لداخ میں آئندہ کیا ہونے جا رہا ہے(1)

لداخ میں آئندہ کیا ہونے جا رہا ہے(1)
لداخ میں آئندہ کیا ہونے جا رہا ہے(1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

1965ء کی پاک بھارت جنگ بین الاقوامی اسلحہ فروشوں کے لئے ایک واٹرشیڈ تھی۔ تین چار گنا کمزور پاکستان نے انڈیا کی اوورآل وکٹری کے سامنے بند باندھ دیا تھا۔ اس کی وجہ بعض حضرات کے نزدیک شاید پاکستانی عوام کا اتحاد و اتفاق تھا یا ہمارے قومی ترانے تھے جو نور جہاں، مہدی حسن اور رانا نے گائے تھے لیکن میرے نزدیک پاک فوج کی بہتر ٹریننگ اوربرتر اسلحہ اور فوجی ساز و سامان تھا جس نے انڈین افواج کو سیالکوٹ، لاہور اور سلیمانکی محاذوں پر روک لیا تھا۔ اگر پاکستان کے پاس دو انفنٹری ڈویژن اور ہوتے اور ہماری آرمرڈ کور امریکہ سے حاصل شدہ جدید پیٹن ٹینکوں پر تکنیکی طور پر بہتر تربیت یافتہ ہوتی تو 7،8 ستمبر 1965ء کو پاکستان نے قصور۔ کھیم کرن محاذ پر انڈیا کے خلاف جو جوابی یلغار (کاؤنٹر اوفینسو) لانچ کی تھی اس کی کامیابی میں صرف ایک آنچ کی کسر باقی رہ گئی تھی۔ ہماری فضائیہ اور بحریہ، ہندوستانی فضائیہ اور بحریہ سے بہتر مسلح اور بہتر ٹرینڈ تھی اس لئے اس 17 روزہ جنگ میں ہم انڈیا کے سامنے ڈٹے رہے بلکہ یہ انڈیا ہی تھا جس نے جنگ بندی کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹایا……
اس جنگ میں عالمی اسلحہ فروشوں نے یہ محسوس کیا کہ اگر انڈیا کو رشین اسلحہ اور ساز و سامانِ جنگ کی راہ سے ہٹا کر مغربی اسلحہ کی طرف لانا ہے تو اس کے لئے خاصی محنت کی ضرورت ہو گی۔ چنانچہ انہوں نے انڈو۔ پاک بریکٹ سے ہندوستان کو نکال کر انڈو۔ چائنا بریکٹ کی طرف لانا شروع کر دیا۔


انڈیا کی افواجِ ثلاثہ 90فیصد رشین سلاحِ جنگ اور رشین فوجی ساز و سامان (Equipment) سے لیس تھیں۔1971ء کی جنگ میں امریکہ نے پاکستان کی طرف سے نگاہیں پھیر کر ہندوستان پر مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا تو دوسری طرف 1980ء کے عشرے میں افغان جہاد نے یہ ثابت کر دیا کہ رشین اسلحہ، امریکی اسلحہ سے کہیں کم کارگر اور کم موثر ہے۔ صرف ایک امریکی سٹنگر نے رشین آرمر اور ائر کو افغانستان کے کوہ و دمن سے نکال باہر کرنے میں ایک کلیدی رول ادا کیا…… 1980ء سے 1990ء تک کا عشرہ بین الاقوامی اسلحہ سازوں اور اسلحہ فروشوں کے درمیان تجارتی جنگ میں ایک نہائت یادگار عشرہ ہے۔ پاکستان نے سوویت یونین کی افغانستان شکست میں ایک اہم رول ادا کیا تھا لیکن جب ضیاء الحق نے اس کی اوٹ میں جوہری بم بنا لیا تو امریکہ نے پاکستان کو مستقل بنیادوں پر چھوڑ کر انڈیا سے مستقل بنیادوں پر عہدِ وفا استوار کر لیا…… وہ دن اور آج کا دن انڈیا، پاکستان کو اپنے مقابلے میں حقیر اور کمزور سمجھتا ہے اور چونکہ اس کو چین کی حریفانہ رقابت کا لولی پاپ دیا گیا اور اس خطے میں ابھرتی ہوئی علاقائی طاقت کا لقب عطا کر دیا گیا تو ہندوستان کے غبارے میں ضرورت سے زیادہ ہوا بھرگئی۔
انڈین آرمی، ائر فورس اور نیوی کے پاس جو رشین بھاری اسلحہ جات تھے ان کو بتدریج امریکی اور مغربی یورپ کے اسلحہ کا عادی بنا دیا گیا۔ دوسری طرف جس رفتار سے انڈیا نے 1980ء کے عشرے کے وسطی برسوں سے لے کر آج تک اپنی اقتصادی پوزیشن کو آگے بڑھایا، پاکستان نے اسی رفتار سے اسے نیچے گرا دیا۔ اس عروج و زوال کے اسباب میں ہمارے فوجی آمروں اور سیاسی لٹیروں نے جو کردار ادا کیا، اس پر کئی ضخیم مقالے تحریر کئے جا سکتے ہیں۔ اور ’الحمدللہ‘ پاکستانی عوام کو اگر نہ بھی بتایا جائے تو ان کو معلوم ہے کہ گزشتہ ربع صدی میں پاکستان نے کیا کھویا اور ہندوستان نے کیا پایا……


