فائنل سے پہلے فائنل
کرکٹ ورلڈ کپ کا 43واں میچ پاکستان بمقابلہ بنگلہ دیش بروز جمعہ کھیلا جائے گا۔یہاں تک پہنچنے کے لیے قومی ٹیم کو کئی دریا عبور کرنے پڑے۔انڈیا سے شکست کے بعد ہر میچ میں محسوس ہوتا تھا کہ سیمی فائنل تو دور اس میچ کو جیتنا بھی مشکل ہو چکا ہے لیکن ہمارے کھلاڑیوں نے ہمت نہیں ہاری۔میں تو یہ کہوں گی کہ پاکستان جس کو چاہے ہرا سکتا ہے اور جس سے چاہے ہار سکتا ہے۔یہ پاکستان بمقابلہ اپوزیشن نہیں،یہ پاکستان بمقابلہ پاکستان ہے۔لیکن میں اس کو اس انداز میں لیتی ہوں کہ یہ کوئی عام میچز نہیں یہ ورلڈ کپ کہلاتا ہے جس میں دنیا کی دس بہترین ٹیمیں نبرد آزما ہیں۔
جس میں ہمارے ملک و قوم کی عزت داؤ پر لگی ہوئی ہے پوری ٹیم کو متحد ہو کر باقی میچز میں مقابلہ کرنا ہو گا۔سیمی فائنل میں پہنچنے کے لیے ایک آخری گہرے سمندر کا سامنا ہے۔بنگلہ دیش سے مقابلہ کٹھن منزل والا مقابلہ ہو گا۔میرے حساب سے کپتان اور ٹیم انتظامیہکو بنگلہ دیش کے جنوبی افریقہ،ویسٹ انڈیز اور بھارت کے خلاف میچز کو دیکھنا ہو گا اور ان کی کمزوریوں کی نشاندہی کر کے انہیں ٹارگٹ کرنا ہو گا۔اس میچ میں محمد حفیظ،سرفراز احمد،امام الحق اور باقی پلیئروں کو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہو گا۔جس طرح عماد وسیم نے افغانستان کے خلاف جار حانہ اور سمجھ بوجھ سے اننگ کھیلی اسی طرح ہر کھلاڑی کو اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ہماری باؤلنگ بہت بہتر ہے عا مر،وہاب اور شاہین اپنی بھر پور فارم میں ہیں اور اگر انہوں نے لائن لینتھ پر باؤلنگ کی تو کوئی وجہ نہیں کہ میچ ٹیم کے نام نا ہو اور یہی ٹیم سیمی فائنل میں رسائی حاصل تک رسائی نا کر سکے۔
کپتان سرفراز کی نااہلی کا رونا تو ہر کسی نے رویا ہے لیکن چیز یہ ہے کہ سرفراز کو اب ایک آخری موقع قدرت کی طرف سے مل رہا ہے کہ بنگلہ دیش کو ہرا کر سیمی فائنل اور فائنل جیت کر تاریخ کو دہرا دیا جائے۔ان کی اب تک جو کمزوریاں نظر آئیں ہیں کہ وہ دباؤ میں باؤلرز اور بیٹنگ کا بہترین استعمال نہیں کرتے۔کسی بھی میچ کو جیتنے کے لیے بر وقت دماغ کا استعمال بہت ضروری ہے۔میرے حساب سے پاکستان اگر ٹاس جیتی تو بنگلہ دیش کو بیٹنگ کی دعوت دینی چاہیے کیونکہ بنگلہ دیش ہدف کا تعقب زیادہ اچھے انداز میں کرتی ہے۔
شکیب الحسن اور مشفیق کو اپنے سپنرز کے ذریعے جال میں پھنسا نا ہو گا اگر قومی ٹیم نے ان دونوں کھلاڑیوں کو جلد آؤٹ کر لیا تو انہیں ہرانا آسان ہو جائے گا۔ کیونکہ بنگلہ کوچ نے انہیں گزشتہ ایک سال میں اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ کسی بھی ٹیم کا مقابلہ اس ایونٹ میں بڑی دلیری کے ساتھ کرتی نظر آئی ہے۔ محمد عامر اور شاہین ہمیشہ کی طرح موثر ثابت ہو سکتے ہیں گیند پرانا ہونے پر وہاب کا استعمال کار آمد ثابت ہو سکتا ہے لائن لینتھ میں بال کریں اور پریشر میں نا آئیں،درمیان کے اوورز میں عماد اور شاداب کا استعمال کیا جانا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔جبکہ اس میچ میں فخر کو آرام دے کر آصف کو مڈل آرڈر میں شامل کیا جائے اور حفیظ کو اوپن کروائی جائے۔جبکہ فیلڈنگ کیویز والے میچ کی طرح کرنے کی ضرورت ہے۔باقی پوری قوم دعا گو ہے کہ ہماری ٹیم کامیاب ہو کر واپس لوٹے۔