تھانہ کلچر میں تبدیلی، عمر ورک سے مکالمہ

تھانہ کلچر میں تبدیلی، عمر ورک سے مکالمہ
 تھانہ کلچر میں تبدیلی، عمر ورک سے مکالمہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پنجاب پولیس کو اپنے تھانہ کلچر کے حوالے سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ تھانہ کلچر ہی دراصل پولیس اور عوام کے درمیان فاصلے اور ناپسندیدگی کی بنیادی وجہ ہے۔یہ بات بھی حقیقت ہے کہ تھانہ کلچر حکومت کے پولیس میں کئے جانے والے اچھے اقدامات پر بھی پانی پھیر دیتا ہے۔ پولیس افسران سے ملیں تو وہ بھی تھانہ کلچر کو بدلنے کے لئے ہر وقت مہم جوئی کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ تھانہ کلچر تبدیل نہیں ہو سکا اور اس ضمن میں تمام اصلاحات مکمل طور پر نا کام ہو گئی ہیں، ایک عمومی تجزیہ یہی ہے کہ مستقبل کی بھی تمام اصلاحات بھی نا کام ہو جائیں گی۔


تھانہ کلچر کی اس زبوں حالی پر گزشتہ روز پولیس کے ایک افسر عمر ورک سے طویل مکالمہ ہوا۔ عمر ورک کوئی سی ایس پی افسر نہیں ہے، وہ ایک رینکر ہے اور اس نے اپنے کام سے اپنی جگہ بنائی ہے۔ میرے خیال میں وہ پولیس کلچر کو نیچے سے اوپر تک اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں تھانہ کلچر کے خلاف اپنی چارج شیٹ پیش کرتا۔ وہ خود ہی کہنے لگے کہ یہ تھانہ کلچر تو پولیس افسران کے لئے درد سر بن گیا ہے۔ لیکن پھر ہی کہنے لگے کہ یہ تھانہ کلچر ایسے نہیں ٹھیک ہو گا جیسے ٹھیک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وہ مسکرا کر کہنے لگے کہ آپ کو اندازہ نہیں کس کس اعلیٰ سطح پر تھانہ کلچر پر بات ہو رہی ہے۔
عمر ورک کا کہنا ہے تھانہ کلچر کوئی ٹیکنالوجی کے استعمال سے ٹھیک نہیں ہو گا۔ یہ احساس کا معاملہ ہے اور احساس کی اہمیت کو جاننے سے ہی ٹھیک ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم اعلیٰ افسران کی میٹنگ میں جاتے ہیں تو شدید گرمی جب پارہ 47 ڈگری سنٹی گریڈ پر پہنچ چکا ہو تا ہے تو اعلیٰ بیوروکریٹس نے سوٹ پہنے ہوتے ہیں۔ جب لوگ قمیض پہننے سے تنگ ہوتے ہیں ان اعلیٰ افسران نے کوٹ پہنا ہوتا ہے اور ٹائی لگائی ہو تی ہے،اور جس نے کوٹ نہ پہنا ہو اور ٹائی نہ لگائی ہو اسے با عزت نہیں سمجھتے۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ جن کا لباس گرم موسم سے ناآشنا ہے۔ انہیں عام آدمی کو لگنے والی گرمی کا کیا اندازہ ہوگا۔ انہی افسران نے جب ڈولفن فورس بنائی تو انہیں یہ اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ ترکی میں موسم سرد اور لاہور میں گرم ہو تا ہے۔ انہوں نے جو ترکی میں ڈولفن فورس کی وردی تھی وہی لاہور کی ڈولفن فورس کے لئے بنا دی۔اب آپ دیکھ لیں کہ لاہور میں جب گرمی جوبن پر آئی تو اس قدر گرم وردی کی وجہ سے روزانہ ڈولفن فورس کے دو تین جوان بیہوش ہو نا شروع ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں گرمی میں شدید گرم موسم ہو تا ہے ۔ اس لئے پنجاب کے دیہی علاقوں میں جب کوئی چور پکڑا جائے تو اس کے سر پر بڑی کڑاہی رکھ کر اسے گاؤں میں گھمایا جاتا ہے۔ شدید گرمی میں سر پر کڑاہی سے چور کا سر گھوم جاتا ہے اور وہ گر جا تا ہے۔ یہی حالت ڈولفن فورس کی ہوئی۔ انہیں اتنے ہیوی ہیلمٹ دے دئے گئے، جس سے وہ گرمی میں چکرا گئے ہیں۔ یہ ایک عمدہ مثال ہے کہ ہمارے پالیسی سازوں کو ہمارے ملک کے موسم اور حالات کا کوئی اندازہ نہیں ہو تا، وہ مکھی پر مکھی مارتے ہیں، ہم باہر کی نقل کرتے ہیں، گورا تو چلا گیا، لیکن گورا کلچر نہیں گیا۔ یہ نقلی گورے گورا بننے کے چکر میں عوام کا استحصال کر رہے ہیں۔ شائد اتنا استحصال تو گورا خود بھی نہیں کرتا تھا۔


انہوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ ہی یہی ہے کہ تھانہ کلچر کو تبدیل کرنے کی جو پالیسی بناتے ہیں۔ انہوں نے خود کبھی تھانہ میں کام ہی نہیں کیا۔ ان کو تھانہ کلچر کی حقیقت اور مسائل کا علم ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک پولیس میں سی ایس پی افسران اپنا رویہ پولیس کے نچلے افسران سے ٹھیک نہیں کریں گے تب تک تھانہ کلچر ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا یہ بات حقیقت ہے کہ ہمارا سب انسپکٹر اور انسپکٹر اپنے ایس پی اور ایس ایس پی کو نہ تو اپنے مسائل بتا سکتا ہے اور نہ ہی اپنی مشکل بیان کر سکتا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ پولیس کے اعلیٰ افسر ان ماتحت افسران کے ساتھ نہایت ناروا سلوک کرتے ہیں۔ جو سلوک آپ کو تھانہ میں عوام کے ساتھ نظر آتا ہے ۔ وہی یہ افسران ان پولیس افسران کے ساتھ کرتے ہیں۔


جب تک پولیس میں افسران اپنے ماتحت سے اچھا سلوک کرنا نہیں شرع کریں گے تب تک ان نچلے افسران سے عوام کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی توقع کرنا درست نہیں۔ جب ایک سب انسپکٹر اپنے ایس پی کے سامنے بیٹھ نہیں سکتا، مقدمہ کی بات نہیں کر سکتا، اپنا موقف نہیں بیان کر سکتا۔ اسی طرح ایس پی آئی جی سے بات نہیں کر سکتا۔ ایس پی چیف سیکرٹری سے بات نہیں کر سکتا۔ تو وہی افسر سائل کو اپنے سامنے بیٹھنے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے۔ پہلے پولیس افسر ماتحت کو اپنے سامنے بٹھائے گا۔ تب ہی وہ ماتحت افسر عوام کو اپنے سامنے بٹھائے گا۔ اسی طرح تھانہ کلچر میں تبدیلی اور بہتری میں وی آئی پی کلچر بھی بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ جب افسران وی آئی پی ڈیوٹی پر جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وی آئی پی عوام سے اوپر ہیں تو وہ اپنے دفاتر اور تھانوں میں بھی وی آئی پی کو عوام سے اوپر ہی رکھتے ہیں۔ جب پولیس افسران وی آئی پی کے لئے راستہ الگ کرتے ہیں۔ ان کی لائن الگ کرتے ہیں، انہیں اپنے دفاتر میں پرو ٹوکول دیتے ہیں تو پھر تھانہ میں ان کے ساتھ بہتر سلوک نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے۔ اگر تھانہ میں وی آئی پی کلچرختم کرنا ہے تو اسے اوپر سے ختم کرنا ہو گا۔
عمر ورک کا کہنا ہے کہ معاملہ حساس ہے، کوئی کسی کا احساس نہیں کر رہا۔ افسر ماتحت کا احساس نہیں کر رہا، ماتحت اپنے ماتحت کا احساس نہیں کر رہا اور عوام پس رہے ہیں۔ آپ جتنی مرضی ٹیکنالوجی لے آئیں ۔ احساس نہیں لائیں گے تو نتائج نہیں آئیں گے۔ عمر ورک کا کہنا ہے کہ افسران کے کمروں میں دو دو اے سی لگے ہوتے ہیں اور تھانہ میں پنکھا بھی نہیں ہے۔ افسر کے پاس فائیو سٹار واش روم ہیں، تھانہ میں سادہ واش روم بھی نہیں۔ افسران کے پاس ریٹائرنگ روم بھی ہے اور تھانہ میں میز کرسی بھی نہیں۔ افسران کے مہمانوں کے لئے بھی کمرے اور تھانہ میں سائلان کے لئے کرسی بھی نہیں۔ جب آپ کسی کی عزت نہیں کریں گے تو اس سے کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ جواب میں عزت دے گا۔ اس لئے تبدیلی نیچے سے نہیں اوپر سے آئے گی۔ جب ایک ایس پی بدل جائے گا تو اس کے نیچے والے تھانے بھی بدل جائیں گے۔ عمر ورک مسکرایا اور ہنسنے لگا اور کہنے لگا چلیں کوئی اور بات کرتے ہیں۔

مزید :

کالم -