”کرسی مضبوط“ اور 4جولائی 77ء

”کرسی مضبوط“ اور 4جولائی 77ء
”کرسی مضبوط“ اور 4جولائی 77ء

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


قدرت کے نظام کے تحت زمین اپنے محور پر گھومتی ہے اور مہ و سال بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں، چنانچہ انسان نے اپنی ذہانت کے استعمال سے اس گردش کے حوالے سے جو اصول متعین کئے وہ بھی ساتھ چلتے ہیں، چنانچہ ہر سال میں جو بارہ مہینے مقرر ہیں، وہ اپنے اپنے وقت پر آتے جاتے رہتے ہیں۔ انسانی تاریخ بھی انہی ایام اور ماہ و سال کے تناظر میں تحریر ہوتی ہے، چنانچہ جب بھی کوئی مہینہ آتا ہے تو ساتھ ہی ماضی میں اس کے دوران گزرے واقعات کا بھی ذکر شروع ہو جاتا ہے۔ جولائی ہر سال آتا اور جب تک دنیا قائم اور اپنے محور پر گھوم رہی ہے،اسے ہر سال آنا ہے، جب بھی یہ مہینہ آتا ہے تو 43سال قبل وقوع پذیر ہونے والے عمل کی بازگشت بھی سنائی دینے لگتی ہے، جب ایک آمر نے ایک منتخب حکومت کو چلتا کیا اور پھر عام انتخابات کے انعقاد کے وعدے کو بھی پر کاہ کی حیثیت نہ دی اور گیارہ سال حکومت کرکے اللہ کو پیارے ہو گئے، آج کے حالات میں اس بار کچھ حضرات نے زیادہ ہی شدت سے اس دور کو یاد کیا اور ہر ایک نے اپنے اپنے نقطہ ء نظر سے بات کی،

اس سلسلے میں دو باتوں کا خاص طور پر ذکر ہوا۔ ایک تو اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان قومی اتحاد کے وفد کے درمیان ہونے والے مذاکرات اور 4 جولائی 77ء کے اجلاس کی روائداد کا حوالہ آیا اور دوسرے حالات حاضرہ میں ”کوئی متبادل نہیں“ اور ”کرسی مضبوط ہے“ کا ذکر ہوا۔ حضرات نے اپنے اپنے موقف کی بات کی اور یوں یہ مسئلہ الجھا سا نظر آیا، حالانکہ اس میں الجھن کی کوئی بات نہیں، البتہ الفاظ کا ہیر پھیر ضرور ہے، ہم اس دور میں رپورٹنگ کے فرائض انجام دینے کی وجہ سے ان حالات سے منسلک رہے اور عینی شاہد کی حیثیت بھی رکھتے ہیں،1977ء کے عام انتخابات، اس کے لئے پاکستان قومی اتحاد کا قیام، اس کے پس منظر اور پھر اس تحریک کی بھی کوریج کی جو عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزام سے شروع ہوئی۔ نظام مصطفیؐ کے قیام کے مطالبے میں تبدیل ہو کر مارشل لاء کی آمد پر منتج ہوئی۔ پھر اس ”تبدیلی“ کی حمائت، اس سے مایوسی اور اس دوران ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت کے بعد اس پر عمل درآمد ہوا، اس دوران ہونے والے احتجاج ان پر مظالم،کوڑے، قید اور اموات کا سلسلہ بھی پیش آیا اور پھر پاکستان قومی اتحاد بھی مایوس ہوا۔


یہ سب واقعات تاریخ کا حصہ ہیں اور اخبارات کی فائلوں میں بھی موجود اور کئی کتابیں بھی تصنیف ہو چکیں ہمیں تو آج صرف دو باتوں پر رائے دینا ہے اور عرض یہ ہے کہ یہ رائے غیر جذباتی اور واقعاتی ہے۔ ہم نے اس سے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا۔ البتہ کوشش یہ ہے کہ جو ہمارے سامنے گزرا اسے اسی طرح پیش کر دیا جائے کہ یہ واقعات ہیں جو ہمارے مشاہدے سے گزرے اور ہم نے اپنے اخبار کے لئے رپورٹ بھی کئے، یہ تحریک کے دنوں ہی کا ذکر ہے، لاہور کی مسجد نیلا گنبد سے احتجاجی جلوس نکلتا اور فیصل چوک تک جا کر اختتام پذیر ہوتا، ابتداء میں تعداد معقول اور پھر بڑھتی چلی گئی، نوبت یہاں تک آ گئی کہ جلوس کا پہلا قدم ریگل چوک پہنچتا تو آخری حصہ جی پی او والے چوک میں ہوتا تھا۔ مال روڈ کے دونوں طرف سروس روڈز پر بھی لوگ ہوتے اور یہاں اسلامی جمعیت طلباء کے نوجوان موٹرسائیکلوں پر موجود رہتے۔ اکثر یہ حضرات لنچ بکس تقسیم کرتے اور بعض کمزور حضرات کو ہسپتال بھی لے جاتے رہے۔ تحریک کے اسی دوران 9اپریل کا پرتشدد دن بھی آ گیا۔

قائدین آگے تھے، جلوس پر امن تھا ہم سروس روڈ پر قائدین والے حصے سے کچھ پیچھے چل رہے تھے۔ ابھی قائدین ریگل چوک پہنچنے ہی والے تھے کہ دیال سنگھ مینشن کے سامنے والے حصے میں جلوس کے بعض شرکاء نے (یقینا یہ پی این اے والے نہیں ہو سکتے) اچانک چند پتھر یا اینٹوں کے ٹکڑے فضا میں اچھالے، یہ اوپر سے نیچے آکر پرجوش ہجوم میں لگے تو بھگڈر کی کیفیت ہوئی۔ ادھر پولیس نے قائدین کو چوک میں روکنے کی کوشش کی اور یوں شرکاء جلوس اور پولیس کے درمیان تصادم ہو گیا۔ نوجوان قائدین کو تو دائیں طرف سے نکال کر لے گئے اور تصادم روائتی صورت اختیار کر گیا۔ لاٹھی چارج، آنسو گیس اور جوابی پتھراؤ، مال روڈ میدان کارزار بن گیا،ہم بچ بچا کر دیال سنگھ مینشن میں پریس کلب کی چھت پر چلے گئے، وہاں چاچا ایف ای چودھری اور دوسرے رپورٹر بھی تھے۔ تصادم بڑھا تو پہلے پولیس کی طرف سے ہوائی فائرنگ ہوئی۔بعض گولیاں دیال سنگھ منشن کی بلڈنگ کے اس حصے سے بھی گزریں، جہاں ہم لوگ کھڑے دیکھ رہے تھے، اس روز چند مظاہرین جاں بحق اور متعدد زخمی بھی ہوئے۔ یہ تحریک میں اور زیادہ جان پیدا کرنے والا حادثہ بن گیا اور اسی روز چودھری اعتزاز احسن نے جو صوبائی وزیر اطلاعات تھے، اسمبلی چیمبر میں ہم رپورٹر حضرات کی موجودگی میں پولیس تشدد پر احتجاج کرتے ہوئے وزارت سے استعفے بھی دے دیا تھا۔


اس روز کے اس پرتشدد واقع کی تفصیل کا تعلق 19اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کی گورنر ہاؤس کے دربار ہال میں ہونے والی پریس کانفرنس سے بنتا ہے، یہ پریس کانفرنس بڑھتی ہوئی تحریک کے حوالے سے پرہجوم تھی۔ یہاں سابق وزیراعظم نے جمعہ کی چھٹی، شراب اور جوئے پر پابندی اور اسلامی نظام کے لئے کمیٹی بنانے جیسے اہم اعلان کئے، مقصد قومی اتحاد کے مطالبات والے غبارے سے ہوا نکالنا تھا، اسی پریس کانفرنس میں جب ایک غیر ملکی رپورٹر نے بھٹو صاحب سے پوچھا کہ وہ تو چند جنرل حضرات کے گھیرے میں ہیں، سوال کرنے والا سوال کرکے بیٹھ گیا تو مسٹر بھٹو نے پوچھا، کس نے سوال کیا، وہ صاحب کھڑے ہوئے اور بتایا ”میں نے پوچھا ہے“ اس وقت کے وزیراعظم نے پھر یہ دریافت کیا کہ ان کا تعلق کس ادارے سے ہے جواب ملا ”بی بی سی“ (وہ مارک ٹیلی نہیں تھے، لندن سے آئے تھے) بھٹو صاحب نے بڑے پرجوش انداز میں کرسی کے ہتھے پر ہاتھ مارا اور بولے! ”کس کی جرات ہے، ایسا کر سکے، یہ کرسی بڑی مضبوط ہے“ اس سے ان کی مراد غالباً وزیراعظم کے اختیارات سے تھی، دل کا حال اللہ جانتا ہے، ہم نے یہ سب آنکھوں دیکھا اور رپورٹ کیا، حال بیان کیا ہے، نتائج اخذ کرنا قارئین کا اپنا اختیار ہے کہ آنے جانے کے حوالے سے ان کی رائے کیا ہے اور کیا بنتی ہے۔


ایک وضاحت اور عرض کر دیں کہ 4-5 جولائی کی شب پیپلزپارٹی اور پاکستان قومی اتحاد کے مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی کے حوالے سے بھی تنازعہ ہے۔ ہم پہلے بھی عرض کر چکے، اب پھر گزارش کرتے ہیں کہ نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم نے آن دی ریکارڈ یہ بات کہی کہ 4جولائی کو مذاکرات کامیاب ہو گئے تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے شب خون مارا، اپنی تائید میں بزرگ رہنما روزنامہ پاکستان ٹائمز راولپنڈی، اسلام آباد کے 5جو لائی 77ء کے شمارے کا حوالہ بھی دیتے تھے۔ اس روز لیڈ تھی،"Doves Win" اور خبر تھی کہ بھٹو نے مطالبات تسلیم کر لئے اور مذاکرات کامیاب ہو گئے اس حوالے سے جو بھی بات ہو رہی ہے وہ حضرات کی اپنی اپنی ہے۔ ہم نے واقعات کو ویسے لکھ دیا، جیسے دیکھا اور رپورٹ کیا۔

مزید :

رائے -کالم -