہّ اس حکومت کے ساتھ کیسا تھا جب میں سینیٹ کا ممبر تھا۔ میں نے ان کی ہر غلط پالیسی کو پوری طرح قوم کے سامنے ہر طرح سے عیاں کیا اور ان کی کھل کر مخالفت کی۔ 
پارٹی کی بہتری کیلئے ہم نے چاہا کہ اس کو ملکی و قومی بنیاد پر اسی طرح رکھا جائے جیسا کہ اس کے بانی جناب ذوالفقار علی بھٹو نے دوچا اور بنایا تھا لیکن بدقسمتی سے جب یہ فیملی افیئر ہو گیا تو ہم نے خاموشی اور گوشہ نشینی اختیار کر لی۔
و) مس بے نظیر بھٹو: جناب بھٹو صاحب پاکستان‘ عام سیاسیات‘ ملکی و غیر ملکی حالات اور اپنے کیس وغیرہ کے متعلق تو کافی بات چیت کرتے رہتے تھے مگر انہوں نے اپنی فیملی کے متعلق بہت کم گفتگو کی۔ البتہ جب بھی مس بے نظیر کا ذکر ہوا تو انہوں نے ہمیشہ ان کے متعلق ایک خاص قدر شناسی کے پیرائے میں بات چیت کی۔ عموماً کہا کرتے تھے! کرنل رفیع‘ میں رہوں یا نہ رہوں‘ لیکن مجھے یقین ہے کہ میری بیٹی میرے مشن کو ہر حال میں پورا کرے گی کیونکہ اﷲتعالیٰ نے اسے بے حد صفات سے نوازا ہے۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہی نہیں بلکہ بے حد تیز فہم‘ روشن دماغ اور ذی عقل بھی ہے۔ وہ جب کہا کرتے تھے کہ بے نظیر سیاست کو سمجھنے کی مجھ سے زیادہ صلاحیت و قابلیت رکھتی ہے تو میرے دماغ میں یہ سوال اٹھتا تھا کہ وہ تو ابھی تک طالب علمی کے زمانہ میں ہے۔ اسے ابھی سیاست سے کوئی واسطہ نہیں پڑا اور نہ ہی عملی زندگی کا کوئی تجربہ ہے تو بھٹو صاحب کی یہ بات مجھے سمجھ سے بالاتر ہوا کرتی تھی۔ بہرحال میں ہمیشہ ایک باپ کے خیالات اس کی ہونہار بیٹی کے متعلق کچھ شکوک کے ساتھ سنتا رہتا تھا۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے‘ میں رہوں یا نہ رہوں‘ میری بیٹی پاکستان کے غریب عوام کو ان کی منزلِ مقصود تک کامیابی کے ساتھ لے جائے گی۔ وہ مس بے نظیر کے دل اور دماغ کی صلاحیتوں کی بے حد تعریف کیا کرتے تھے۔ بلکہ ایک مرتبہ تو انہوں نے کہا کہ بے نظیر ہندو پاک کی تاریخ میں بے نظیر ہی بن جائے گی۔
مجھے بے نظیر صاحبہ کے ساتھ جیل میں کبھی بات چیت کرنے کا موقع نہیں ملا‘ البتہ وہ جب کبھی بھٹو صاحب سے ملنے آئیں تو میں عموماً وہاں ہوا کرتا تھا لیکن ایک طرف رہ کر انہیں غور سے دیکھتا اور سنتا رہتا تھا مگر ان سے کبھی کسی موضوع پر گفتگو نہیں ہوئی۔ مجھے یاد نہیں کہ بھٹو صاحب نے اپنے بیٹوں کے متعلق کبھی کبھار کچھ کہا ہو۔ کچھ موقعوں پر ان کی بیگم صاحبہ کا ذکر چھڑا جو میں نے اس کتاب میں موضوع جگہ لکھا ہے۔ بھٹو صاحب نے اپنی دوسری بیٹی‘ صنم بھٹو کے متعلق بھی کبھی کچھ نہ کہا۔ البتہ وہ ان سے بے حد محبت کرتے تھے کیونکہ آخری شب انہوں نے اپنی اولاد میں سے صرف صنم کا نام بار بار لیا تھا۔ گویا آخری وقت انہیں سب سے چھوٹی بیٹی بہت یاد آئی۔
د) شاہ رضاشاہ پہلوی: جب شاہ رضاشاہ پہلوی کے خلاف ایران میں بہت بڑے پیمانے پرعوامی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا توایک دن بھٹو صاحب نے فرمایا کہ میں نے شاہ کو بتایا تھا کہ آپ کب تک ڈھکنا بند کر کے رکھیں گے‘ لیکن میری یہ بات شاہ کو پسند نہ آئی تھی۔ رضاشاہ ایرانی قوم کے ساتھ مخلص نہ تھے اور انہیں امریکی نصیحتیں زیادہ ہوش مندی سے کسی حد تک قبول کر لینی چاہئیں تھیں۔ بد قسمتی سے آج کل ہر ایسا سربراہ صرف اور صرف امریکیوں پر ہی بھروسہ کرتا ہے اور آخر کار انہی سے ہر ایک کو ٹھوکر کھانا پڑتی ہے۔ جو بھی حاکم یا لیڈر اپنی قوم کے جذبات واحساسات کا خیال نہیں رکھتا اسے قوم ہمیشہ ٹھوکر مار کر دور پھینک دیتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شاہ کیلئے شاید برا وقت آرہا ہے اور ایرانی قوم بھی مشکلات سے دوچار ہوگی۔
