تعلیمی رہنمائی کا فقدان
فواد ارشد:
پنجاب حکومت کی طرف سے سکول دا خلے کی خصوصی مہم ایک نہایت ہی اچھا اقدام تھا جس کے اہداف میں شامل تھا کہ سو فیصد بچوں کے سکول میں داخلے کو یقینی بنایا جائے۔
مہم کا اصل مقصد ایسے طلباء و طالبات جو مختلف مسائل کے پیشِ نظر سکول جانے سے قاصر تھے ان کے مسائل کو سننا ان میں آگاہی اور شعور پیدا کرنا تھا کہ ہمارے آئین 25A)ایکٹ )کے مطابق 16 سال تک تعلیم بالکل مفت ہے اور پاکستان میں بسنے والے ہر بچے اور بچی کو علم پر یکساں آئینی اور قانونی استحقاق حاصل ہے۔ جس میں طلبا کو ناصرف مفت تعلیم دی جائے گی بلکہ مفت وردی اور کتابوں کے ساتھ ساتھ غریب مگر ذہین طلبا کو وظائف بھی دئیے جائیں گے۔
چند روز قبل مجھے یونیورسل پرائمری ایجوکیشن کے سلسلے میں ایک تعلیمی مہم پر جانے کا اتفاق ہوا۔اس مدمیں ہم نے مختلف دیہی سکولز کا رُخ کیا۔ جہاں بہت سے مسائل کے ساتھ ساتھ والدین کی پسماندہ سوچ ، فرسودہ خیالات اور بے حسی بھی دیکھنے کو ملی۔
ایسے والدین بھی ملے جن کے نزدیک تعلیم ایک اضافی شے تھی جس سے صرف امیر لوگوں کے بچے ہی شغل فرماتے ہیں۔
ایسے بھی لوگ ملے جو اپنے بچوں کو کام پر لگانے اور چند روپے کمانے کو تعلیم پر ترجیح دیتے تھے۔ کچھ کے پاس یہ بہانا تھا کہ گندم کی کٹائی کے سلسلے میں ہم نے بچوں کو سکول سے ہٹا لیا ہے جبکہ کچھ دیگر مسائل کی بدولت بچوں کو تعلیم دلوانا ہی نہیں چاہتے تھے۔ کچھ کا کہنا تھا کہ اگرچہ تعلیم مفت بھی ہو لیکن اگر ہمارے بچے بھی ہمارے ساتھ کھیتوں اور بٹھوں پر مزدوری نہ کریں تو ہمارا گزارہ نہیں ہوتا لیکن الحمد للہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب رہے اور ایسے تمام والدین کو قائل کرنے کے بعد ان کے بچوں کو اسکول میں داخل کروایا اور اساتذہ سے وعدہ بھی لیا کہ وہ ان بچوں کو نہ صرف زیورِ تعلیم سے آراستہ کریں گے بلکہ ان کے والدین کو تعلیم کی اہمیت و افادیت بھی بتاتے رہیں گے تاکہ ان کے جذبے ٹھنڈے نہ پڑیں۔
اس مہم کے دوران مجھے شدت سے احساس ہوا کہ ہمارے نظام تعلیم کی ناکامی کا م سب سے بڑا مسئلہ ’’رہنمائی‘‘ اور ’’آگاہی‘‘ کا فقدان ہے۔ مضامین پڑھانے والوں کی کمی بالکل نہیں ہے لیکن لوگوں کی تعلیمی رہنمائی کرنے والوں کی کمی ہے۔ یہ کمی بنیادی سطح سے لے کر آخر تک موجود ہے۔ اوّل تو لوگ تعلیم اور اس کی افادیت سے ہی آگاہ نہیں اور جو چار و ناچار تعلیم حاصل کر رہے ہیں اُن کو بھی اپنی صحیح سمت کا تعین نہیں۔
والدین اپنے بچوں کو سوچ کی آزادی دینے، ان کی زندگی کی منصوبہ بندی میں ان کی مدد کرنے کی بجائے اپنے خوابوں کی تکمیل پر لگا دیتے ہیں۔ بچوں سے ایسی امیدیں باندھ لیتے ہیں جنھیں پورا کرنا اُن کے لیے بے حد مشکل ہوتا ہے۔
بلاشبہ علم والے اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے لیکن ایسی کون سی وجوہات ہیں جن کی بدولت طلبا ء کی کثیر تعداد علم حاصل کرنے کے باوجود ڈگریاں تھامے بے روزگاری کا رونا رو رہی ہے۔ جن میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد بھی اخلاقی اقدار کا اتنا ہی فقدان ہے جتنا کہ جہلاء میں ۔۔۔ کیوں؟
دراصل ہماری تعلیم صرف کتابوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ ہماری عملی زندگی اس سے کوسوں دور ہے جو ہمیں کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے۔
