ملائشیا کی عورتیں
گاڑی سگنل پر رکی ہے۔ گاڑی کے چلنے سے جو ایک مشینی سا شور بپا تھا، وہ تھم گیا ہے۔سو اب بارش کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ سگنل پر زیادہ گاڑیاں نہیں رکیں۔ ہلکی بارش میں ٹریفک سگنل کی سرخ بتی گاڑی کے شیشے پر پڑی بوندوں پر کچھ پھیل سی گئی ہے اور ماحول کو مزید خواب ناک بنا رہی ہے۔ گاڑی میں مدھم آواز میں بہت دھیمے سروں کا ایک گیت بج رہا ہے۔ گائیکہ کی آواز بہت سریلی ہے، ہندی یا بنگلہ دیشی سریلا گلا۔ گیت کے بول سمجھ سے باہر ہیں۔ سجاد بھی کھڑکی سے باہر متوجہ ہیں۔وہ بھی شاعر ہیں، سو شاید کچھ لفظوں کے تانے بانے بن رہے ہوں۔ملک سے باہر جائیں تو انگریزی زبان ہی رابطے کا واحد ذریعہ لگتی ہے سو گاڑی کی ڈرائیور لڑکی سے میں نے کچھ پوچھنے کی اجازت لی اورپوچھا کہ آپ کون سی زبان کا گیت سن رہی ہیں۔ اس نے بتایا تامل۔ اوہ گائیک کون ہے۔ وہ نہیں جانتی تھی۔ میں نے پھر دریافت کیا کہ یہ تامل ریڈیو ہے غالبا اور وہیں کے گیت بج رہے ہیں، تو اس نے بتایا کہ وہ تامل گیت ہی سنتی ہے۔
ہاں اب وہ ہندی فلمیں دیکھنے اور ہندی گیت بھی سننے لگی ہے ورنہ اس کے بڑے ابھی بھی گھر میں تامل زبان اور گیتوں ہی سے دل بہلاتے ہیں۔اس کے بزرگ چار پیڑھیاں پہلے ملائشیا میں آ بسے تھے مگر اپنی زبان، اپنے بھگوان اور اپنی شناخت کو نہیں بھولے۔ جویتھا نے اپنی ٹیکسی بھی ان تینوں سے سجا رکھی تھی۔ مورت بھی تھی، تامل گیت بھی اور جویتھا کا لباس بھی روایتی تھا۔اس سے بہت باتیں ہوئیں۔ رات کے دس بج رہے تھے اور میرا ازل سے ایک ہی مسئلہ، وہی عورت اور اس کی شناخت کا مسئلہ؛ جس کو حل کرنے کی کھوج جانے کب کب اور کس کس سے کیا کیا سوال کروالیتی ہے۔ میں صنفی مطالعات کی ایک بین الاقوامی کانفرنس کے سلسلے میں کوالا لمپور آئی تھی،جس میں میں نے اپنا تحقیقی مقالہ بھی پیش کیا، ایک سیشن کی صدارت بھی کی اور ایک پینل کا حصہ بھی تھی۔ کانفرنس بکت بنتانگ میں واقع فیڈرل ہوٹل میں منعقد ہوئی۔ ہمارا قیام ہولی ڈے اِن ایکسپریس میں تھا جو وہاں سے بذریعہ گاڑی، محض چھے سات منٹ کی دوری پرواقع تھا۔ میں جن دو دنوں میں کانفرنس میں مصروف رہی،وہ دن سجاد نے شہر کی گلیوں اور بازاروں کو دریافت کرنے میں گزارے۔وہاں ٹیکسی ایپ گریب استعمال ہوتی ہے۔
