پاک چین دوستی،شہد سے میٹھی کیوں؟
آپ چین جانا پسند کریں گے،شعیب بن عزیز صاحب نے فون پر سلام دعا کے بعد کہا جو سوال سے زیادہ برادرانہ حکم تھا، جس سے انکار ممکن ہی نہ تھا ،جی بھائی جان ،اور کون کون جا رہا ہے،میں نے پوچھا ، مظہر برلاس اور میاں سیف الرحمان کے نام سن کر دل میں اطمینان ہوا کہ سفر اچھا رہے گا۔ ۔ڈاکٹر ظفر صاحب ،چینی قونصلیٹ لاہور کے تعاون سے ایک وفد لے کر چین جا رہے ہیں آپ اس کا حصہ ہوں گے۔اگلے چند روز میں چینی سفارت کاروں اور ڈاکٹر ظفر صاحب کے ساتھ ہائی ٹی ،دورے کی بریفنگ اور ویزے کے مراحل بآسانی طے ہو گئے ۔ڈاکٹر ظفر صاحب کے ساتھ پہلا انٹر ایکشن تھا،کمال کے آدمی ہیں ،پاک چین دوست پروموٹ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔وفد کے ارکان کا خیال تھا کہ شائد ڈاکٹر صاحب کا چین اور پاکستان میں کوئی لمبا چوڑا بزنس ہے ،جو غلط ثابت ہوا ۔موصوف چینی زبان بولتے اہل زبان لگتے ہیں۔چین میں پاکستانی سفارت خانے میں اہم ذمہ داریاں ادا کرتے رہے ہیں اور یہ کام اب بلا معاوضہ کرتے ہیں۔ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے پاک چین دوستی شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔ہمارے وفد میں پلاک لاہور کی ڈائرکٹر جنرل محترمہ صغری صدف،روزنامہ دنیا کے سینئر صحافی اور کالم نویس آصف عفان،پیارے بھائی اور ملتان آرٹس کونسل کے ڈائرکٹر سجاد جہانیہ، مسلم لیگ (ن) کے محمد مہدی ، کالم نگاروں کی ایک تنظیم کے صدر اور انتہائی متحرک ملک سلمان ،سینئر فوٹو جرنلسٹ محمد عامر،پی ٹی وی کی کومل سلیم،اور فری لانسریاسر حبیب خان شامل تھے۔ دورے کی تیاری کرتے وقت مجھے یاد آ رہا تھا کہ پاک چین دوستی کی ابتدا21 مئی 1951ء سے ہوئی، پاکستان مسلم دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے چین کو تسلیم کیا۔ اس سفارتی پیش قدمی کو چین نے کبھی نہ بھلایا۔ باضابطہ سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد دوطرفہ تعلقات کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو تمام موسموں اور حالات کے اتار چڑھائو کے باوجود قائم و دائم ہے۔ دراصل اس تعلق کو شروع ہی سے ایک دوسرے کی عزت اور ملکی مفادات کو محترم رکھنے کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا۔ لہٰذا دونوں ممالک نے ہمیشہ ایک دوسرے کی علاقائی اور بین الاقوامی پالیسیوں کی حمایت کی۔بھارت کی چین کے ہاتھوں 1962 کی جنگ میں شکست سے جنوبی ایشیا کی سیاست میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اسی زمانے میں پاکستان اور چین کے درمیان سرحدی حد بندی کی بات چیت شروع ہوئی۔ دراصل اس وقت چین بھی دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ وہ اپنے تمام ہمسایوں کے ساتھ مناسب اور دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتا ہے۔ جبکہ امریکہ کی بھارت کو فوجی امداد نے پاکستان کو اتحادی بننے کی پالیسی سے بیزار کر دیا تھا۔ پاکستان یہ جان چکا تھا کہ بھارت کے امریکی ہتھیار نہ صرف چین بلکہ پاکستان کے خلاف بھی استعمال کئے جائیں گے اس کے ساتھ ساتھ پاکستان دنیا میں ایک آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی اپنانے کا خواہشمند بھی تھا۔ انہی ساری وجوہات نے پاکستان اور چین کو بہت قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ سرحدی حد بندی کے معاہدے پر مارچ1963 میں دستخط ہوئے۔ جس کے تحت پاکستان نے1,942کلومیٹر مربع میل کا سرسبز علاقہ حاصل کیا۔ اس معاہدے پر بھارت نے سخت اعتراض کیا۔ پاکستان اور چین نے فضائی تعاون کا معاہدہ بھی کیا جس کے تحت ڈھاکہ کینٹن شنگھائی فضائی سروسز کا قیام عمل میں لایا گیا۔اس معاہدے کی اہمیت اس لئے بھی بہت زیادہ تھی کہ پاکستان نے اس معاہدے کی بنا پر ان تمام کوششوں کو پسِ پشت ڈال دیا تھا جو بین الاقوامی سطح پر چین کو تنہا کرنے کے لئے کی جارہی تھیں۔
1965ء کی جنگ میں پاکستان کی چین سے دوستی نے بھارت پر ایک دبائو رکھا۔ اس چینی پالیسی سے روس اور امریکہ کے رویے میں بھی تبدیلی آئی اور دونوں ممالک نے پاکستان اور بھارت پر زور ڈالا کہ وہ سلامتی کونسل کی قرارداد کے تحت جنگ بندی پر عمل کریں ۔ چین کی اس پالیسی سے جنوبی ایشیا میں امن کی کوششوں کو تقویت ملی۔
صرف یہی نہیں 1966 ء میں جب امریکہ نے پاکستان پر فوجی سازوسامان کی ترسیل بند کی اس وقت بڑی تعداد میں چینی ہتھیار جن میں ایم آئی جی 15اور ٹینک شامل ہیں یومِ پاکستان کی پریڈ میں نمائش کے لئے پیش کئے گئے۔ ساتھ ہی1966 ء میں دونوں ممالک کے درمیان120 ملین کی فوجی امداد کے معاہدے پر دستخط بھی ہوئے۔ دراصل ان سارے تعلقات سے دنیا کو اور خاص طور پر پاکستان کے
دشمن بھارت کو ایک واضح پیغام دیا گیا تھا کہ پاکستان چین کے ساتھ کھڑا ہے۔
تعلقات میں اہم سنگِ میل شاہراہ ریشم کا راستہ کھلنا تھا۔ جس نے چین کے صوبہ سنکیانگ کو وادی ہنزہ سے ملادیا تھا۔1969 تک شاہراہ قراقرم پر کام جاری تھا۔ اس شاہراہ پر تقریبا15000 پاکستانی اور چینی مزدوروں نے صبح شام کی انتھک محنت کے بعد تقریبا774کلومیٹر لمبی اور16,072 فٹ اونچائی پر کام مکمل کیا۔ شاہراہ قراقرم نے تعلقات کو مزید وسعت دی جو سیاسی تعلقات کے بعد معاشی ، فوجی اور معاشرتی تعلق کی صورت میں وسیع تر ہوگئی۔
پاکستان کی سفارتی تاریخ کا ایک عظیم حصہ وہ تاریخی کردار ہے جس کو نہ صرف چین نے بلکہ دوسرے ممالک خاص طور پر امریکہ نے بھی سراہا۔ پاکستان نے امریکی سیکرٹری خارجہ ہنری کسنجرکے بیجنگ کے خفیہ دورے کے انتظامات کئے۔ جس کی وجہ سے چین امریکہ سفارتی تعلقات قائم ہوسکے۔ انہی تعلقات کی وجہ سے امریکہ نے چین کی اقوامِ متحدہ میں رکنیت کی مخالفت ترک کی اور چین اقوامِ متحدہ کا ممبر اور سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بن سکا۔ اس کے علاوہ پاکستان نے چین اور عرب دنیا خاص طور پر سعودی عرب کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا۔ اس پاکستانی کردارکو چین نے کبھی فراموش نہیںکیا۔ چین نے شروع ہی سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی حمایت کی ۔ خاص طور پر اقوامِ متحدہ اور دوسرے بین الاقوامی فورمز پر مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کی قرارداد کی روشنی میں حل کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور بار بار پاکستان کی اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل میں حمایت کی۔ خاص طور پر جب امریکہ نے بھارت کو سلامتی کونسل کا ممبر بنانے کی کوششیں شروع کیں تو چین نے شروع ہی سے اس کی شدید مخالفت کی.