ز) جنرل محمد اقبال سے شکوہ: جنرل محمد اقبال صاحب انہی دنوں ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف مقرر ہوئے تھے۔ ایک دن بھٹو صاحب نے باتوں باتوں میں فرمایا کہ ان کی بیگم ‘ نصرت بھٹو صاحبہ‘ لاہورقذافی سٹیڈیم میں کرکٹ میچ کے دوران پولیس کے ہاتھوں زخمی ہو گئی تھیں اور ہسپتال میں چند دن زیرِ علاج رہی تھیں‘ جنرل اقبال کو‘ جو وہاں کور کمانڈر تھے ہسپتال جا کر کم از کم ان کی مزاج پرسی کر لینی چا ہئے تھی۔ یہ ان کا ایک اچھا( Gesture ) ہوتا۔
میں جنرل محمد اقبال کے ماتحت ملٹری انٹیلی جنس ‘ ڈا ئریکٹریٹ میں سروس کر چکا تھا اور ان کے ساتھ اچھے مراسم تھے۔ جنرل صاحب جونہی لاہور سے پنڈی تشریف لائے‘ میں نے ان سے ملاقات کی اور جب میں ان کے ہاں سے واپس آنے لگا تو انہوں نے کہا تھا کہ گاہے بگاہے ان سے ضرور ملتا رہوں۔ بھٹو صاحب کے اس شکوے کے بعد میں جنرل صاحب سے ملنے کبھی نہ گیا کیونکہ ان دنوں میری خفیہ نگرانی ہو رہی تھی اور میں نے جان بوجھ کر کسی سینئر افسر کے ساتھ ملنا بند کر دیا تھا۔ اس لئے میں بھٹو صاحب کے اس گلے کا ذکر جنرل صاحب سے کبھی نہ کر سکا۔
مسٹرکھر: مجھے بھٹو اور کھر کے درمیان گرم وسرد تعلقات کو جاننے کا تجسس تھا۔ میں نے تین مرتبہ بھٹو صاحب سے موزوں موقعوں پر پوچھا کہ ان کے اور کھر صاحب کے تعلقات میں اونچ نیچ کی کیا وجہ تھی؟ وہ ہر دفعہ بغیر کچھ بتائے صرف مسکرا دیا کرتے تھے۔ آخر ایک دن کہنے لگے کرنل یہ پالیٹکس کا معاملہ ہے۔ اور پھر میری ٹانگ کھینچتے ہوئے بولے کہ ایک سپاہی کی سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس کے بعد میں نے کبھی دوبارہ ان سے اس معاملے پر بات چیت کرنے کی جرأت نہ کی۔
ح) مسٹر انوارالسادات: ایک دن شاید اخبارات میں مصر یا اسرائیل کے متعلق کسی خبر کو پڑھ کرکہنے لگے کہ صدر مسٹرسادات‘ نے عرب مفادات کو امریکیوں کے دباؤ میں آ کربہت نقصان پہنچایا ہے۔ کہنے لگے انوارالسادات کو ایک نہ ایک دن اپنی قوم کو جواب دینا پڑے گا۔ انہیں اصولوں کو اس طرح بالائے طاق نہیں رکھنا چاہئے تھا۔ بھٹو صاحب نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے اور مصر ۔اسرائیل تعلقات کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ کہنے لگے جو لیڈر بھی قومی امنگوں کی پروہ نہیں کرتا‘ قوم بھی اس کی پرواہ نہیں کرتی۔ مسٹر سادات کو ایک نہ ایک دن اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ چند سال بعد انوارالسادات کو جب ایک قومی دن کی تقریبات کے دوران چند فوجیوں نے گولیوں سے چھلنی کرکے قتل کر دیا تو مجھے بھٹو صاحب کی باتیں یا د آئیں۔
جنرل ضیاء الحق: ہمارے درمیان جنرل ضیاء الحق صاحب کے متعلق بہت کم گفتگو ہوئی۔ ایک دن کہنے لگے‘ جنرل ضیاء الحق کو سیاسی لوگوں سے بے انتہامصیبتیں دیکھنی پڑیں گی۔ ان کیلئے یہ حکومت پھولوں کی سیج ثابت نہ ہو گی۔
دو یا تین مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ میں بعد دوپہر بھٹو صاحب کے ساتھ سیکیورٹی وارڈ کے صحن میں بیٹھا ہوا تھا کہ جنرل ضیاء الحق صاحب کی سواری جیل کی دیوار سے متصل سڑک پر سے گزری۔ ان کی سواری کے آگے ہوٹر والی گاڑی ہوتی تھی جو ہوٹر بجا کر ہر ایک کو خبردار کرتی جاتی تھی کہ صدرِپاکستان کی سواری گزر رہی ہے۔ اس گاڑی کے ہوٹر کی آواز سن کر ہر دفعہ میں نے بھٹو صاحب کے چہرے پر ایک خاص غصّے کی علامت دیکھی اور ان کو موڈ کافی دیر تک کچھ ناساز سا رہتا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں )

کمپوزر: طارق عباس