عام ٹیکسی اگر آپ کو کہیں پندرہ رنگٹ میں لے جاتی ہے تو گریب پر آپ کو صرف پانچ رنگٹ خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ایک روز کانفرنس سے اپنے ہوٹل آتے ہوئے بھی خاتون گریب ڈرائیور ملی۔ وہ سفید فام تھی، سہ پہر کے چار بج رہے تھے سوزیادہ اچنبھا نہ ہوا۔ ویسے بھی دوتین دن میں تھائی، چینی اور جاپانی گڑیاؤں کو اتنا دیکھ لیا تھا کہ عورت کو پاکستانی معاشرے اور منظر کی نظر سے دیکھنا کم ہو گیا تھا۔ اس سے اتنا ضرور دریافت کیا کہ یہاں بہت سی عورتیں ٹیکسی چلا رہی ہیں، کبھی کوئی معاشرے کو مسئلہ، مردوں کو مسئلہ، کوئی ہراسگی کا واقعہ۔ اس نے ہنستے ہوئے بتایا کہ ایسا کچھ نہیں اور وہ کافی عرصے سے یہ کام کر رہی ہے۔مگر ٹیکسی میں ایک عورت ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ کر بہت اچھا لگ رہا تھا۔ شدید رش کے اوقات میں بھی مہارت سے ٹیکسی چلاتی یہ عورت کسی موڑ پر کسی خوف یا خدشے سے دوچار نہیں تھی۔ پاس سے گزرتی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں میں بیٹھے لوگوں کو کوئی پروا نہیں تھی کہ اس گاڑی کو چلانے والی عورت کہیں گاڑی ریورس کرتے ہوئے کسی کو مار نہ دے یا اس کے سنہرے بال اور مغربی لباس اور اکیلے سڑک پر گاڑی لے آنا دراصل کوئی بلاوا ہے۔میری آنکھوں کے سامنے ایک جھپاکے سے وہ تصویر آئی جو میں نے سوشل میڈیا پر حال ہی میں دیکھی تھی: ایک چنگ چی رکشا چلاتی عورت جس کے آس پاس کھڑے موٹر سائیکل سوار اور راہگیر اسے گھور بھی رہے تھے اور شاید آوازے بھی کس رہے تھے۔
اس تصویر کے ساتھ مجھے وہ تمام واقعات یاد آئے جب عورت ڈرائیور کو دیکھتے ہی مرد حضرات کچھ نہ کچھ کہہ ہی جاتے تھے۔ کبھی گاڑی بیک کروانے پر ہجوم تو کبھی عورت کو ڈرائیونگ سیٹ پر دیکھ کر ریس لگانے کی کوششیں۔ اب یہ گہری سانولی رنگت والی جویتھا، اور رات کے ساڑھے دس! پھر سے دل میں آئی کہ اس کے جواب سے تشفی ہو جائے اور اس شہرِ بے مثال کی آسمان کو چھوتی عمارتوں کی قامت کی درازی کا کچھ بھرم کھلے اور کچھ پیچ و خم اپنی مرضی کے مطابق بھی نکل آئیں۔میں نے پوچھا کہ رات کے اس پہر ٹیکسی چلانا کیا کسی مشکل کا سبب نہیں بنتا۔ اس نے کہا نہیں۔ میں دن میں ایک دفتر میں کام کرتی ہوں اور رات کو ایک آدھ گھنٹہ ٹیکسی چلاتی ہوں تاکہ کچھ اور پیسے بنا لوں۔ اس نے ہمیں سبنگ ائرپورٹ سے لیا تھا اورکوالا لمپور میں ہمارے ہوٹل تک تقریبا اٹھائیس کلو میٹر کا سفر تھا۔ اس نے واپس سبنگ آنا تھا اور کوالا لمپور سے کوئی سواری بھی ساتھ لانا تھی۔ اس تمام عرصے میں ایک بھگوان گنیش کی مورت کی ہمراہی تھی یا سریلے تامل گانے ورنہ اس سپتری کے لیے گھر سے کوئی فون آیا نہ اس کا ہی من تھا کہ وہ جلدی گھر پہنچے یا’ دس بجے کے بعد گھر سے باہر پائی جانے والی عورت‘ ہونے کی وجہ سے ہم سے کوئی گپ شپ ہی کرے۔ ایک مکمل کام سے کام رکھنے والا رویہ؛ سواری کو بے وجہ تنگ نہ کیا جائے اور سواری کچھ پوچھے تو مسکراہٹ کے ساتھ تشفی بھراجواب دیا جائے۔کوالا لمپور میں داخل ہوتے ہی مرکزی شاہراہ پر کافی رش تھا اور جویتھا نے رش میں رکنے کی بجائے مہارت سے گلیوں میں گاڑی بھگائی۔ کوالا لمپور کی فلک بوس عمارتوں سے کچھ الگ زندگی؛ گلیاں، مکان اور مکانوں کی عمودی چھتیں دیکھنے کا موقع بھی ملا۔
جویتھا نے بتایا کہ اس کے چینی ہمسائے ہم لوگوں کو اتنا پسند نہیں کرتے کیوں کہ ہم نے گھر میں کتا پال رکھا ہے اور چینی گھر میں کتا رکھنا نہیں پسند کرتے۔ اس کا کہنا تھا کہ ہم ایک خطرناک علاقے میں رہتے ہیں سو کتا رکھنا ضروری ہے۔ میرے دل کو خطرناک علاقے کا سن کر کچھ ”اطمینان“ محسوس ہوا ورنہ تین دن میں صرف ایک بوڑھا فقیر دیکھا تھا اور ارد گرد پھرتے ہزاروں لوگوں کو خود میں مگن دیکھا تھا یعنی چوری چکاری کا کوئی ڈر محسوس نہیں ہوا۔سو ان اونچی عمارتوں اور چمکتی دکانوں سے پرے کچھ ایسے علاقے بھی ہیں جنہیں خطرناک کہا جاتا ہے۔
ملائشیا میں بسنے والی تین اقوام یعنی ملائی، چینی اور ہندو عورتوں میں ایک قدرِ مشترک ان کی آزادی اور بے خوفی تھی۔ تینوں کے لباس الگ تھے۔ چینی عورتیں اور ساتھ ساتھ جاپانی اور تھائی عورتیں بھی لباس کے معاملے میں بہت آزاد خیال واقع ہوئی تھیں۔ ہندو اور تامل اپنی ساڑھیوں یا شلوار قمیض میں ملبوس ملتی تھیں اور ملائی عورتوں کے سر پر سکارف ان کے لباس کاایک لازمی عنصر تھاچاہے وہ اپنا روایتی لباس سورنگ پہنیں یا جینز۔ مگر بالکل جدا حلیے ان کے چہروں پر آزادی اور مکمل پن کو الگ رنگ نہیں دے سکے۔ہم جب خوب صورت جزیرے لنکاوی گئے، تو لنکاوی میں زیادہ ملائی عورتیں ملیں۔ وہ گلیوں میں، اپنی دکانوں میں اور اپنے مساج سینٹرز میں بہت اطمینان سے بیٹھی یا چلتی پھرتی نظر آتی تھیں۔
آپ ان سے کوئی بھی بات پوچھیں، کسی بھی موضوع پر گفتگو شروع کر دیں، وہ حاضر تھیں۔ نہ گھبرانا اور نہ شرمانا۔ اس کی ایک وجہ تو ایک گریب ڈرائیور کی زبانی پتا چلی جب اس نے بتایا کہ وہ دن میں نوکری کرتا ہے اورشام میں اور ویک اینڈ پر گریب چلاتا ہے۔ اسے دس ہزار رنگٹ اکٹھا کرنے تھے تا کہ وہ اپنی شادی کروا سکے۔ اس نے اسی سال بی بی اے کیا تھا اور ایسے کم عمر لڑکے کی شادی کا خرچہ بھی اسے خود ہی اٹھانا تھا، ماں باپ کو نہیں۔ اس نے کہا مجھے پہلے گھر بنانا ہے یا کرایے پر لینا ہے تا کہ میں اپنی بیوی کو رکھ سکوں۔ جب اس سے پوچھا کہ بیوی کیا لائے گی۔ اس نے حیرت سے کہا، کچھ نہیں۔ یا اس کی مرضی جو اپنے لیے لے آئے۔ پھر پتا چلا کہ جہیز کا کوئی تصور نہیں۔ یا خدا یہ کیا معاشرہ ہے۔ جہیز کا تصور نہیں۔ عوررتوں پر تنگ نہیں۔ہے تو اسلامی اور ملائی عورتوں کے سر پر سکارف کس کر بندھے ہیں، مگریہ عورتیں آنکھوں میں روشنی، چہرے پر پر اعتمادی لئے کس سکون سے گھر سے باہر دندناتی پھر رہی ہیں۔