کیا حکومتی این او سی کو جواز بنا کر شالا مار باغ گرانے کی اجازت دے دی جائے؟ لاہور ہائیکورٹ
لاہور(نامہ نگارخصوصی )لاہور ہائیکورٹ نے اورنج ٹرین منصوبے کے لئے چینی بینک ایگزام سے حاصل کئے گئے قرضے اور اس پر مارک اپ کی تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے، عدالت نے منصوبے کے لئے محکمہ آثار قدیمہ کے ایک ہی نوعیت کے این او سی پرقانونی سوالات اٹھا دیئے ،7جون کو حکومت کو ان سوالات پر دلائل دینے کی ہدایت کی گئی ہے ۔جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے درخواستوں پر سماعت کی، درخواست گزاروں کی طرف سے اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ حکومت پنجاب نے ایشئین ڈویلپمنٹ بینک سے اعشاریہ 75فیصد شرح سود پر اورنج ٹرین منصوبے کے لئے قرض لینے کی بجائے چینی ایگزم بینک سے 6 فیصد شرح سود کا معاہدہ کیا،معاہدے کے تحت چینی ایگزم بینک نے 200 ارب روپے کے منصوبے کے لئے محض 162ارب روپے کے قرضے کی فراہمی پر آمادگی کا اظہار کیا مگر حکومت 28ارب کی اضافی رقم کہاں سے لائے گی ،بھاری مارک اپ پر قرضہ حاصل کرنا آئین کے آرٹیکل 118اور 119کی خلاف ورزی ہے ، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شکیل الرحمن نے عدالت میں محکمہ ٹرانسپورٹ کا نوٹیفکیشن داخل کراتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ایل ڈی اے نے منصوبے پر سروسز کی مدمیں ایک فیصد رقم کی وصولی کا فیصلہ واپس لے لیا ہے جس سے منصوبے میں شامل ایک ارب 75کروڑ سے زائد رقم منہا ہو جائے گی ، عدالت نے ریمارکس دئیے کہ نئے تعینات ہونے والے ڈی جی آثار قدیمہ نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے 3دن میں ہی تاریخی عمارتوں کی حیثیت کا مرحلہ وار جائزہ لئے بغیر ایک ہی نوعیت کا این او سی کیسے جاری کر دیا، تین یوم میں تو ڈی جی محکمہ آثار قدیمہ کو آرکیالوجی کے ہجّے بھی یاد نہیں ہوئے ہوں گے،عدالت کو بتایا جائے کہ کیا حکومتی این او سی کو جواز بنا کر شالا مار باغ گرانے کی اجازت دے دی جائے،این او سی جاری کرنے کے بعد دستاویزات کو منظر عام پہ لایا گیا،این او سی جاری کرنے سے قبل ایکسرسائز کیوں مکمل نہیں کی گئی، عدالت نے مزید سماعت 7جون تک ملتوی کر تے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو آثار قدیمہ کے این او سیز پر دلائل دینے اور قرضے کی تفصیلات جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