عوام کی بس ہو چکی حکومت کی کب ہو گی؟

  عوام کی بس ہو چکی حکومت کی کب ہو گی؟
  عوام کی بس ہو چکی حکومت کی کب ہو گی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 امریکی کانگریس میں پاکستان کے جاری سیاسی نظام کے حوالے سے الیکشن 2024ء پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے گو یہ ایک عام سی نان بائینڈنگ قرار داد تھی لیکن یہ دنیا کی بڑی طاقت کے ایوانِ اقتدار کی طرف سے پیش کی گئی تھی اس لئے اس کی خاصی اہمیت ہے یہ قرارداد پی ٹی آئی کے اووسیز ونگ کی کامیاب کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کے انتخابی عمل پر سوال اٹھایا گیا گویا انتخابی عمل کی شفافیت ہی مشکوک ہے اس لئے اس عمل کے نتیجے میں قائم نظام حکمرانی کے بارے میں تو کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا،  ہمارے ہاں انتخابات کبھی بھی غیر متنازعہ نہیں رہے ہیں، انتخابی نتائج ہمیشہ ایک پارٹی یا پارٹیوں کا اتحاد قبول کرتا ہے انہیں درست مانتا ہے جسے ان انتخابات کے نتیجے میں حکومت ملتی ہے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ الیکشن 2018ء کو ہی دیکھ لیں، ن لیگ اور پیپلزپارٹی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے اسے دھاندلی زدہ قرار دیا جبکہ عمران خان و چند دیگر جماعتیں کیونکہ اقتدار میں آ گئیں تو وہ اسے درست قرار دیتی رہیں۔ پیپلزپارٹی انہی انتخابات کے نتیجے میں صوبہ سندھ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی تھی اس کے باوجود وہ ان انتخابات کے نتائج کو قبول کرنے سے ہچکچاتی رہی اب الیکشن 2024ء کو دیکھ لیں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کیونکہ ان انتخابات کے نتائج کے باعث اقتدار میں آ گئیں اس لئے انہیں انتخابی نتائج قبول ہیں جبکہ پی ٹی آئی، مولانا فضل الرحمن، جماعت اسلامی و دیگر چونکہ اقتدار سے باہر ہیں اس لئے انہیں الیکشن 2024ء دھاندلی زدہ لگتے ہیں انہی انتخابات کے نتائج میں پی ٹی آئی، خیبرپختونخوا میں برسر اقتدار آ چکی ہے لیکن اس کے باوجود وہ انتخابی عمل کو مشکوک قرار دے رہی ہے اب تو اس نے امریکہ کو بھی اپنا ہم نوا بنا لیا ہے۔

امریکی کانگریس کی قرارداد ظاہراً تو بڑی معصوم اور بے ضرر نظر آ رہی ہے لیکن حالات بدلتے دیر نہیں لگتی اسی قرارداد کو پاکستان کے خلاف کئی عوامل کے ذریعے استعمال کیا جا سکتا ہے مثلاً آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کو ملنے والا نیا پروگرام تاخیر کا شکار کر دیا جا سکتا ہے، اس طرح پاکستان جو پہلے ہی بہت سنجیدہ قسم کے معاشی مسائل کا شکار ہے، مزید مشکلات میں گھر سکتا ہے ویسے ہم نے اس قرارداد کا ترکی بہ ترکی جواب دے دیا ہے اور وہ بھی قرارداد کی صورت میں۔ ہمارے ایک انتہائی معتبر استاد اور پارلیمنٹرین جناب عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ اب پی ٹی آئی پاکستان پر پابندیاں عائد کرانے کی کاوشیں کرے گی۔ ایک کامیابی کے بعد دوسری کامیابی کی صورت میں پاکستان حقیقتاً مسائل میں الجھ سکتا ہے امریکہ ہمارا دوست نما دشمن ہے ہمارا ایٹمی پروگرام اسے روزِ اول سے ہی پسند نہیں ہے چین کے ساتھ ہمارے بڑھتے ہوئے معاشی و سفارتی تعلقات کو امریکہ بری نظر سے دیکھتا ہے ہمارے مقابلے میں انڈیا کو بڑھاوا دیتا رہتا ہے ایسے ہی بڑھاوے کے باعث اور اپنی داخلی پالیسیوں کے سبب ہندوستان معاشی و سفارتی سطح پر عالمی طاقتوں میں شمار ہونے لگا ہے جبکہ ہم ابھی چند ارب ڈالروں کے حصول کے لئے آئی ایم ایف کے تلوے چاٹنے پر مجبور ہیں۔

