کیا سارے بحرانوں کے ذمہ داری صرف عمران خان ہیں؟
میں نے جب سے محترم مجیب الرحمن شامی صاحب کے حکم سے ہفتہ وار کالم لکھنا شروع کیا ہے میری کوشش رہی ہے عام آدمی کی زندگی کے مسائل کو عنوان بنایا جائے۔ سیاسی تجزیوں سے ہمیشہ دور بھاگا ہوں گزشتہ 20سال سے زائد عرصہ سے اہل اقتدار سے صحافت کے طالب علم کی حیثیت سے واسطہ رہا ہے۔ حکومتوں کے عروج و زوال کی کہانیاں مختلف انداز میں شائع ہو چکیں ہیں۔ جمہوریت کے معاشرے پر اثرات اور آمریت کے دور کے کاروبار کا علاج بھی دیکھ چکا ہوں۔ آج کے کالم میں آمریت اور جمہوریت کا تقابلی جائزہ مقصود نہیں ہے اس کو پھر کسی وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں مگر جنرل مشرف کے دور اقتدار میں بیرون ملک سے آنے والی سرمایہ کاری رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا عروج اور عام آدمی کی زندگی میں جدت اور تبدیلی تاریخ میں ہمیشہ نمایاں رہے گی۔جنرل مشرف کے طویل اقتدار کی ترقی کے راز فی الوقت ایک طرف ان کا پاکستانی قوم کو الیکٹرونک میڈیا کا تحفہ ایک طرف علیحدہ علیحدہ کتابیں مرتب کی جا سکتی ہیں۔
پیپلزپارٹی، (ن) لیگ کے اقتدار کی کہانی اور آمریت کے ادوار مکمل تاریخ ہیں۔ جنرل (ر) مشرف کے قوم کو جدید میڈیا کا تحفہ اور الیکٹرونک میڈیا کی یلغار کے بعد اینکرپرسن کی انٹری اور پھر گزشتہ (ن) کے آخری دور میں سوشل میڈیا کا منظم ہونا قوم کے لئے کئی سوالات چھوڑ گیا ہے۔22 سال تک وزیراعظم کی کرسی کے لئے طویل جدوجہد کا سفر اور اقتدار ملنے کے بعد جناب وزیراعظم عمران خان کا جمہوریت اور آمریت کے حسین امتزاج کا 22ماہ کا اقتدار قوم کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کی بدقسمتی جب سے آئے ہیں انہیں بحرانوں کا سامنا ہے۔ حالانکہ تجزیہ نگاروں اور دانشور حضرات کا موقف رہا ہے۔ گزشتہ حکومتوں میں آٹا، چینی، پٹرول، بجلی کا بحران پیدا کرنے والے سارے مافیا کے سرغنہ کسی نہ کسی انداز میں موجودہ حکومت میں شامل کئے گئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی شومئی قسمت 2020ء کے شروع میں ان کا خطاب تھا۔ پہلا سال ہمیں گزشتہ حکومت کے پیدا کردہ بحرانوں کو قابو کرنے میں لگ گیا ہے۔ قرضوں کی ادائیگی کرنے کے لئے قرضے مانگنے میں سوا سال گزر گیا ہے۔ 2020ء عوام کے لئے کچھ کرنے کا ہے۔ مجھے یاد ہے اس خطاب میں اپنے گزشتہ سالوں میں دیئے گئے نعروں کا دوبارہ تذکرہ کیا اس میں 50لاکھ گھر ایک کروڑ نوکریاں اور دیگر نعرے شامل تھے۔افسوس کہ پھر کورونا نے آن گھیرا اور نئے مال سال تک کورونا کورونا ہو رہا ہے۔ 18ماہ میں عوام کو جو ریلیف ملا ہے وہ اہل اقتدار بھی منہ چھپائے پھر رہے ہیں اور عوام بھی منہ چھپائے پھر رہے ہیں گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں الیکٹرونک میڈیا کے اینکر اور سوشل میڈیا کے منیجرز نے جو اودھم مچایا ہے،وزیراعظم کی انفرادی طور پر جو مٹی پلید کی ہے اور 18ماہ کو تاریخ کا بدترین اقتدار قرار دے کر مائنس ون کی اصلاح متعارف کرائی ہے سنجیدہ حلقے سر پکڑے بیٹھے ہیں۔
ایک ویب ٹی وی چینل نے تو باقاعدہ جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی نوید بھی سنا دی ہے لیکن مجھے اینکرز اور سوشل میڈیا کی صحافت دیکھ کر شرم آ رہی ہے ایسے حالات پیدا کر دیئے گئے ہیں جیسے سابق صدر آصف علی زرداری کے دور میں کئے گئے تھے صبح گیا شام گیا ہر وقت کا ایک ہی رونا رہ گیا ہے۔ عمران خان جان چھوڑ دے کوئی آ جائے ہمیں قبول ہے۔دلچسپ بجٹ جاری ہے کون آ جائے۔ یہ بتانے کے لئے کوئی تیار نہیں فساد فی الارض پیدا کرنے والا سوشل میڈیا بحرانوں کا حل دینے کے لئے تیار نہیں۔
مجھے گزشتہ دنوں ایک ٹی وی ٹاک شو میں دو سینئر ترین تجزیہ نگاروں کی بحث سننے کا موقع ملا ایک انگریزی اخبار کے ایڈیٹر عمران خان کی فوری رخصتی میں دلائل دیتے ہوئے عمران خان سے فوری نجات کو وقت کی ضرورت قرار دے رہے تھے۔ دوسری اینکر جو تجزیہ نگار کی حیثیت سے موجود تھے انہوں نے سوال کیا اگر آپ کو اقتدار دے دیا جائے تو ایک ماہ میں پولیس کے محکمہ کو درست کرنے کا ٹارگٹ دیا جائے تو آپ کیا کریں گے؟
اس سوال کا جواب سینئر ترین ایڈیٹر کے پاس بھی نہیں تھا پھر دوسرے سوال کرنے والے اینکر نے سوال اٹھائے ان میں یہ سوال بھی تھا ٹی وی پر اصلاح معاشرہ کے لیکچر اور مافیا کے خلاف ایکشن اور دودھ کی نہریں بہائی جا سکتی ہیں موجودہ دور میں اقتدار کی کرسی پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا بستر ہے۔
آج کے کالم میں مجھے تین تین دفعہ اقتدار میں رہنے والوں، اینکرز اور سوشل میڈیا پر اودھم مچانے والوں سے صرف ایک سوال کرنا ہے۔ اس سے پہلے ان کے آگے ہاتھ جوڑنا ہے قوم کو کورونا نے گلی محلے اور سڑکوں سے گھروں میں لا کر قید کر دیا ہے اور دہلیز پر اللہ نے موت کا فرشتہ کھڑا کر دیا ہے اور نیا فلسفہ متعارف کرا دیا ہے تنہا رہو گے تو بیماری سے بچے رہو گے غریب تو غریب متوسط طبقہ کو زندگی کے دن پورا کرنے کے لئے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ سفید پوشی کا بھرم بھرے چوک میں پھوٹ رہا ہے۔ کاروبار ختم ہو گئے ہیں بے روزگاری نے ہر گھر میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ کہا جا رہا ہے، ہر گھر سے جنازہ اٹھے گا۔ان ابتر حالات میں آپ سے سوال ہے عمران خان کو اگر مائنس کر دیا جائے تو پھر کس کو اقتدار دیا جائے؟ اگر سارے مسائل، سارے فساد کی جڑ عمران خان ہے تو پھر سارے قرضوں کی ادائیگی، مہنگائی کا توڑ، کاروبار کی بحالی، اداروں کی اصلاح،50لاکھ گھروں،ایک کروڑ نوکریوں کا ٹاسک سارے مسائل کے حل کی ذمہ داری کس کو دی جائے؟ یقینا عوام بھی سوچیں گے اور جمہوریت کی آخری نشانی عمران خان سے نجات وقت کی ضرورت قرار دینے والے بھی حل بتائیں گے؟
آخر میں حکومت کی تبدیلی کو وقت کی ضرورت اور تمام مسائل کا حل قرار دینے والوں سے بھی سوال کرنا ہے کیا سب کچھ حکومت کر رہی ہے یا عوام بھی اس میں حصہ دار ہے۔ کیا ہم اپنے آپ کو بھی تبدیل کریں گے؟
پٹرول سستا ہونے پر پٹرول غائب کرکے 150لیٹر روپے فروخت کرنے والے صرف حکمران ہیں یا عوام کا بھی کچھ حصہ ہے۔ لاک ڈاؤن میں آٹا 800والا تھیلہ 2000روپے میں فروخت کرنے والے حکمران ہیں یا ہم بھی ہیں۔
حکومت کی طرف سے احتیاطی تدابیر اپنانے کی اپیل کے بعد ماسک اور سینٹی ٹائزر نایاب کرکے بحران پیدا کرنے والے حکمران ہیں یا ہم بھی ہیں۔
کورونا کے دوران خیراتی راشن تقسیم ہونے پر دس دس تھیلے خیراتی راشن لے کر فروخت کرنے والے حکمران ہیں یا ہم بھی ہیں۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور اب احساس پروگرام میں بیویوں کے نام پر امداد لینے والے حکمران ہیں یا عوام کا بھی حصہ ہے۔ تھانوں کی بربادی کے ذمہ دار صرف حکمران ہیں یا عوام بھی ہیں قوم سے سوال کیا جاتا ہے پاکستان میں کوئی ایسا ادارہ بتایا جائے جہاں رشوت کے بغیر کام ہوتا ہے اس کا جواب بھی قوم کو دینا چاہیے اپنے کام کے لئے رشوت ہم دیتے ہیں یا حکمران تفصیل بڑی طویل ہے آج درد دل سے ایک ہی درخواست ہے قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والے اینکر حضرات 22ماہ بعد مائنس ون کا شوشہ چھوڑ کر نئے بحران کو دعوت دینے والے اتنا ضرور سوچیں۔ پہلے عوام کے پاس بحران ہی بحران ہیں، سوال ہی سوال ہیں، انگلیاں ہیں دوسروں کی طرف اٹھتی ہیں ایاس حل بتایا جائے ایک انگلی اپنی طرف بھی اٹھ جائے اپنے گریبانوں میں بھی جھانکیں، وقت قوم کو توڑنے کا نہیں جوڑنے کا ہے۔ اگر اب جمہوریت کی بساط لپیٹی گئی تو پھر صرف عوام کا نقصان ہی نہیں ہوگا بھرے بازار میں سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کا جنازہ بھی نکلے گا؟