ہمارے قول و فعل میں اس قدر تصنوع صرف اس لیے ہے کہ ہم تعلیم تو پاتے ہیں تربیت نہیں پاتے۔ ہمارے ہاں تعلیم کا یہ فرسودہ نظام تو موجود ہے لیکن تربیت نامی کوئی چیز نہیں ہے جس کی وجہ سے والدین جیسا مخلص رشتہ بھی اپنے بچوں کے تعلیمی مستقبل سے مایوس ہو چکا ہے۔
موجودہ تعلیمی نظام غورو فکر اور مشاہدات وتجربات کی بجائے طلبا ء کو رٹے کا درس دیتا ہے۔ تعلیمی ادارے در پیش حالات کے دباؤ، اپنے مفادات اور وقتی فوائد کے حصول کی خاطر محض درسی اور نصابی سرگرمیوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
اور نصابی سرگرمیوں کا مفہوم بھی ’’رٹا بازی‘‘ سے کچھ بڑھ کر نہیں ہے جس کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ ذہین، قابلِ اور تخلیقی طالب علموں کے لیے ترقی کی راہیں مسدود ہو گئیں۔
ہمارا تدریسی نصاب نہ تو وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے اور نہ ہی دورِ جدید کے علوم کا احاطہ کرتا ہے اور ایسا پرانا ہے کہ طلبا ء اور اساتذہ دونوں ہی درسی کتابوں سے بے زار ہو کر گائیڈوں اور خلاصوں پر تکیہ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔
درسگاہوں کا حال یوں ہے کہ کردار سازی کی بابت کسی تعلیمی ادارے میں کوئی خاص انتظام یا اہتمام موجود نہیں۔ کتنے ادارے ایسے ہیں جہاں طلباء کو غوروفکر کرنے، ان میں تخلیقی صلاحیتوں کو اُبھارنے اور معاملہ فہمی کی تربیت دینے کا باقاعدہ انتظام موجود ہو؟
اگر تعلیمی اداروں کے منتظمین اور اساتذہ یہ طے کر لیں کہ وہ نصابی سرگرمیوں (درس و تدریس) کے ساتھ ساتھ بچوں کی اچھی تربیت کو اپنا نصب لعین بنائیں گے جو طلبا ء کو ایک بیدار مغز، معاملہ فہم اور مخلص انسان بننے میں مدد کر سکے جس سے ان میں اخلاق، رواداری، خوش دلی اور قربانی جیسی اشرف المخلوقاتی اقدار پروان چڑھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے معاشرے میں اچھے انسانوں کی کمی پوری نہ ہو۔
اساتذہ کو رول ماڈل بنناہوگا یہ تب ہی ممکن ہے جب اساتذہ خواہشِ قلبی اور جذبہ درس و تدریس کے تحت اپنی ذمہ داریاں قبول کریں گے۔ اس وقت پوری قوم کی نظریں صرف اساتذہ پر ہیں۔ کیونکہ اساتذہ ہی ہیں جو تعلیم پانے والوں کی نشوونما پاتی شخصیت کو صحیح راستوں پر لگا سکتے ہیں۔ان کے دل میں اعلیٰ و ارفع مقاصدِ حیات کی تشکیل کر سکتے ہیں اور طلبا کے دلوں میں انمٹ علمی تشنگی پیدا کر سکتے ہیں۔ اور یہ اساتذہ ہی ہیں جو بچوں میں ان کی انفرادیت اور ذات کا شعور اور زندگی کی مثبت قدروں کا احساس اُجاگر کر سکتے ہیں۔
لہٰذا انہیں امتحان پاس کروانے کے ساتھ اپنے شاگردوں کو حاصل شدہ علم کو عملی طور پر برتنے ان کو اپنی شخصیت اور کردار کا جزو بنانے کا ہنر اور فن بھی تعلیم کرنا ہو گا۔
بلاشبہ وہی اساتذہ والدین کہلانے کا استحقاق رکھتے ہیں جو اپنے شاگردوں کے شعور کو توانا اور بلند کر دیتے ہیں جو اپنے شاگردوں کی ایسی تربیت کرتے ہیں کہ علم و عرفان اور آگہی کی راہ ہو یا دُنیاوی معاملات کی عقدہ کشائی انہیں کبھی مشکل پیش نہیں آتی۔
اگر نئی دُنیا کے نقشے پر اپنی کم مائیگی کا ازالہ کرنا ہے تو علم کی شمع ہرخاص و عام کے دل میں فروزاں کرنے کے ساتھ ساتھ اچھی تربیت اور رہنمائی کو بھی اوّل ترجیح دینا ہو گی اورایسی فضا قائم کرنا ہوگی جس میں ڈر اور خوف کی بجائے تقدیس کا احساس ہو۔اساتذہ اور طلباء میں ہم آہنگی کی فضا قائم کرنا ہوگئی۔اساتذہ کو بدلتے ہوئے حالات اور نفسیاتی علوم سے روشناس ہونا ہوگا تاکہ وہ بچوں میں پیدا ہونے والے مسائل کا بروقت تدارک کر سکیں۔*