جولائی میں الیکشن نہ ہوئے تو پھر کب ہوں گے ؟
ان دنوں پاکستان میں سیاسی تجزیہ نگاروں و دانشوروں کے ساتھ ساتھ روحانی ماہرین نے بھی پیش گوئیوں کا دربارسجا رکھا ہے اور 2018 کے انتخابات کے بارے ایسی ایسی موشگافیاں کی جارہی ہیں کہ پوری قوم کا دماغ الیکشن بخار سے تپنے لگ پڑا ہے۔ سب سے طاقتور رائے یہ سامنے آرہی ہے کہ الیکشن نہیں ہوں گے ۔اچانک کچھ ہوگا اور قومی سلامتی و داخلی امن کے نام پر انتخابات موخر ہوجائیں گے،نگران سیٹ اپ طویل ہوجائے گا اور پھر یہ ہوگا ،وہ ہوگا .... جتنے منہ اتنی باتیں لیکن اتفاق سے منہ زیادہ ہونے کے باوجود باتیں ایک جیسی ہیں ۔اب ان باتونی مونہوں کو کیسے آئینہ دکھایا جائے کہ حضرت ”لعنت زدہ “ اسمبلی اور ”لنگڑی لولی“ جمہوریت دونوں نے مزید پانچ سال پورے کر لئے ہےں ،پاکستان کی سیاسی تاریخ بدل گئی ہے ،دوسرا پنج سالہ منتخب دور حکومت کامیاب ہوگیا ہے ۔اس سے قطع نظر کہ فائیو پلس فائیوسالوں میں کون اقتدار سے گیا ،کس کو کتنے الزامات کی سوئیاں چبھوئی گئیں ،کون نااہل ہوا ،کون اہل،صادق اور امین کتنے ٹھہرے .... لیکن شاباش دیجئے ان جمہوری اور خلائی مخلوقات کو جنہوں نے 2008 سے 2018 تک ان دس سالوں تک اسمبلیوں کو قائم و دائم رکھا ۔یہ چھوٹی کامیابی نہیں.... بہت بڑی کامیابی ہے جس پر پوری جمہوریت پسند قوتوں اور قوم کو سجدہ شکر ادا کرنا چاہئے ۔عمران خان نے تو قوم کو سجدہ شکر ادا کرنے کا اس وجہ سے مشورہ دیا ہے کہ قوم کی ”بدترین بدعنوان“ حکومت سے جان چھوٹی لیکن حقیقت میں سجدہ تشکر یہ بنتا ہے کہ دس سالوں میں جمہوریت کو راستہ مل گیا ہے۔
سوال یہ اٹھایا جارہا ہے کہ انتخابات اگر جولائی کی پچیس کو نہیں ہوں گے تو کب ہوں گے، ملتوی ہوئے تو انکے امکانات میں کتنے اتفاقات جنم لیں گے ،یہی سیٹ اپ آگے بڑھ جائے گا تو کیا اسکے لئے نظریہ ضرورت پیدا کرلیا جائے گا ۔خیر ہونے کو کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن مجھ ایسے خوش فہموں کونہیں لگتا کہ الیکشن ملتوی ہوں گے۔ چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار اور نگران وزیر اعظم ناصر الملک کو بھی قوی امید ہے اور انکی کوشش ہے کہ الیکشن مقررہ وقت پر ہوں ،نگران وزیر اعظم نے حلف برداری کی تقریب میں آرمی چیف کی موجودگی میں یہ پورے تیقین سے کہا ہے کہ یاد رکھیں انتخابات وقت پر ہوں گے ، شفافیت کیلئے الیکشن کمیشن کی بھرپور مدد کی جائے گی ، شفاف انتخابات کا انعقاد میری اوّلین ترجیح ہے ۔چیف جسٹس نے بھی صحافیوں سے بات چیت کے دوران پورے اعتما د سے کہا ہے کہ میں ہوں ناں،الیکشن وقت پر ہوں گے ، الیکشن ملتوی کرانے کی کوشش کی گئی تو سپریم کورٹ حرکت میں آجائے گی ۔چیف جسٹس کا یہ بیان کھلی آنکھوں اوردلوں کے ساتھ دیکھنا سمجھنا چاہئے ۔الیکشن موخر کرنے کی صورت میں اب تک کی ساری کریڈیبلٹی داو پر لگ جائے گی اور عدلیہ سمیت کوئی بھی غیر سیاسی ادارہ اس ایڈونچر کو افورڈ نہیں کرپائے گا ۔پاکستان کے اندرونی اور خارجہ حالات اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتے کہ فوج شب خون مارنے کا رسک لے گی ۔حالات بدل چکے ہیں ، نظریات میں واضح تبدیلیاں آچکی ہیں ۔جب مارشل لا کے بغیر کام چلایا جاسکتا ہے تو مارشل لاءکا کلنک ماتھے پر لگانے کی کیا ضرورت ہے۔موجودہ فوج جمہوریت پسندی کے کافی ثبوت دے چکی ہے ،اب اگر کوئی اپنی سیاسی ناکامیوں کا ملبہ فوج اور عدلیہ پر ڈالناچاہتا ہے تو یہ خود ان سیاسی قوتوں کا امتحان ہے جس کا نتیجہ انکے عمل اور ردعمل کے مطابق نکلے گا ۔
ایک لمحہ کے لئے سوچ لیتے ہیں کہ انتخابات ملتوی ہوجائیں گے اور اسکے لئے سیاسی جماعتیں غیر جمہوری قوتوں کا ساتھ دیں گے۔سوچنے کی بات ہے کہ انتخابات کو موخر کرانے کے لئے کون سی سیاسی جماعت غیر جمہوری قوتوں کوکاندھا دینے پر تیار ہوگی ،لگتا نہیں کہ کوئی سیاسی جماعت خودکشی پر آمادہ ہو۔ اگر کوئی سیاسی جماعت ایسا کرنے پر تل بھی جائے تو اسے کیا ملے گا ؟ سکندر مرزا سے جنرل مشرف کے دور تک ڈکٹیٹروں کا ساتھ دینے والی جماعتوں کے ہاتھ کیا آیا؟ میرا خیال ہے کہ کوئی بھی قومی سطح کی سیاسی جماعت ماضی کے ناکام تجربات کرکے رسوا نہیں ہونا چاہے گی ۔دعا اور کوشش بھی کرنی چاہئے کہ پاکستان کا دس سالہ جمہوری تسلسل اگلے پانچ سالوں کے لئے زنجیر بنا رہے ،کوئی بریک نہ لگے ۔امید میں بڑی طاقت ہوتی ہے جو وسوسوں کی بیماری سے بچائے رکھتی ہے ۔
..
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