اس تمہید کے بعد میں قارئین کو یہ بتانا بھی چاہوں گا کہ انڈین مسلح افواج کے بھاری اسلحہ جات میں مغرب کے اسلحہ فروشوں نے رشین اسلحہ سے اپنے اسلحہ کی طرف سفر میں انڈیا کو چین کا حریف بنانے میں کیا کردار ادا کیا…… آج لداخ کی صورتِ حال پر نگاہ ڈالیں۔ امریکی تزویر کاروں نے انڈین انتظامیہ کو بتا دیا تھا کہ ان کا اصل مقابلہ چین سے ہو گا اور پاکستان اس مقابلے میں چین کے حمائتی کا ایک ”ذیلی کردار“ ادا کرے گا۔ انڈین افواج کو یہ بھی باور کرا دیا گیا کہ اگر چین کا مقابلہ کرنا ہے تو امریکی اور مغربی بوٹوں کو کشمیر میں اتارنے کے لئے راہ ہموار کرنا ہوگی۔ 5اگست 2019ء کو مودی نے لداخ، کشمیر اور جموں کے خصوصی آئینی سٹیٹس کو ختم کرکے ان علاقوں کو انڈین یونین میں ضم کر دیا تو اس کی پشت پر CPEC کا ہوّا بھی تھا جبکہ چین کا یہ پروگرام بیلٹ اینڈ روڈ انی شی ایٹو (BRI) کا حصہ تھا لیکن مغربی دنیا نے اس انی شی ایٹو کو چین کے فوجی ساز و سامان سے لدے قافلوں کے لئے ایک زمینی شاہرگ (Artery) کا نام دیا۔

مغرب کے تزویر کاروں کو دو عالمی جنگوں کا لازوال تجربہ حاصل تھا۔ ان کو معلوم تھا کہ ان شاہراہوں کے توسط سے کیسی کیسی عسکری کامیابیاں اور فتوحات حاصل کی جاتی ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستانی اور ہندوستانی پبلک دونوں نے ان دونوں عالمی جنگوں کا کوئی مطالعہ نہ کیا۔ یہ مطالعہ اگر آیا بھی تو ان ممالک کی افواج کے حصے میں آیا لیکن جب تک عوام، فوج کے ساتھ نہ ہو، کسی بھی آپریشن میں کوئی بہت بڑی کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ ایک ستم یہ بھی ہوا کہ پاکستانی سیاستدانوں نے الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ مل کر عوام کو سیاست گزیدگی کا شکار بنا دیا جبکہ ’جنگ گزیدگی‘ سے بالکل بے خبر بلکہ متنفر رکھا…… لیکن جب تک ’جنگ گزیدگی‘ سے آشنائی نہ ہو، کوئی عظیم کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ چین کی ابھرتی عظمت کی پشت پر چینی عوام کی لانگ مارچ اور 1950-53ء کی کورین وار میں چینی افواج کا عسکری تجربہ ایک بہت بڑا فیکٹر ہے…… ہمارے نوجوانوں کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔


میں آپ کو یہ بتا رہا تھا کہ مغربی اسلحہ فروشوں کے کارٹل نے انڈیا کو یہ یقین دلایا کہ وہ چین کا ہمسر ہے اور چین سے اس کی جنگ انہی میدانوں میں ہو سکتی ہے جن میں 1962ء میں ہوئی تھی۔ چنانچہ انڈیا نے بھوٹان سکم، نیپال اور لداخ کے کوہستانی اور نیم کوہستانی علاقوں میں زمینی مواصلات کا جال بچھانا شروع کر دیا۔ لیکن دوسری طرف انڈیا سے بہت پہلے چین نے بھی تبت کی سطح مرتفع پر ہندوستان کے شمالی علاقوں کے سامنے سڑکوں کا ایک ویسا ہی وسیع جال بچھانا شروع کر دیا جیسا کہ وہ CPEC میں بچھا رہا ہے۔ اس میں دہرا فائدہ یہ ہے کہ اس ”اکنامک کاریڈار“ کو چشم زدن میں ”ملٹری کاریڈار“ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اور مغرب یہی سبق انڈیا کو پڑھاتا رہا ہے کہ لداخ اور کشمیر کے علاقوں کو روائتی جنگ و جدل یعنی کاٹی نیٹک وار فیئر کے میدان ہائے جنگ میں تبدیل کردے۔ لیکن انڈیا کے لئے ایسا کرنے کی راہ میں جموں و کشمیر اور لداخ کی دشوار گزار ٹیرین حائل تھی (اور ہے)۔ پھر بھی اس نے امریکی اور اسرائیلی انجینئروں کی تکنیکی ہدایات کے مطابق ان علاقوں کو ملٹرائز کرنا شروع کر دیا۔