شہباز شریف کی قیادت میں چلنے والی اتحادی حکومت بھی ایک عجوبہ ہے سب سے بڑا عجوبہ تو یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اس حکومت کے بارے میں یکسو نہیں ہے خوش نہیں ہے۔ اتفاق رائے سے عاری ہے۔ الیکشن 2024ء نوازشریف کو چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بنانے کے لئے تھا لیکن ن لیگ کو اکثریت حاصل نہ ہو سکی اس لئے اسے اتحادی حکومت بنانا پڑی حالانکہ ن لیگ میں ایک رائے یہ بھی تھی کہ ہمیں حکومت بنانے کی بجائے اپوزیشن میں بیٹھنا چاہئے اور یہ رائے خاصی صائب بھی تھی کیونکہ اس سے پہلے اتحادی حکومت میں رہ کر ن لیگ نے خاصا نقصان اٹھا لیا تھا عمران خان کی  44 ماہی حکومت کی نالائقیوں اور نا اہلیوں کا ملبہ اٹھاتے اٹھاتے ن لیگ اپنا اثاثہ بھی گنوا رہی تھی 16 ماہی حکومت کے نتائج الیکشن 2024ء میں دیکھنے کو ملے مسلم لیگ ن کو عوام نے مسترد تو نہیں کیا لیکن اکثریت بھی نہیں دی جس کے باعث شہباز شریف کی قیادت میں کمزور ن لیگی حکومت قائم ہو سکی۔ شہباز شریف کی اقتدار میں آنے کی خواہش مسلم لیگ ن پر بھاری پڑ رہی ہے۔

ایسے لگتا ہے کہ یہ حکومت بہت جلد اپنا جواز حکومت کھونے جا رہی ہے، ویسے تو ملک میں ایک ایسی عمومی فضاء پیدا کرنے کی کاوشیں کی جا رہی ہیں کہ جس کے نتیجے میں ن لیگی اتحادی حکومت عوامی بے اعتمادی کا شکار ہو جائے۔ حکومت کی اتحادی جماعت پیپلزپارٹی تو روز اول سے ہی شہباز شریف حکومت کی معاشی حکمت عملی کا ساتھ نہیں دے رہی، اتحادی ہونے اور شریک اقتدار ہونے کے باوجود کیبنٹ کا حصہ نہیں ہے یعنی تمام اعلیٰ قسم کے آئینی عہدے اور پوسٹیں لینے کے باوجود، شہباز شریف کے حکمرانی کے نتائج میں شریک نہیں ہو رہی ہے بلکہ اس سے برائت کا اعلان کر رہی ہے،گویا نکاح تو کر لیا ہے لیکن گھر بسانے سے انکاری ہے۔ پیپلزپارٹی سیاسی بلوغت کا ثبوت دے رہی ہے، اسے معلوم ہے کہ جاری حالات میں عوام دوست معاشی پالیسیوں کا اجراء نا ممکن ہے بلکہ آئی ایم ایف کے زیر ہدایت عوام دشمن پالیسیوں کا جبری نفاذ ہی حکومت قائم رکھنے کا واحد جواز ہو سکتا ہے اس لئے پیپلزپارٹی اتحادی ہونے کے باوجود ساتھی نہیں بن رہی ہے۔

بجٹ 25-2024 نافذ العمل قرار پا چکا ہے پاکستان کی 77  سالہ تاریخ میں عوام شاید ہی اس قدر مصیبت کا شکار ہوئے ہوں گے جتنے اب ہیں۔ معاشی نمو کے بغیر روز گار کے مواقع نہ ہونے کے باعث بجلی و گیس کی ناقابل برداشت قیمتوں کے ساتھ وصولیوں کے بلند ترین اہداف کے حصول کے لئے ٹیکسوں پہ ٹیکس لگا کر حکومت نے عوام دشمنی کا کھلے عام مظاہرہ کر دیا ہے ہمارے وزیر خزانہ نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں بجٹ کے سخت ہونے کا اعتراف بھی کر لیا ہے لیکن حکومت کسی بھی طبقے کو جس کا تعلق اشرافیہ سے نہیں ہے ٹیکس کی چکی میں جھونکنے سے نہیں چھوڑا، ٹیکس وصول کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن ٹیکس دہندگان کو ہلاک کر کے تو ٹیکس وصول نہیں کیا جا سکے گا۔ شیخ رشید ویسے تو بونگیاں مارنے میں مشہور ہیں لیکن انہوں نے حال ہی میں ایک سچی بات کہی ہے کہ ”خاموش انقلاب گلی محلوں میں پل رہا ہے“ عوام کی بس ہو گئی ہے حکومت کی بس کب ہو گی۔

مزید :

رائے -کالم -