عزت نفس کا احساس کیوں ضروری ہے؟ امام کعبہ الشیخ عبدالرحمن السدیس بتاتے ہیں!
اللہ کے بندو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ اس کا حق ہے اور اس کی رضا کے بلند اور باعزت مقامات کے زینوں کی طرف دوڑو۔
آگاہ رہو کہ تقویٰ ہی عزت و کرامت ہے اور دنیا کی محبت میں گرفتار ہونا نری ذلت اور بیماری ہے۔ اور صاحبِ تقویٰ بندہ جب تقویٰ کی حقیقت پا لے تو اس میں کوئی کمی نہیں رہتی، خواہ وہ کوئی بھی پیشہ اختیار کرے وہ صاحبِ عزت ہے۔
اے اہل اسلام! عصر حاضر کے لگاتار حادثات میں، فتنوں کی ان متواتر آندھیوں میں اور واقعات کے ہجوم میں، جبکہ اعلیٰ اقدار سے انحراف کیا جا چکا اور ان کے بلند مقاصد سے منہ موڑا جا چکا تو ضروری ہے کہ ایک بار مسلمانوں کو جھنجھوڑا جائے، انھیں یاد دہانی کرائی جائے اور ان کی ہمت بندھائی جائے۔
اور ان اعلیٰ اقدار میں سے کہ جن کے بارے میں عقل و فہم کجی کا شکا ہو چکی اور جن کی موسلادھار بارش بے مینہ کے بادل کا روپ دھار چکی، عزتِ نفس و کرامت کا احساس ہے۔ اس لیے کہ عزت نفس کا احساس زندگی کی روح اور اس کا ستون ہے، اسی کی بدولت انسانیت کی عزت و تکریم ہے، یہ نہ رہے تو سمجھئے کہ گویا معاشرے کے فنا ہونے کا بگل بج چکا۔
عزت نفس کا احساس کمزوری سے اور ناتوانوں کو ذلت و پستی کی گمراہیوں سے نکالتا ہے اور ستاروں کی بلندی اور چمک سے روشناس کراتا ہے۔ یاد رکھیے! ذلت اور پستی کا علاج سر اٹھانے میں ہے، دنیا کی سروری، شمشیر و سناں میں اور قوم کا رعب ان کے اتحاد میں پوشیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ (اسراء: ۰۷)
’’ اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی ‘‘
برادران اسلام! دینی عزت اور اسلام کا شرف وہ قیمتی احساسات ہیں جن کا بیج شریعت ربانی نے ہماری کشت جان میں بویا اور مسلمانوں کو ذلت و پستی کے گڑھوں میں گرنے سے محفوظ رکھا ہے۔ ایک مسلمان فطری طور پر صاحبِ حمیت اور غیرت مند ہوتا ہے، وہ کبھی ذلت و پستی کو گوارا نہیں کرتا۔ وہ کسی سرکش کے سامنے سر نہیں جھکاتا، وہ کسی زبان دراز سے خوفزدہ نہیں ہوتا اور نہ الزام تراشی کو خاطر میں لاتا ہے۔ وہ کسی بھی جابر کے سامنے کمزور نہیں پڑتا، وہ کسی کی خوشامد نہیں کرتا، کسی کی مکاری میں نہیں آتا اور نہ کسی کمینے بزدل کی رفاقت اختیار کرتا ہے۔ اس لیے کہ عزت نفس مسلمانوں کے خون میں گردش کرتی ہے۔ اللہ وحدہٗ کی توفیق سے اس میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ اس راہ میں دینِ ربانی اس کا مددگار اور حقیقی ایمان اس کا سرمایہ ہے۔
سرکشی کے بچے کھچے لشکر ایسے دلوں میں کیا قیامت ڈھائیں گے جو ایمان کی زرہ میں محفوظ اور عزت کے قلعہ میں بند ہیں اور جنھیں بے یارومددگار ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں۔ خسارہ نصیب باطل لوح زمانہ پر نقش حق کا کیا بگاڑے گا جبکہ اس کا مقابلہ آن اور عزتِ نفس کے جاں نثار عشاق سے ہے، میدانِ شجاعت کے بہادر سپاہیوں سے ہے اور کچھار کے شیروں سے ہے۔ فلسطین، غزہ اور بیت المقدس میں ہمارے بھائی اور شام میں ظلم و استبداد کی طویل رات گزارنے والے جو مسلسل استبداد بلکہ قتل عام کا سامنا کر رہے ہیں اور جہاں ظالمانہ نظام حکومت مسلسل ٹال مٹول اور بدعہدی سے کام لے رہا ہے۔ اس کی آنکھیں اندھی اور کان بہرے ہیں، وہ اندھے بہرے ہیں اور اللہ ان کے عمل دیکھتا ہے۔
اے اہل ایمان! شریعت اسلامیہ کا نزول تمام بندگانِ الٰہ کو ظلم اور ذلت سے نجات دلا کر اللہ وحدہٗ کی بندگی کا اعزاز بخشنے کے لیے ہے۔ شریعت کا ظاہر و باطن اور حق انصاف کو باعث اعزاز سمجھنا اس کی خلوت و جلوت میں شامل ہے۔
تمیم داری سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہ دین وہاں تک پہنچے گا جہاں تک رات کا سایہ اور دن کا اجالا پہنچتا ہے اور اللہ تعالیٰ کوئی خیمہ چھوڑے گا نہ مکان جس میں اس دین کو داخل نہ کر دے، کوئی اسے تسلیم کر کے عزت پائے گا تو کوئی انکار کر کے ذلیل و خوار ہو گا۔ اللہ اکبر اللہ اکبر!!!اس حدیث کو امام احمد، بیہقی اور حاکم نے روایت کیا اور سند کو صحیح قرار دیا۔
ہم وہ امت ہیں جس کے کارنامے عزت کے لائق ہیں، اس کے جسور و غیور ہمیشہ روشن چہروں کے ساتھ سر بلند رہے ہیں۔ جنھوں نے کبھی سر جھکانا قبول نہیں کیا اور نہ ذلت گوارا کی ہے۔
عزت نفس کے کھو جانے، غیرت کا جذبہ ماند پڑ جانے اور حمیت کے چھن جانے سے بڑھ کر کون سی مصیبت ہے اور غلامی کی زنجیروں کی چھنچھناہٹ میں آزادی کی آواز دب جانے سے بڑھ کر سوہانِ روح کون سی چیز ہے اور وہ بھی ان اقوام کی طرف سے جنھوں نے اپنے علماء کو جلاوطن کیا، اپنے بڑوں کو معزول کیا اور اپنی قوم کے نابغوں کو کچل ڈالا اور اپنے ملکوں کو عزت و حریت کے مدفن اور عزت و کرامت کی نیلام گاہوں میں بدل دیا۔
دانائی باتوں میں ہے جس کی کمزوری ظاہر ہو جائے تو اس کی عزت جاتی رہتی ہے۔
اسلامی بھائیو! تاہم ہمارے زمانے کی تاریخ میں ہمارے کانوں میں یہ آوازیں بھی آئیں کہ بہت سے معاشروں نے ذلت کے پنجوں سے خود کو چھڑایا اور مغرور استبداد کے سامنے شیروں کی طرح کھڑے ہوئے اور اس کا سر پر غرور کچل ڈالا اور الحمدللہ دینی شعائر اور اسلامی زندگی سے وابستگی کے ذریعہ پورے عزت نفس اور افتخار کے ساتھ سربلند ہوئے جبکہ اس سے پہلے ان سے یہ سب کچھ چھین لیا گیا تھا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہر جگہ سرکش فرعون اپنے ہمعصروں کے انجام سے عبرت پکڑیں۔ غم اور اندھیروں کی راتوں نے ڈھلنا ہے اور عزت و افتخار کی سحر نے طلوع ہو کر رہنا ہے۔ جن ظالم حکمرانوں نے اپنے عوام کے خوابوں کو بھی زنجیریں پہنا رکھی ہیں اور عزتِ نفس کے متعلق ان کے حقوق غصب کر رکھے ہیں ان کا کروفر تاریخ کا سیاہ باب اور انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ کی طرح رہ جائے گا۔
امتِ عزت و کرامت! وہ عزت نفس جس کے ہم متمنی اور متلاشی ہیں، ذوقِ تعین اور دین کے ضابطوں پر مضبوطی سے کاربند رہنے میں ہے اور اس کے لیے نورانی بصیرت درکار ہے، اس لیے عزت تقویٰ میں ہے۔ قوت فرماں برداری میں، سربلندی ثابت قدمی میں اور سرفرازی، شرافت و مروت میں ہے اور حقیقی آزادی شریعت مطہرہ کے سایہ میں ہے۔ آزادی اور انارکی میں فرق ہے۔ مذہبی اور فکری آزادی اور الحاد، لاقانونیت اور کفر میں بڑا فرق ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
’’ جو شخص عزت کا طلبگار ہے تو عزت تو سب اللہ ہی کی ہے اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں اور نیک عمل اس کو بلند کرتے ہیں اور جو لوگ برے برے مکر کرتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اور ان کا مکر نابود ہو جائے گا۔‘‘
امت اسلامیہ کی بڑی تمنائیں اللہ رب العزت والجلال کے نازل کردہ نور کی روشنی میں اور سید الانام e کے طریقے پر چلے بغیر پوری نہیں ہو سکتیں۔ اس لیے اس کے معاملہ میں کوتاہی کا ارتکاب نہ کروا ور اس بارے میں کمزوری نہ دکھاؤ۔
حمیت و غیرت کے علمبردارو! اسلامی غیرت و حمیت کہاں ہے؟ بین الاقوامی اجلاسوں میں عزتِ نفس کہاں تک ملحوظ رکھی جاتی ہے۔ ہمارے عظیم آباؤ اجداد کی عظیم اقدار کا تذکرہ کون سے میڈیا میں ہوتا ہے؟ اور رائے عامہ تشکیل دینے والے اہل قلم کی تحریروں میں اس کا کیا مقام ہے؟ ہمارے نوجوانوں میں ثقافت، تہذیب، فکر و معاشرت میں اپنی اقدار پر افتخار کی علامات کہاں ہیں؟ ان سوالوں کا جواب بہت تلخ ہے اور ہم اس پر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھیں یا افسوس کا اظہار کریں گے لیکن یہ تو کھوکھلی روش ہے اور بدترین احساس شکست ہے، جس نے مسلمانوں کی اولاد کی اکثریت کو واضح طور پر زیر کر لیا ہے اور کئی طرح سے ذلت کا مزہ چکھایا ہے۔
امت اسلام! ایک اور لائق توجہ پہلو ہے جسے آپ کو مدنظر رکھنا ہے۔ بہت سے گروہ عزت نفس کے احساس اور لوٹ مار کے درمیان بنیادی حق اور لازمی واجب کے درمیان، اور عدل و انصاف کے التزام اور اس سے انحراف کے درمیان فرق نہیں کر پاتے۔ وہ سرابوں کے فریب میں دوڑتے ہیں اور فخر و غرور کی آگ کو ہوا دیتے ہیں اور عام اثاثوں اور املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ قانون اور چاردیواری کے احترام کو پامال کرتے ہیں، آزادی، عزت اور حقوق کے مطالبہ کے نام پر انارکی، بدنظمی اور بدامنی کو ہوا دیتے ہیں۔ انھوں نے اپنی قیادت، فساد پسندوں اور فتنہ پروروں کے سپرد کر رکھی ہے جو آپس میں محبت کرنے والے لوگوں میں شرارت کا بیج بو کر اپنے دشمنوں کے ناپاک عزائم کی تکمیل کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔ حق کی قسم! یہ الٹی ہی سمجھ ہے اور یہ عزتِ نفس کے خود ساختہ اور غلط تصورات ہیں جو ملت کی نصوص سے متصادم ہیں۔ یہ تو احمقانہ تکبر اور جہالت بھری رعونت ہے جس نے عزت کے ڈانڈے ذلت اور اہانت سے ملا دئیے ہیں۔ یہ تصور معقولیت سے عاری اور احساس ذمہ داری سے بعید ہے۔ اس کی تہوں میں شر، مصیبت ، خسارے اور عداوت کے سوا کچھ نہیں۔
اس وقت جس کسی کے دل میں ایمان کی حرارت اور حالات کی سنگینی کا احساس ہے، وہ یہی تمنا رکھتا ہے کہ امت ذلت اور پستی کی زنجیریں توڑے اور ہمارے معاشروں میں عزت نفس اور احترام کا وہ تصو زندہ ہو جو انارکی اور باہمی اختلافات کو اکھاڑ پھینکے اور سوچنے سمجھنے اور جائزہ لینے کی عادت اپنائے اور حقوق کے حصول کے لیے معقول اور معتدل رویہ اپنائے۔ ایسا ہو گا تو رحمت کی بارش برسے گی، عزتِ نفس اور حمیت کے پھول کھلیں گے جو زندگی کو زینت بخشتے ہیں۔ جبکہ بلاد الحرمین (اللہ ان کی حفاظت فرمائے) جو اس معاملہ میں اس بلند مقام پر فائز ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ ’’یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور خدا بڑے فضل کا مالک ہے‘‘ (الجمعہ : ۴)
اللہ کے بندو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ذلت اور خواری سے بچو کہ جس کو اختیار کرنیو الے کی عزت جاتی رہتی ہے۔ اسلام کے ذریعہ عزت نفس حاصل کرو جو روحانی تزکیہ بھی کرتا ہے اور رہنمائی بھی مہیا کرتا ہے۔ تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو بظاہر اسلام کے لیے غیرت و حمیت کے حامل ہیں لیکن وہ عزت و حمیت کا نام لیتے ہیں مگر اس کے لیے تاریکی میں تیر چلاتے، اندھیرے میں ڈگمگاتے پھرتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ اس کا کوئی ٹھکانا محفوظ نہ رہے اور اس کا ہر تصور گدرا ہو جائے چنانچہ انھوں نے چھینا چھپٹی، قزاقی اور اغوا جیسی وارداتیں شروع کر دی ہیں۔
اس طرح کی کاروائیاں دہشت گردی اور بزدلی ہیں جس کی بنیاد ہی ظلم اور بہتان طرازی پر ہے جو شریعت اسلامیہ میں بالاجماع حرام ہیں۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا، جس نے مجھ پر ایک بار درود پڑھا اللہ اس پر دس بار رحمت بھیجے گا۔ پھر درودوسلام ہو محمد ﷺ پر جو حق باطل واضح کرنے کے لیے مبعوث ہوئے۔ ان کی آل پر، صحابہ کرام اور ہر اس ایمان دار پر جو اس روشن راستے پر ثابت قدمی سے چلا۔ اے اللہ! درودوسلام بھیج، پہلوں اور بعد والوں کے سردار پر جو تمام جہانوں کے لیے رحمت ہیں۔ جو ہمارے نبی، ہمارے محبوب اور ہمارے سردار ہیں۔ اے اللہ! ان سے راضی ہو جا۔ تمام صحابہ اور تابعین سے راضی ہو جا۔ اور جو احسان کے جذبے سے ان کی پیروی کریں ان سے راضی ہو جا۔ اور اے اللہ! ان کے ساتھ ہم سے بھی راضی ہو جا۔
اے اللہ! ہم سوال کرتے ہیں کہ ہر جگہ مسلمانوں کے احوال کی اصلاح فرما دے۔ اے اللہ! ان سے اندھیرے دور کر دے۔ اے اللہ! روشنیاں پھیلا دے، اے اللہ! امت کے تمام غم دور فرما دے۔ اے اللہ! ہمارے شامی بھائیوں کی مدد فرما۔ آمین یا رب العالمین!