چاند پر چاند سے پہلے ہی اختلاف؟
سارا سال کچھ نہیں ہوتا، مرکزی روئت ہلال کمیٹی ہر ماہ اجلاس کرتی اور ہجری مہینے کی تاریخ کا اعلان کرتی ہے۔ کوئی اعتراض ظاہر نہیں کیا جاتا، جونہی رمضان المبارک کا متبرک مہینہ آئے تو پشاور میں حرکت شروع ہو جاتی ہے۔ اس بار تو خیبرپختونخوا اسمبلی نے ایک قدم بڑھایا اور متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی کہ ملک میں عید ایک ہی روز ہوگی اور جو فیصلہ مرکزی روئت ہلال کمیٹی کرے گی اسے قبول کیا جائے گا۔ اس کے بعد بظاہر اور کوئی ضرورت نہیں تھی، لیکن ہمارے وزیرمذہبی امور سردار یوسف متحرک شخصیت ہیں کہ پہلے انہوں نے اوقات نماز کا مسئلہ شروع کیا اور یہ چاہا کہ پورے ملک میں اذان ایک ہی وقت میں ہو، ایک آدھ شہر میں ان کو آمادگی بھی ملی لیکن مجموعی طور پر حمائت حاصل نہ ہو سکی چنانچہ یہ فیصلہ نہ ہوا اور اذانیں معمول کے مطابق ہو رہی ہیں۔اب وہ عید اور روزہ ایک ہی روز کرانے کے لئے سرگرم ہوئے اور سیدھے جامع مسجد قاسم خان پہنچ گئے جہاں انہوں نے مفتی پوپلزئی اور دوسرے علماء کرام سے مذاکرات کئے حسب توقع یہ مذاکرات ناکام ہی رہے کہ جامع مسجد قاسم خان کے علما حضرات 5جون کو پرائیویٹ روئت ہلال کمیٹی کا اجلاس کر رہے ہیں کہ رمضان کے چاند کے بارے میں فیصلہ کیا جائے جبکہ مرکزی روئت ہلال کمیٹی کا اجلاس 6جون کو ہے اس روز 29شعبان المعظم ہے۔ یوں چاند کے حوالے سے یہ تنازعہ پھر سے پیدا ہو گیا ہے۔
جہاں تک رمضان اور عید کے چاند کا مسئلہ ہے تو پورے ملک میں مرکزی روئت ہلال کمیٹی کا فیصلہ مان لیا جاتا ہے لیکن جامع مسجد قاسم خان اور خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں کے شہری اور افغان مہاجرین ذہنی طور پر رمضان اور عید سعودی عرب کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں اور گزشتہ برس ان کی طرف سے یہ مطالبہ بھی ہوا کہ پاکستان رمضان اور عید سعودی عرب کے اعلان کے مطابق کرلے۔ یہاں یہ بھی دلیل دی گئی کہ مسلمانوں کو بھی عیسائی دنیا کی طرح ایک ہی روز روزہ اور ایک ہی روز عید کرنا چاہیے اور یہ اس طرح ممکن ہے کہ سعودی عرب کی پیروی کی جائے۔
اس سلسلے میں یہ حضرات کرہ ارض کی حرکت اور اوقات نظر انداز کر دیتے ہیں جن کی رو سے یہ ممکن نہیں کہ چاند دنیا بھر میں ایک ہی روز ہو، حتیٰ کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان جو دو گھنٹے کے قریب فرق ہے اس کی بناء پر بھی سعودی عرب میں چاند ایک روز قبل نظر آئے گا اور اگلے روز ہی پاکستان میں دیکھا جانا ممکن ہے چنانچہ سعودی عرب سے تعاون کیا جائے یا ان کا تعاون حاصل بھی کیا جائے تو بھی یہ فرق موجود رہے گا اور ایک روز کا فرق ہو گا البتہ اس سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔
اس سلسلے میں بزرگوں کا کہنا ہے کہ جب رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ چاند دیکھو روزہ رکھ لو اور چاند دیکھو تو عید کر لو، یہ فرمان حکمت سے لبریزہے کہ دنیا کے مختلف ممالک کے درمیان دن رات کا جو فرق ہے وہ چاند کے ایک روز ہونے میں مانع ہے، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور اس طرف کے ممالک کے ساتھ پاکستان اور دوسرے ممالک کا کئی گھنٹے کا فرق ہے اور یہی صورت حال مغربی ممالک کے ساتھ سعودی عرب اور پاکستان کی ہے، اس لئے بیک وقت ہر جگہ چاند دیکھا جانا ممکن نہیں ہے، اس لئے ہر ملک کو چاند دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے، یہ الگ مسئلہ ہے کہ ملک میں چاندکے بارے میں اختلاف نہ ہو، اس کے لئے کوشش کرنا چاہیے اگرچہ یہاں بھی مسلک آڑے آتا ہے اور مسلک کے حوالے سے فتوے آ جاتے ہیں۔
پاکستان کی تو تاریخ ہی ایسے اختلاف سے بھری ہوئی ہے، یہاں کئی بار ایک ہی شہر میں دو ہی نہیں تین عیدیں بھی ہو چکی ہیں، اس لئے اس مسئلہ کا حل تو دینی ہی نہیں، سائنسی اور عقلی بھی ہونا چاہیے ۔آج کے جدید تر مواصلاتی دور میں چاند کی روئت مشکل نہیں کہ سائنس دان چاند کی مکمل ترین حرکت کے بارے میں مصدقہ اطلاع دے سکتے ہیں اور ان کے تعاون سے بہتر فیصلہ کیا جا سکتا ہے اب مرکزی روئت ہلال کمیٹی کو محکمہ موسمیات سمیت دوسرے کئی محکموں کا تعاون حاصل ہے اور یوں بھی یہ کمیٹی تمام مسالک کے نمائندہ حضرات پر مشتمل ہے اور اس کی نمائندگی میں ابہام نہیں۔ یوں بھی یہ کمیٹی کافی بہتر محسوس کر رہی ہے اس لئے پاکستان میں ایسی کمیٹی کی موجودگی بڑا کارنامہ ہے اور مجموعی طور پر قومی سطح پر پذیرائی بھی حاصل ہے۔ اس لئے سردار یوسف کو نیا پنڈورا بکس نہیں کھولنا چاہیے اورخیبرپختونخوا اسمبلی کی قرارداد پر ہی عمل ہونا چاہیے بلکہ کئی بزرگ اور سینئر حضرات نے تو یہ بھی تجویز کیا کہ روئت کے حوالے سے باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے یہ طے کر دینا چاہیے کہ مرکزی روئت ہلال کمیٹی کا فیصلہ ہی سرکاری فیصلہ ہے اور خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف مقدمہ کرکے اسے سزا بھی دلانا چاہیے تاکہ یہ معاملہ حل ہو جائے۔
جہاں تک مفتی پوپلزئی کا تعلق ہے تو ان کی طرف سے تعاون کا نام لے کر کبھی تعاون نہیں کیا گیا۔ ایسے حضرات کے ساتھ جو سلوک کرنا ہو وہ قانون ہی کے مطابق ہو، بہرحال حکومت اور نجی اداروں کے درمیان یہ سب طے پانا چاہیے۔ ویسے ہماری تو زندگی گزری اور بزرگوں کی صحبت کے لئے جاتے ہوئے بھی ایسا خوش نصیب دن نہیں دیکھا کہ چاند پر اتفاق رائے ہو گیا ہو۔عید کے چاند کے سلسلے میں ہم پر جو بیت چکی وہ ہم نے بیان کر دی تھی، دور ایوبی میں ہمیں چاند کی شہادت حاصل کرنے کے لئے اوکارہ تک کا سفر کرنا پڑا اور عید خراب بھی ہوئی۔ اب تو وفاقی حکومت کو باقاعدہ قانون بنانا ہوگا۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کی قرارداد مستحسن اقدام ہے۔