اس کی 8لاکھ فوج وادیء کشمیر میں خیمہ زن ہے۔ اس کے پاس ہر قسم کا ساز و سامانِ جنگ (ہلکا اور بھاری) موجود ہے۔ لیکن اس فوج کو ایک پروفیشنل کمزوری کا بھی سامنا ہے…… اور وہ یہ ہے کہ اس 8لاکھ فوج کے سامنے کیل کانٹے سے لیس کوئی حریف فوج نہیں بلکہ نہتے اور بے بس کشمیری ہیں جن کو دبانے، مارنے، قتل کرنے اور ٹھکانے لگانے میں کسی سخت عسکری ٹریننگ کی ضرورت نہیں۔ اس پیشہ ورانہ کمزوری کا مظاہرہ دونوں عالمی جنگوں میں مغرب اچھی طرح دیکھ چکا ہے۔


دوسری عالمی جنگ میں بظاہر برطانوی اور فرانسیسی افواج کو جرمن افواج پر ہر طرح کی برتری حاصل تھی۔برطانوی ایمپائر میں تو کبھی سورج غروب ہی نہ ہوتا تھا۔18ویں صدی سے 20ویں صدی کے وسط تک برطانیہ دنیا کی واحد سپرپاور تھا۔ روسی افواج پر بھی گریٹ گیم میں اسے برتری حاصل تھی۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ برطانوی فوج، جرمن فوج کے مقابلے میں ایک بہت ”مغرور“ فوج تھی لیکن یہ کہنے میں کچھ باک نہیں کہ دو اڑھائی صدیوں سے برطانوی فوج دنیا کی واحد کامیاب فوج چلی آ رہی تھی جس نے ہر جنگ میں مقابل فریق کو چاروں شانے چت گرا دیا تھا۔ لیکن جس پروفیشنل کمزوری کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے وہ زیادہ دور رس نوعیت کی تھی…… برطانیہ اپنی نو آبادیوں میں ہمیشہ اپنے سے کمزور افواج سے لڑتا رہا تھا۔ ان نوآبادیاتی جنگوں میں اس کا پالا جن لشکروں سے پڑا وہ جدید اسلحہ جات کی بجائے قدیم اسلحہ جات سے ضرور مسلح تھے لیکن انگریزوں کی برتر ٹریننگ اور بہتر weaponary نے ان کو ہر محاذ پر کامیابیاں عطا کیں۔ دوسرے دو براعظموں (افریقہ، آسٹریلیا) کو تو چھوڑیں برصغیر میں 19ویں صدی کے وسط میں (1857ء میں) میں جو جنگ لڑی گئی، اس میں مغل فوج کے پاس ہاتھی، گھوڑے، تیر، کمان، نیزے اور بیل گاڑیاں تھیں جبکہ برٹش فوج اور برٹش انڈین آرمی کے پاس جدید طرز کی رائفلیں، توپخانہ اور گاڑیاں تھیں۔

لہٰذا مقامی فوج نے برطانوی فوج کے ہاتھوں شکست کھائی۔ لیکن اس کے بعد تقریباً کم و بیش ایک صدی تک (1857ء تا 1939ء)برطانوی فوج اپنی نو آبادیوں میں جن حریفوں کے ساتھ برسرِ پیکار رہی وہ اس کے مقابلے میں کہیں کم غیر منظم اور غیر مسلح تھے۔ انڈونیشیا تھا کہ انڈیا، مشرق بعید کے ممالک تھے یا افریقہ کے، ان سب کے پاس جدید اسلحہ جات اور جدید ملٹری ٹریننگ مفقود تھی۔ چنانچہ رفتہ رفتہ یہ ہوا کہ جب برٹش افواج کا سامنا کمزور حریفوں سے ہوا تو ان میں ایک طرح کی سہل کوشی، آرام طلبی، پیشہ ورانہ گھمنڈ اور بے جا دلیری کی منفی خصوصیات پیدا ہو گئیں …… اور جب ستمبر 1939ء میں دوسری عالمی جنگ میں ان اتحادی (برطانوی اور فرانسیسی) افواج کا مقابلہ جرمن افواج سے ہوا تو وہ ہٹلر کی وہ نازی افواج تھیں جو سراپا غرقِ آہن اور جدید وار ٹیکنالوجی والے ٹینکوں اور طیاروں سے مسلح تھیں چنانچہ ”جرمن بلز کریگ“ نے اتحادی روائتی طریقِ جنگ کے بخیئے ادھیڑ کر رکھ دیئے……


اب یہ 8لاکھ انڈین آرمی جو جموں اور کشمیر میں صف بند ہے اس کا حال بھی یہی ہے۔ اس کا مقابلہ جن کشمیری مسلمانوں سے رہا ان کی بے چارگی کو کون نہیں جانتا؟…… یہی وجہ تھی کہ جب 16بہار رجمنٹ کے کمانڈوز کا مقابلہ 15جون 2020ء کی شب چین کی پروفیشنل آرمی سے ہوا تو ان کو لگ پتہ گیا کہ کشمیری عوام اور چینی عوامی فوج میں کیا فرق ہے!
ہم لداخ میں مستقبل میں نظر آنے والے جنگی سنیریو کی بات کر رہے تھے…… (جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -