تاریخی کتب خانہ، سنٹرل لائبریری بہاولپور
ڈاکٹر ظہیر احمد بابر:
کتب خانوں کا آغاز بنی نوع انسان کے تہذیب یافتہ دور میں قدم رکھتے ہی ہو گیا تھا۔ انسان کے دنیا میں آنکھ کھولتے ہی لکھنے پڑھنے کا رجحان تھا۔ اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے مٹی کی تختیوں ، جانوروں کی جھلی اور لکڑی کی تختیوں کو استعمال کیا گیا بعد ازاں چین میں کاغذ کی ایجاد عمل میں آئی۔
علم اور کتب خانے ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں ،کوئی تعلیمی درسگاہ ایک منظم کتب خانے کی ضرورت سے بے نیاز نہیں ہوسکتی۔ تعلیمی اداروں میں نصابی ضرورت محض نصابی کتابوں سے پوری نہیں ہو سکتیں لہٰذا تحقیقی ضروریات کیلئے اضافی کتابوں کا ہونا ضروری ہے۔ جنہیں منظم تعلیمی کتب خانوں کی صورت میں رکھا جاسکتا ہے۔
معاشرتی ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ عوام مروجہ علوم اور زمانے کے تقاضوں سے آگاہ ہوں۔ عوام کی علمی سطح جتنی بلند ہوگی ملک اتنی ہی ترقی کرے گا۔علم کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہمارے سکول ، کالج اور یونیورسٹیاں ہیں مگر ان میں صرف نصابی تعلیم دی جاتی ہے۔ عملی زندگی کے راستے پر مسلسل گامزن رہنے کا ذریعہ کتب خانے ہیں۔ ان کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ صحیح معنوں میں علم کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ لہٰذا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جو راستہ کتب خانوں سے شروع ہوکرتعلیمی اداروں تک پہنچتا تا ہے وہ کتب خانہ میں ہی آکر ختم ہو جاتاہے۔ کیو نکہ یہ کسی بھی شخص کی معلومات کا بہترین ذریعہ ہیں۔
یہاں پر ہر قسم کا علم بغیر کسی پابندی اور رکاوٹ کے مل جاتا ہے۔فن تحریر کے ساتھ ہی کتب خانوں کے قائم ہونے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا۔یورپ میں تعلیم گرجا گھروں کے حصار سے باہر نہ نکلتی تھی اور برصغیر ہند میں توحصول علم صرف اعلیٰ ذات کے ہندؤوں کے علاوہ کوئی اور شخص حاصل کرنے کی ہمت کر بھی نہیں سکتا تھا۔
قدیم دور کے کتب خانوں میں آشور بنی پال، کتب خانہ سکندریہ اور کتب خانہ پرگامم قابل ذکر ہیں۔ آشور بنی پال کے کتب خانے میں دولاکھ تیس ہزار مٹی کی تختیاں تھیں اور اس کتب خانے کو پہلا عوامی کتب خانہ بھی کہا جاتا ہے جبکہ پرگامم کا مواد پیپرس رولز پر مشتمل تھا اور یہ ذخیرہ دولاکھ کے لگ بھگ تھا۔ دنیا کا پہلا منظم کتب خانہ سکندریہ تھا اور اس میں منہ مانگی قیمت پر کتب خرید کر رکھی جاتی تھیں اس میں میں رکھے گئے مواد کو مضامین کے اعتبار سے رکھا جاتا تھا۔یہی وہ وقت تھا جب مسلمانوں نے بلاتخصیص ہر شخص کے لئے علم کے دروازے کھول رکھے تھے۔جگہ جگہ درسگاہیں اور تعلیمی ادارے کھلے ہوئے تھے جبکہ ان کے ساتھ سرکاری کتب خانے بھی تھے۔سلاطین وقت خود بھی ان کتب خانوں سے مستفیض ہوتے تھے اور اپنے عوام کو بھی ان سے استفادے کی دعوت دیتے تھے۔
کسی بھی تعلیم یافتہ معاشرے میں لائبریری اور قارئین کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔افرادکی تربیت اور ترقی میں لائبریریاں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ان کی موجودگی اور عدم موجودگی کسی بھی آبادی کے تہذیبی رجحانات اور ترجیحات کی عکاسی کرتی ہیں۔ موجودہ دور میں لائبریری کا دائرہ کار عمل، علم اور سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ اب نہ صرف کتابیں ہی کتب خانوں یا لائبریریوں میں جمع کی جاتی ہیں بلکہ رسائل، نقشہ جات، خاکے، مخطوطات اور گراموں فون ریکارڈ، مائیکرو فلم اور دیگر مواد بھی لائبریریوں میں ایک خاص ترکیب کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ پاکستانی تہذیب اور تاریخ کا امتزاج بہاولپور میں موجود’’گورنمنٹ سنٹرل لائبریری‘‘ ہے۔
تاریخی حوالہ:
بہاولپور ریاست مغل دور اور پاکستان میں اسلامی دور کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتی تھی۔ قصہ خوانی کا یہاں پر خاصہ رواج تھا مگر لکھنے میں نہ آسکا۔1904ء میں گزٹئیرآف بہاولپور میں آباد انگریزوں نے اسے تحریری شکل دے کر اسے شائع کیا جس کا ضمیمہ بھی 1913ء میں شائع ہوا۔ گورنمنٹ سنٹرل لائبریری کی عمارت کا سنگ بنیاد 8مارچ 1924ء کو اعلیٰ حضرت امیر آف بہاول پور نواب سرصادق محمد خان عباسی کے جشن تاجپوشی کے موقع پر سرروفس ڈینئل آئزک وائے سرائے ہند نے رکھا۔ نواب سرصادق محمد خان عباسی جو کہ بہت دور اندیش تھے وہ سمجھتے تھے کہ تعلیم ہی ریاست کو آگے لے کرجا سکتی ہے تو انہوں نے تعلیم کے شعبے کو ترجیح دی اور بے شمار تعلیمی ادارے بنائے جن میں صادق پبلک سکول، ایس ای کالج، صادق ایجرٹن کالج،ایس ڈی ہائی سکول، بہاولپور پرنٹنگ پریس، بہاولپور چڑیا گھر، جامعہ عباسیہ جس کو1975ء میں یونیورسٹی کا درجہ دے کر اسکا نام اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور رکھ دیا گیا، شامل ہیں۔ لائبریری کی عمارت اطالوی اور اسلامی طرز تعمیر کی آمیزش کا شاندار نمونہ ہے ۔ عمارت کی تعمیر کے لئے سابق ریاست بہاول پور کے عوام نے کم وبیش ایک لاکھ روپیہ بطور اعانت دیا۔ رقم کی فراہمی کا کا م سرکاری طور پرسرانجام پایا۔ جس میں سابق ریاست بہاول پور اہل کار ان ملازمین نے اپنی ایک ایک ماہ کی تنخواہ متعدد اقساط میں دی۔ عمارت کے لئے زمین 88 کنال دس مرلے اعلیٰ حضرت امیر آف بہاول پور نے بطور عطیہ مرحمت فرمائی۔ عمارت کی تعمیر کا کام 1927ء سے 1934ء یعنی سات سال تک جاری رہا لیکن بدقسمتی سے جمع شدہ رقم عمارت کی تکمیل کے لئے مکتفی نہ ہوسکی۔ جس کی وجہ سے عمارت میں لائبریری کے قیام کو نہ صرف وقتی طور پر بغرض تکمیل ملتوی کرنا پڑا بلکہ عمارت کو بلدیہ بہاول پور کی تحویل میں دے دیا گیا بلدیہ بہاول پور نے اپنے خرچ پر عمارت مکمل کروا کر یہاں اپنے دفاتر قائم کرلئے اور بالائی منزل پر چھوٹی سی لائبریری بھی قائم کردی۔قیام پاکستان سے چندماہ قبل جناب مشتاق احمد گورمانی نے جو اس وقت سابق ریاست بہاول پور کے وزیراعظم تھے ریاست کے صدر مقام میں ایک اعلیٰ قسم کی لائبریری کی کمی شدت سے محسوس کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ بلدیہ بہاول پور کی لائبریری معہ فرنیچر کتب اور دیگرلوازمات کے سرکاری تحویل میں لے لی جائے اور اس لائبریری کا نام صادق ریڈنگ لائبریری کی بجائے سینٹرل لائبریری رکھ دیا جائے۔یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس لائبریری کی حیثیت مرکزی ہو اور اس کے تحت سابق ریاست بہاول پور کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ذیلی لائبریریاں قائم کردی جائیں چنانچہ حکومت بہاول پور نے وزیراعظم کے مجوزہ فیصلے کے تحت 1947ء میں عمارت کی بالائی منزل پر سینٹرل لائبریری قائم کردی اور اس کے اخراجات سرکاری خزانہ سے باقاعدہ بجٹ منظور کروایا گیا ۔
1947ء سے لے کر 1958ء تک لائبریری اس عمارت کی بالائی منزل پر کام کرتی رہی ۔ 1952ء تک لائبریری کا ذخیرہ کتب اس حد تک بڑھ گیا کہ بالائی منزل ناکافی ہو گئی۔ اس ضمن میں حکام سے رجوع کیا گیا اور ان کی توجہ اس طرف مبذول کروائی گئی کہ چونکہ تمام عمارت لائبریری کے لئے تعمیر ہوئی تھی لہٰذا اس کو مکمل طور پر لائبریری کے مقاصد کے لئے وقف کیا جائے میونسپل کمیٹی عمارت کو چھوڑنے کے لئے قطعی تیار نہ تھی بالآخر چھ سال کی مسلسل انتھک کوششوں کے بعد 1958ء میں ہاشم رضا کمشنربہاول پور کی توجہ اور تعاون سے میونسپل کمیٹی نے تمام عمارت وملحقہ احاطہ کو لائبریری کے حوالے کردیا۔ سابق ریاست بہاول پور کے مغربی پاکستان میں انضمام کے بعد 1955ء سے یہ لائبریری صوبائی حکومت کی تحویل میں بتدریج ترقی کی منزلیں طے کررہی ہے۔ ریاست بننے کے بعد جب اسے صوبے کا درجہ دیا گیا توالیکشنز کے بعدایک صوبائی اسمبلی تشکیل دی گئی جس کے اکثر اجلاس لائبریری کی بلڈنگ میں ہی ہوتے تھے جن کا تحریری ریکارڈ ابھی تک لائبریری میں موجود ہے۔
آج گورنمنٹ سنٹرل لائبریری صوبہ پنجاب کی دوسری بڑی پبلک لائبریری ہے جو تین جاذب نظرعمارات پر مشتمل ہے جہاں تشنگان علم و ادب اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔
قارئین اور اہل علم و فکر اس پرسکون ماحول میں یکسوئی کے ساتھ کتابوں سے مستفید ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ لائبریری کے سرسبزوشاداب لان اور پلاٹس قارئین کی آنکھوں کی تراوٹ وتسکین قلب کا باعث ہیں۔ لائبریری کی شاندار عمارت کو اجاگرکرنے کے لئے عمارت پر رات کے وقت روشنی کا انتظام کیا گیا ہے جو لائبریری کی خوبصورت عمارت کے خدوخال کو منور کرکے انتہائی قابل دید منظرپیش کرتا ہے۔
شہر میں آنے والے ہر خاص وعام لائبریری میں آنا اپنے لئے باعث فخر محسوس کرتے ہیں۔ عوام و طلباء کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے تنظیم و تربیت کی غرض سے لائبریری میں مختلف شعبہ جات قائم کئے گئے ہیں۔
صادق ریڈنگ ہال میں شعبہ ریفرنس سروسز، شعبہ سرکولیشن ومطالعاتی مواد، شعبہ انگریزی کتب، شعبہ اورئینٹئل کتب ،شعبہ مخطوطات، شعبہ نادرونایاب کتب شعبہ تازہ ترین رسائل وگورنمنٹ پبلیکشنز، شعبہ فوٹوکاپی وجلدسازی شعبہ کمپیوٹر وانٹرنیٹ سروسز موجود ہیں لائبریری میں کتب کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
شعبہ خواتین واطفال میں بچوں کی کتب، کھولنے، کمپیوٹر، انٹرنیٹ سروسز، ٹی وی لاؤنج اور خواتین کے لئے ریڈنگ روم کے انتظامات کئے گئے ہیں۔
شعبہ اخبارات ورسائل میں ریڈنگ روم، سروسز برائے ذاتی کتب ومواد تازہ ترین قومی ومقامی اخبارات کا سیکشن اخبارات میں مشتہر ہونے والی خالی آسامیوں اور دیگرمعلوماتی مواد کا ڈسپلے جیسی خدمات مہیا کی جاتی ہیں علاوہ ازیں یہاں پر اخبارات ورسائل کا قیام پاکستان سے قبل اور بعد کا ریکارڈ موجود ہے لائبریری کے رجسٹرڈ ممبران کی تعداد 15500سے زائد ہے۔ لائبریری کی جانب سے طلباء سکالرز اور عوام الناس کو مہیاکی جانے والی مطالعاتی خدمات کا اعتراف حکومتی سطح پر بھی کیا گیا ہے اور سینٹرل لائبریری بہاول پور کے نام پر حکومت پاکستان نے ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا ہے۔ سنٹرل لائبریری میں باہر سے جو لوگ تحقیق کرنے آتے ہیں ان کے لئے عارضی قیام و طعام کا بھی بندو بست کیا جاتا ہے۔
انتظامی ومالی امور:
مغربی پاکستان کے قیام 1948-1955سے قبل اس لائبریری کا انتظام حکومت بہاول پور کے تحت رہا اور سرکاری خزانہ سے اس کے اخراجات فراہم ہوتے رہے۔ مغربی پاکستان کے بعد یہ لائبریری محکمہ تعلیم صوبہ پنجاب کے زیرنگرانی کام کرتی رہی جبکہ26فروری 2013ء سییہ آرکائیوز اینڈ لائبریری ونگ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب کے تحت خدمات سرانجام دے رہی ہے۔
یہ لائبریری ڈائریکٹر جنرل پبلک لائبریریز پنجاب کی انتظامی تحویل میں ہے چیف لائبریرین اندرونی انتظام کا کلی طور پر ذمہ دار ہے۔ اس وقت لائبریری میں61ملازمین موجود ہیں جو چیف لائبریرین رانا محمد جاوید کی سربراہی میں لائبریری کے انتظامی امور کو بخوبی نبھا رہے ہیں۔ چیف لائبریرین کو لائبریری کے اخراجات کے سلسلے میں حسب قواعد مالی اختیارات بھی حاصل ہیں۔ لائبریری کا تنظیمی ڈھانچہ اس صورت سے ترتیب دیا گیا ہے کہ ہرشعبہ بہترسے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکے تاکہ عوام کو فوری اور بہترسہولت فراہم کی جاسکے۔ لائبریری میں ایک مشاورتی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو لائبریری کے لئے کتب کی خریداری میں سفارشات پیش کرتی ہے۔
تنظیم وترتیب:
یہ لائبریری اپنے قیام کے بعد سے ریاست بہاول پور حال بہاول پور ڈویژن کے عوام وطلباء کی ضروریات کو پوری کررہی ہے ۔جس میں عام تعلیمی اداروں کے علاوہ جامعہ اسلامیہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور قائداعظم میڈیکل کالج کے طلباء بھی شامل ہیں۔ سنٹرل لائبریری بہاول پور تین بڑی جاذب نظرعمارات پرمشتمل ہیں جن میں درج ذیل شعبہ جات قائم کئے گئے ہیں۔
1 ۔ مین لائبریری (ریفرینس سیکشن)
2۔ شعبہ اطفال وخواتین
3۔ شعبہ اخبارات ورسائل
درج بالا قائم شعبہ جات میں جو سروسز فراہم کی جاتی ہیں ان کی تفصیل کچھ یوں ہے:
مین لائبریری:
1۔ انگریزی واردو تحقیقی کتب
2۔ شعبہ عربی
3۔شعبہ فارسی
4۔سرائیکی بہالپور سیکشن
5۔نایاب کتب
6۔مخطوطات
7۔کمپیوٹرو انٹرنیٹ
8۔عطیہ میں ملنے والی کتب
9۔ نابینا حضرات کے لئے بریل میں لکھی گئی کتب
10۔سنئیر سٹیزن روم
شعبہ خواتین و اطفال:
بچوں کی لائبریری کو علیحدہ عمارت میں خوبصورت انداز میں قائم کیا گیا ہے۔ جہاں پر کمپیوٹرز سمیت 15000کتب پر مشتمل ریڈنگ مٹریریل فراہم کیا گیا ہے۔لائبریری کا یہ شعبہ14سال سے کم عمر کے بچوں کیلئے مخصوص ہے۔ شعبہ میں بچوں کی دلچسپ انگریزی و اردو کتب کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی نشو ونما کے لئے بھی انتظام کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں بچوں کے لئے ذہنی آزمائش کے کھیل بڑی تعداد میں مہیا کئے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کی جسمانی نشو ونما کے لئے کھیل کے وسیع و عریض میدان ہیں جہاں بچوں کو کھیلنے کے لئے جھولے وغیرہ مہیا کئے گئے ہیں۔اس کے علاوہ موسم گرما میں خوش خطی اور کمپیوٹر لرننگ ، ریڈنگ سکل، سٹوری ٹیلنگ پر شارٹ کورسز بھی کروائے جا رہے ہیں۔ یہ انتظامات صرف اس غرض سے کئے گئے ہیں کہ بچے ذوق و شوق کے ساتھ لائبریری استعمال کرنے کے عادی بن سکیں ۔ اس شعبہ کو مزید ترقی دینے کے لئے حال ہی میں ایک علیحدہ عمارت میں منتقل کیاگیا ہے جس سے اس شعبہ کی کارکردگی میں بے انتہا اضافہ ہو گیا ہے۔اس عمارت میں ہی خواتین کے لئے ریڈنگ روم کا انتظام کیا گیا ہے جہاں خواتین سے متعلق کتب و رسائل رکھے گئے ہیں۔ ، یہاں ائیر کنڈیشنڈ آڈیٹوریم بھی قائم کیاگیا ہے جہاں پر بچوں کو نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔
شعبہ اخبارات ، رسائل و جرائد :
شعبہ اخبارات رسائل و جرائد بھی ایک الگ عمارت میں قائم کیا گیا ہے۔ اس شعبہ میں معروف قومی و مقامی اخبارات اور رسائل و جرائد خرید کر قارئین کے مطالعہ کے لئے رکھے جاتے ہیں۔بعد ازاں ان تمام اخبارات و رسائل کا مجلد شکل میں ریکارڈ رکھا جاتا ہے ۔1944ء سے لے کر اب تک سول و ملٹری گزٹ کی کاپیز بھی موجود ہیں۔ 1945ء سے انگلش روزنامہ ڈان کی کاپیاں اور 1947ء سے لے کر اب تک قائد اعظم کے شروع کئے ہوئے اخبارپاکستان ٹائمز کی کاپیاں بھی موجود ہیں جبکہ اخبارات و رسائل کا ریکارڈ کاپیوں کی صورت میں موجود ہیں۔ جو تحقیقی کام کرنے والوں کے لئے بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔ نیشنل اردو اخبار جو کہ بند ہو چکے ہیں جیسے کہ امروز ، مشرق کی کاپیاں موجود ہیں جبکہ روزنامہ زمیندار، پیسہ اخبار1905ء کو شروع ہوئے ان کی بھی کاپیاں لائبریری میں موجود ہیں۔ نوائے وقت ، جنگ ، جسارت وغیرہ جب سے شروع ہوئے ہیں ان کی کاپیاں لائبریری کے آرکائیو سیکشن میں موجود ہیں اور ریڈرز اور محقیقن و مدبرین ان اخبارا ت ، رسائل و جرائد سے بھرپو فائدہ اٹھاتے ہیں۔اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور لائبریری میں پرانامٹریریل موجود نہیں ہے جس کی وجہ ان کے ریسرچ سکالرز بھی سنٹرل لائبریری سے مستفید ہوتے ہیں۔ بہالپور ریاست کے اندر چھپنے والی مقامی و تاریخی اخبارات کی مکمل کاپیاں فائلوں کی صورت میں موجود ہیں۔بہالپور میں جو بھی ترقیاتی کام ہوئے اس کی تمام رپورٹس لائبریری میں موجود ہیں جن میں ریلوے لائنوں کا بچھانا، ہیڈ ورکس کی رپورٹس ، تعلیمی اور مالی حوالے سے رپورٹس بھی موجود ہیں۔
مخطوطات:
لائبریری میں 250کے قریب فقہ، طب اور جنرل ایشوز پر لکھے گئے 5سو سال پرانے قدیم مخطوطات موجود ہیں۔14سو سال پرانا 4اوراق پر مشتمل خط کوفی بھی موجود ہے جن پر اعراب نہیں لگے ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت امام حسینؓ نے ہرن کی کھال پر اپنے ہاتھ سے لکھے تھے۔
نایاب کتب:
لایبریری میں سکھوں کی مذہبی کتاب گرنتھ صاحب اور ہندؤوں کی مذہبی کتاب مہا بھارت بھی موجود ہے ۔ آپ کو یہاں انجیل ، بائبل اور قرآن پاک کے سات زبانوں میں تراجم بھی ملیں گے۔اس کے علاوہ عربی، اردو فارسی، پنجابی،سرائیکی، جرمنی، گورمکھی، بروحی مینوسکرپٹ بھی موجود ہیں۔بہاولپور کی تاریخ ، رسم و رواج،چولستان کے رسم و رواج اور لوگوں کی زمینوں کے حوالے سے بھی نایاب کتب و مواد لائبریری میں موجود ہیں۔
کمپیوٹرو انٹرنیٹ :
کپمیوٹر لیب میں اس وقت 15کمپیوٹرا موجود ہیں جن میں ریڈرز کو جے سٹور اور ای بریری جیسے ریسورسرز فراہم کئے جارہے اس کے لئے فری انٹرنیٹ کی سہولت بھی موجود ہے۔ انسٹلانگ اور پرنٹر کی سہلوت بھی میسر ہے۔
نابینا حضرات کے لئے بریل میں لکھی گئی کتب:
نابینا حضرات کے لئے بریل میں لکھی گئی ایک ہزار سے زائدکتب موجود ہیں۔ یہ پاکستان میں اپنی طرز کا پہلا سیکشن ہے جو کسی بھی لائبریری میں موجود نہیں ہے یاں پر نابینا افراد کو بہتر سے بہتر سہلولیات فراہم کی جارہی ہیں تاکہ وہ باہری دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل سکیں۔نابینا حضرات کے مطالعہ کے لئے بریل بکس کا شعبہ بچوں اور خواتین کے شعبے میں ہی قائم کیا گیا ہے۔
ممبرشپ:
سنٹرل لائبریری بہاول پور میں پانچ طرز کی ممبر شپس مہیا کی جا رہی ہیں:
1:لائف ٹائم ممبرشپ 2500روپے
(صرف ایک بار)
2:جنرل ممبرشپ 500روپے
سکیورٹی فیس سالانہ: 500روپے
3:سٹوڈنٹ ممبرشپ 300روپے
سکیورٹی فیس سالانہ:300روپے
4:بچوں کی ممبرشپ100روپے
سکیورٹی فیس سالانہ:200روپے
5: نان سکیورٹی ممبرشپ
(شخصی ضمانت پر دی جاتی ہے)
قوائد و ضوابط برائے رکنیت:
لائبریری کی ممبر شپ حاصل کرنے کے لئے ممبر شپ فارم پر کرنے کے بعد دو عدد فوٹو گرافس اور قومی شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی فارم کے ساتھ منسلک کرنا ضروری ہے۔ ممبر شپ فارم کو لائبریری کے ایک ممبر سے تصدیق کروانا بھی ضروری ہے۔ تصدیق کنندہ کا ریکارڈ درست ہو اور وہ کم از کم چھ ماہ سے لائبریری کا ممبر ہو یا 17گریڈ کے افسر سے بھی تصدیق کروائی جا سکتی ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی ، قائد اعظم میڈیکل کالج اور دیگر تعلیمی اداروں کے طلباء طالبات اپنے ادارے کے سربراہ سے فارم تصدیق کروانے کے بعد لائبریری کے ممبر بن سکتے ہیں۔