مظاہرے اور ٹریفک جام!
ملک کے چاروں صوبوں میں مطالبات منوانے کے لئے مظاہرے لازمی ہو گئے ہیں،جس طبقے کی بھی شکایات ہوتی ہیں وہ مظاہرہ کرتا ہے اور اس سے بڑھ کر مظاہرین یہ طے کرکے آتے ہیں کہ کون سی سڑک کو روکا جائے کہ شہر کی ٹریفک متاثر ہو اور ان کی جلد سُنی جائے۔ کراچی اور لاہور ملک کے بڑے اور زیادہ آبادی والے شہر ہیں، چنانچہ ان شہروں میں جب کسی بھی مرکزی شاہراہ کی ٹریفک بند کی جاتی ہے تو پورے شہر میں ٹریفک کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ان دنوں مظاہرے پورے زوروں پر ہیں اور شہری ٹریفک بند ہونے سے پریشان ہیں۔ لاہور میں گزشتہ چار روز سے تو نرسوں کا دھرنا جاری ہے۔ اس سے پہلے کسان اور مزدور دھرنے دے چکے۔ یہ مظاہرہ پنجاب اسمبلی کے سامنے فیصل چوک میں ہوتا ہے، یہ مرکزی شاہراہ ہے جو شہر کے دونوں حصوں کو ملاتی ہے، اس کے بند ہونے سے نہ صرف اس سڑک پر، بلکہ نواحی سڑکوں پر بھی ٹریفک جام ہو جاتا ہے، لہٰذا کئی روز سے مسلسل مظاہروں اور دھرنوں کی وجہ سے ٹریفک جام مستقل روگ بن گیا ہے، اب تو شہریوں اور مظاہرین کے درمیان توتکار اور جھگڑے بھی ہونے لگے ہیں۔
یہ مظاہرے اور ان کا جاری رہنا حکومت کی اچھی حکمرانی (گڈ گورننس) پر سوالیہ نشان ہے، اگر کئی روز کے مظاہروں اور عوام کی پریشانی کے بعد ہی مظاہرین کو بلا کر مذاکرات کرنا ہوتے ہیں تو یہ کام اس وقت کیوں نہیں کر لیا جاتا جب مختلف ایسوسی ایشنوں اور تنظیموں کی طرف سے مطالبے شروع کئے جاتے ہیں۔ یہ بہتر عمل ہوتا ہے کہ اس سے معاشرے کے بہت سے حصے مسائل اور تکلیف سے بچ جاتے ہیں۔ دوسری طرف مظاہرین کے لئے بھی یہی بہتر ہے کہ وہ عوام کو پریشانی سے بچائیں اور مظاہرہ کرتے وقت احتیاط کریں کہ ان کو عوامی حمایت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