چاہ بہار بندرگاہ منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری کیلئے خطرہ نہیں ، چین
بیجنگ (آن لائن)چین نے کہا ہے کہ ایران اور افغانستان کے چاہ بہار بندر گاہ منصوبے کو پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو کمزور کرنے کی کوشش نہیں سمجھتے بلکہ دونوں منصوبے خطے کی سست معیشتوں کو مضبوط کرنے میں ایک دوسرے کو مدد دیں گے ،بیجنگ کی خواہش ہے کہ وہ چاہ بہار بندر گاہ سے مستفید ہو کیونکہ خطے میں معاشی ترقی صرف مشترکہ اہداف اور مقاصد باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے ہی حاصل کی جا سکتی ہیں۔خطے کے کچھ ممالک کے ساتھ اختلافات ہیں جنہیں سفارتی ذرائع سے حل کرنے کی ضرورت ہے ۔چینی وزیر اعظم لی کی چیانگ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی مالی معاونت سے ایران اور افغانستان کے چاہ بہار بندرگاہ منصوبے کو چین گوادر بندرگاہ یا پاک چین اقتصادی راہداری منصوب کو کمزور کرنے کی کوشش نہیں سمجھتا بلکہ مجھے یقین ہے کہ یہ دونوں منصوبے خطے کی سست معیشتوں کو مضبوط کرنے میں ایک دوسرے کو مدد دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی ا ایشیاء سمیت پوری دنیا میں جاری معاشی بحران کا خاتمہ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ خطے کے ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور حوصلہ افزائی کریں۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم لی کی چیانگ کا کہنا تھا کہ بیجنگ بھی چاہ بہار بندر گاہ منصوبے سے مستفید ہونا چاہتا ہے اور خطے کے دیگر ممالک کو بھی یہی کرنا چاہیے کیونکہ خطے میں معاشی ترقی صرف اپنے مشترکہ اہداف اور مقاصد کی باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعظم لی کی چیانگ نے اس تاثر کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ چین کے لیے سپر پاور بننے کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور نہ ہی چین ایسے عزائم رکھتا ہے۔اس تصور کے حوالے سے کہ چین جلد ہی خطے میں معاشی پاور ہاؤس اور سپر پاور کی حیثیت حاصل کرنا چاہتا ہے، وزیراعظم لی کا کہنا تھا کہ جدیدیت کے مقاصد کی طرف جانے کے لیے ابھی ان کے ملک کے پاس بہت وقت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حتیٰ کہ اگر چین آنے والے عشروں میں جدیدیت کے مقاصد حاصل کر بھی لے تب بھی بیجنگ بالادستی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا اور نہ ہی کسی ملک کو پریشان کرے گا، چاہے آبادی یا محل وقوع کے لحاظ سے وہ ملک کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو۔انہوں نے اعتراف کیا کہ خطے کے کچھ ممالک کے ساتھ بعض معاملات پر چین کے اختلافات موجود ہیں، تاہم کوئی بھی اتنا سنجیدہ نوعیت کا نہیں ہے کہ اس پر تشویش ہو، تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان مسائل کو تحمل اور سفارتی ذرائع سے حل کرنا اہم ہے۔