ممبر شپ کے بعد ہر قاری کو ایک وقت میں دو کتب 14دنوں کے لئے جاری کی جاتی ہیں اور مدت معینہ کے بعد کتب کی واپسی پر5روپے یومیہ کے حساب سے جرمانہ وصول کیا جاتا ہے۔کسی بھی ممبر کو حوالہ جاتی کتب ، قیمتی کتب،رسائل اور اخبارات جاری نہیں کئے جاتے تاہم لائبریری میں بیٹھ کر اس مطالعاتی مواد سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ہر ممبر کو ایک سال کے بعد اپنے ممبر شپ کارڈ کی تجدید کروانا ہوتی ہے۔ تجدید نہ ہونے کی صورت میں لائبریری ممبر شپ پہلے سال سٹاپ کر دی جاتی ہے اور دو سال گزرنے کے بعد ممبر شپ منسوخ کرتے ہوئے زیر ضمانت بحق سرکار ضبط کر لی جاتی ہے۔حال ہی میں لائبریری میں وائز فری ایکسیس پروگرام شروع کیا گیا ہے جس کے تحت ممب بننے والئے سکولوں کے سٹاف اور طالبعلموں کو زیادہ سے زیادہ کتب مہیا کی جاتی ہیں اور انہیں لائبریری کی سرگرمیوں میں شرکت کرنے لکئے مدعو کیا جاتا ہے۔
اجراء کتب:
سنٹرل لائبریری میں اس وقت ایک لاکھ5ہزار کتب جبکہ 3لاکھ 5ہزار مطالعاتی مواد موجود ہے۔لائبریری ہفتہ کے چھ روز تک دو شفٹوں میں خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ عام قاری بھی بغیر لائبریری کا رڈ لائبریری کی سروسز سے مستفید ہو سکتا ہے تاہم کتب کے اجراء کے لئے قاری کا ممبر ہونا ضروری ہے۔ ممبر کو دو کتب 14 روز کے لئے جاری کی جاتی ہیں۔ لائبریری کی سالانہ اجراء کتب کی تعداد ڈیڑھ سے دو لاکھ کے درمیان ہے۔ ان میں وہ کتب شامل نہیں ہیں جو لائبریری میں بیٹھ کر مطالعہ کی جاتی ہیں۔
ترتیب کتب:
لائبریری کے جملہ شعبوں کی کتب ڈی۔ڈی۔سی سسٹم کے تحت ترتیب دی گئی ہیں:
کیٹلاگ:
لائبریری کیٹلاگ ڈکشنری کے طریقہ کار مندرجہ ذیل اشکال میں موجود ہیں۔
1: کتب بالترتیب مصنف
2:کتب بالترتیب عنوان
3:کتب بالترتیب مضمون
4: شلف لسٹ
فوٹو سٹیٹ سروسز:
ممبران کی سہولت کے لئے فوٹوسٹیٹ کی سہولت کا بھی بندوبست کیا گیا ہے۔خواہش مند ممبران معاوضہ ادا کر نے پت فوٹوکاپیاں حاصل کر سکتے ہیں۔ کمپیوٹرانٹرنیٹ سروسز:
لائبریری میں آنے والے قارئین و محققین کے لئے کمپیوٹروانٹرنیٹ سروس بھی میسر ہے جہاں پر فری انٹر نیٹ مہیا کیا گیا ہے۔
ریسرچ کیبن:
ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے محققین جو اپنے مقالا جات تیار کر رہے ہوتے ہیں اگر وہ لائبریری کے ممبر بھی ہوں تو انہیں یکسوئی کے ساتھ مطالعہ کرنے کے لئے ان کی تحریری درخواست پر لائبریری کی جانب سے بلامعاوضہ مخصوص مدت کے لئے ریسرچ کیبن فراہم کئے جاتے ہیں۔ اس وقت لائبریری میں 20عددریسرچ کیبن لائبریری میں موجود ہیں۔
شعبہ جلد سازی:
لائبریری میں جلد سازی کا سیکشن قائم ہے۔ جہاں کٹی پھٹی کتب کی مرمت و جلد سازی کا کام انجام دیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ لائبریری میں آنے والے اخبارات و رسائل کی بھی جلد بندی کرکے مستقبل کے مطالعہ و تحقیق کے لئے محفوظ کیا جاتا ہے۔
اغراض ومقاصد:
عوامی کتب خانوں کا بنیادی مقصد بلاامتیاز رنگ ونسل، ذات پات اور مذہب لوگوں کی علمی ضروریات پورا کرنا ہوتا ہے۔ سنٹرل لائبریری بہاول پور بھی عوام میں علمی ذوق پیدا کرنے بچوں کی ذہنی استعداد کے مطابق معیاری علمی مواد بہم پہنچا کر بچوں میں علمی ذوق اور پڑھنے لکھنے کی عادات پیدا کررہی ہے ۔لائبریری کے قارئین کو مدنظررکھتے ہوئے ان کی ضروریات اور ان کی تعلیمی قابلیت کے مطابق مواد جمع کرتی ہے اور بغرض مطالعہ قارئین کو پیش کرتی ہے۔ پبلک لائبریری علاقائی زبانوں اور ثقافت کو محفوظ کرنے اور اس کو ترقی دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے نیزعلاقائی اور قومی تہوار مناکر پبلک لائف کو اجاگرکرتی ہے۔ سینٹرل لائبریری بہاول پور پبلک لائبریری کے کردار کو نہایت خوبی سے سرانجام دے رہی ہے۔ یہاں تمام قومی تہوارودن ملی جذبے کے ساتھ منائے جاتے ہیں۔ موقع کی مناسبت سے کتب کی نمائش بھی کی جاتی ہے اورہرسال کتاب میلہ کا انعقاد لائبریری کے باقاعدہ شیڈول میں شامل ہے۔ اسی طرح ہر سال یوم پاکستان کے موقع پر چلڈرن گالا کروایا جاتا ہے جس میں شہر کے اور مضافات کے سکولوں کے بچے اور اساتذہ کرام کثیرتعداد میں شرکت کرتے ہیں۔چلڈرن گالا میں بچوں کے مختلف پروگرام جن میں سکاؤٹ ویلج ، ملی نغمے، ٹیبلوز وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔والدین اور بچے کثیرتعداد میں شرکت کرتے ہیں۔ لائبریری چلڈرن گالا ایک دل پسند فیملی پروگرام ہوتا ہے۔
کتاب فطرت کی بخشی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے ، عقل و شعور کی صحیح طور پر راہنمائی کرنے اور انھیں پروان چڑھانے کا نہایت مؤثر ذریعہ ہے۔ کتاب کی اپنی دائمی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ قائم و دائم ہی نہیں بلکہ اس میں حد درجہ اضافہ ہو رہا ہے۔کتب بینی سے انسان میں الفاظ کا ذخیرہ بھی بڑھ جاتا ہے اور وہ اس سے اپنے مافی الضمیر کو جس طرح چاہے بیان کر سکتا ہے یہ ایک قدرتی تحفہ ہے کتب بینی کی عادت ہمیں ڈالنی ہو گی تاکہ ایک بہتر اور سمجھ دار معاشرے کا وجود یقینی بنایا جا سکے۔اگر ہم دنیا کے عظیم انسانوں کی سوانح حیات اٹھا کر دیکھیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گی کہ ان کی کامیابی کا ایک بڑا راز گہرا مطالعہ ہی تھا۔ امریکہ کا عظیم صدر ابراہام لنکن پچاس میل کا فاصلہ طے کر کے اپنے دوستوں سے کتابیں مانگ کر لایا کرتا تھا اور جلتی ہوئی لکڑی کی روشنی میں پوپھوٹنے تک محو مطالعہ رہتا۔ واجبی تعلیم رکھنے والے جان برائٹ نے محض اپنے وسیع مطالعہ کے بل پر زبان پر بڑا عبور حاصل کر لیا۔ وہ اپنا ذخیرۂ الفاظ وسیع کرنے کے لئے ہر سال فردوس گم گشتہ (Paradise Lost)پڑھا کرتا تھا۔گلیڈسٹون اپنے کتب خانے کو ’’سکون کا مندر‘‘ کہا کرتا تھا جس میں تقریبا پندرہ ہزار کتابیں تھیں۔اگر آپ بھی اپنی زندگی کو صحیح معنوں میں استوار کرنا چاہتے ہیں تو گاہے بگاہے پبلک لائبریریوں کا دورہ ضرور کریں تاکہ آپ میں بھی کتاب دوستی کا ذوق بیدار ہوسکے۔***