کیا الیکشن ملتوی کرانے کیلئے عدالتوں کا راستہ اختیار کیا جائیگا
تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
کاغذات نامزدگی کا فارم کالعدم قرار دینے کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا ہے جو ممکنہ طور پر پیر کو دائر کر دی جائے گی۔ وزیراعظم ناصر الملک نے اپیل دائر کرنے کا حکم دیا ہے جس کا مقصد مقررہ وقت پر انتخابات کا انعقاد یقینی بنانا ہے، الیکشن کمیشن بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف بھی اپیل کرے گا جس نے کوئٹہ کی حلقہ بندیاں کالعدم قرار دے دی ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بنچ کا فیصلہ محفوظ تھا اور یکم جون کو اس وقت سنایا گیا جب ایک دن پہلے الیکشن کمیشن انتخابی شیڈول کا اعلان کر چکا تھا اور اس کے تحت 2 سے 6 جون تک کاغذات نامزدگی وصول کئے جانے تھے، یہ سلسلہ اب لاہور ہائی کورٹ کے حکم کی وجہ سے رک گیا ہے اور اگر پیر کو اپیل دائر ہو گئی تو بھی معلوم نہیں یہ عدالتی عمل کتنے دن چلے، یہ بھی ممکن ہے کہ سپریم کورٹ کوئی ایسا عبوری حکم جاری کر دے جس کے تحت کاغذات نامزدگی کی وصولی کا عمل جاری رہ سکے۔ یہ تو اپیل میں کی جانے والی استدعا سے ہی معلوم ہوگا تاہم خدشہ یہ بھی ہے کہ انتخابات ملتوی کرانے کے حامیوں اور بروقت انتخاب کا انعقاد یقینی بنانے کے خواہش مندوں کے درمیان عدالتی جنگ طول کھینچ جائے اور کچھ نئی درخواستیں بھی دائر ہو جائیں، ویسے تو یہ کوئی نئی اور انوکھی بات بھی نہیں ہے، ہر الیکشن سے پہلے کسی نہ کسی مسئلے پر لوگ عدالت جاتے رہے ہیں اور یہ درخواست ڈالتے رہے ہیں کہ انتخاب ملتوی کئے جائیں۔ ہمارے ڈاکٹر طاہر القادری کو 2013ء کے الیکشن سے عین پہلے یہ خیال آ گیا تھا کہ سیاست نہیں، ریاست کو بچانا ضروری ہے چنانچہ وہ اس نعرے کے ساتھ میدان میں اترے، مینار پاکستان کے سائے میں جو اب گریٹر اقبال پارک میں ڈھل چکا ہے ’’50لاکھ افراد‘‘ کے جلسے سے خطاب کیا اور اس وقت کی حکومت کو الٹی میٹم دیا کہ ان کے مطالبات مان لئے جائیں بصورت دیگر وہ لاہور سے اسلام آباد مارچ کریں گے اور پھر اسلام آباد میں دھرنا دیں گے، چونکہ ان کے مطالبے کا کوئی سر تھا نہ پیر، اس لئے حکومت خاموشی سے لانگ مارچ اور دھرنے کا انتظار کرنے لگی، پروگرام کے مطابق قبلہ اپنے گرما گرم (سردی کا موسم تھا) کنٹینر میں بیٹھ کر عازم اسلام آباد ہوئے اور وہاں ڈیرے ڈال لئے، دن میں کئی کئی مرتبہ کنٹینر پر نمودار ہوتے، دھواں دھار خطاب فرماتے اور پھر استراحت کے لئے کنٹینر کے اندر چلے جاتے۔ دھرنے کے شرکاء اسلام آباد کی سردی میں پارلیمینٹ ہاؤس کے باہر شدید سرد موسم سے لطف اندوز ہوتے لیکن قبلہ کو گرم کنٹینر میں پسینے آ رہے ہوتے۔ یہ دھرنا چار دن رہا پھر حکومت نے ایک کمیٹی بنائی جس نے ڈاکٹر صاحب کو دھرنا اٹھانے پر آمادہ کر لیا۔ کمیٹی کے روبرو انہوں نے اپنے جو مطالبات رکھے، آج تک نہیں سنا کہ ان کا کیا بنا اور جب یہ مطالبات پورے نہیں ہوئے تو انہوں نے کیا ردعمل دیا۔ ویسے تو ان کا نعرہ ’’سیاست نہیں، ریاست بچاؤ‘‘ بذات خود ایک مبہم نعرہ ہے، سیاست ریاست کی خدمت ہی کا ایک طریقہ ہے اور جن ملکوں نے سیاست کو فائن آرٹ کا درجہ دے دیا وہ ترقی کی منازل تیزی سے طے کر گئے، جدید دور میں کوئی ریاست ایسی نہیں جہاں سیاست نہ ہوتی ہو لیکن معلوم نہیں وہ کون بزر جمہر دانشور تھا جس نے ڈاکٹر صاحب کے لئے یہ نعرہ ترتیب دیا تھا، پھر انہیں خیال آیا کہ قریب آتے ہوئے الیکشن ملتوی کرائے جائیں۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور کیس لڑنے کا فیصلہ بھی خود ہی کیا کیونکہ وہ خود قانون کے ڈاکٹر ہیں، اس لئے انہیں کسی قانون دان کی خدمات کی چنداں حاجت نہ تھی۔ اس وقت تک پوزیشن یہ تھی کہ پاکستان عوامی تحریک موجود تو تھی لیکن کئی الیکشن ہارنے کے بعد یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ وہ اب الیکشن نہیں لڑے گی۔ 2002ء میں البتہ ڈاکٹر صاحب نے ایک نشست جیت لی تھی اور قومی اسمبلی کے رکن بن گئے تھے لیکن چند ہی اجلاسوں کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ اس ایوان کی رکنیت ان کے لئے کوئی وجہ عزت نہیں ہے، وہ عالم فاضل، سینکڑوں کتابوں کے مصنف، عالمی شہرت یافتہ سکالر اور دنیا بھر میں جانے پہچانے تھے، اسمبلی کے اجلاس میں بیٹھ کر بے کیف اور بے روح بلکہ بے مغز تقریریں سننے کا ان میں یارانہ تھا، اس لئے چند ہی اجلاسوں کے بعد انہوں نے اپنا پاندان اٹھا لیا اور استعفا دے کر قومی اسمبلی کی رکنیت کا بوجھ اپنے سر سے اتار لیا، بلکہ ملک ہی چھوڑ دیا اور کینیڈا جا کر وہاں کی رکنیت حاصل کر لی، 2002ء سے لے کر 2012ء تک وہ عالمی میلاد کانفرنسوں میں شرکت اور شہر اعتکاف میں اعتکاف کے لئے تو آتے رہے لیکن اس عرصے میں ان کی کوئی سیاسی سرگرمی دیکھنے اور سننے میں نہیں آئی۔ اس پورے عرصے میں ان کی واحد سیاسی سرگرمی مینار پاکستان کا جلسہ اور اسلام آباد کا دھرنا تھی۔ سپریم کورٹ نے الیکشن ملتوی کرنے کے متعلق ان کا موقف رد کر دیا ویسے بھی انہوں نے اور ان کی پارٹی نے الیکشن تو لڑنا نہیں تھا، اپنی درخواست مسترد ہونے کے بعد وہ واپس کینیڈا چلے گئے اور اپنے دوسرے مشہور عالم دھرنے کے وقت ہی آئے جس کی تفصیلات سے آپ واقف ہیں، اس لئے اس کا تذکرہ کسی دوسرے وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔ بات ان کوششوں کی ہو رہی ہے جو الیکشن ملتوی کرانے کے لئے کی جا رہی ہیں۔ حلقہ بندیوں کا معاملہ اور کاغذات نامزدگی کا فارم تو سامنے آ چکے ہیں لیکن ابھی اس سلسلے میں کچھ اور باتیں بھی چند دنوں میں سامنے آئیں گی۔ جہاں تک کاغذات نامزدگی کے فارم کا تعلق ہے یہ کوئی مجرد فارم نہیں تھا، یہ 2017ء میں پارلیمینٹ کے منظور کردہ الیکشن آرڈر کا ایک حصہ ہے جس میں بہت سی اصلاحات کی گئی ہیں اور الیکشن کمیشن کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا۔ یہ فارم کسی ایک جماعت نے منظور نہیں کیا، پارلیمینٹ نے منظور کیا ہے اور اس میں تبدیلی بھی پارلیمینٹ کا ہی حق ہے تاہم اب اگر لاہور ہائی کورٹ نے اس سلسلے میں حکم جاری کیا ہے تو قانون کے مطابق یہ معاملہ سپریم کورٹ میں چلا جائے گا اور وہاں سے جو فیصلہ ہوگا وہی حتمی ہوگا۔ اس لئے اس ضمن میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنا ہوگا البتہ جو لوگ آج بھی کہہ رہے ہیں کہ الیکشن اکتوبر، نومبر تک جا سکتے ہیں، یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ اس کے لئے کیا منصوبہ بندی کئے ہوئے ہیں۔ کیا وہ بھی عدالتوں کا راستہ اختیار کریں گے؟ لیکن عین ممکن ہے ان سب منصوبہ سازوں کی ممکنہ درخواستوں کا وہی حشر ہو جو 2013ء میں ڈاکٹر طاہر القادری کی درخواست کا ہو چکا ہے۔
عدالتی راستہ