چین بھارت سرحدی کشیدگی اور امریکی عزائم
چین نے بھارت کے ساتھ متنازعہ علاقے میں آرٹلری بھی بھجوا دی ہے اور سو سے زائد فوجی خیمے بھی چین اور بھارت کے درمیان متنازع لداخی ایریا میں پہنچا دیئے گئے ہیں۔ یہ علاقہ 16ہزار فٹ کی بلندی پر ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان چار مقامات پر تنازعہ ہے ان میں سے تین مقامات لداخ میں ہیں جو کشمیر کے ساتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب 5اگست 2019ء کو بھارت نے بھارتی مقبوضہ کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا تو اسی اعلان میں اسے لداخ سے بھی الگ کرنے کا اعلان کیا، تاہم لداخ کے تین اہم مقامات پر بھارت چین سرحدی تناؤ اور کشیدگی پائی جاتی ہے چوتھا متنازع مقام درہ نوکولا ہے جو بھارتی ریاست سکم اور چینی تبت کے درمیان واقع ہے۔ تبت بھی بھارت چین اختلافات کا محور ہے۔ چین تبت کو اپنا اٹوٹ انگ مانتا ہے، جبکہ بھارت نے تبت کی خود ساختہ جلا وطن حکومت کے سربراہ دلائی لامہ کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے، لیکن ان تمام اختلافات کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان 100 ارب ڈالر کی تجارت بھی ہو رہی ہے اور چین نے بھارت میں خاص سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔ چین کے مطابق چین کا 91ہزار کلومیٹر کا علاقہ بھارتی قبضے میں ہے، جسے وہ واپس لینے کا دعویٰ رکھتا ہے۔
چین اور بھارت کے درمیان دو طرح کا بارڈر موجود ہے۔ ایک لائن آف ایکچوئل کنٹرول (LOAC) اور دوسری چائینز کلیم آف لینڈ (CCL)۔ لداخ میں پینگونگ جھیل بھی دونوں ممالک کے درمیان متنازعہ ہے اس کے 2/3حصے پر چین کا قبضہ ہے، لیکن اس کے باوجود یہاں محاذ گرم رہتا ہے، کیونکہ بھارت، یہاں جس علاقے کو اپنا تصور کرتا ہے وہاں چین قابض ہے اور چین نے وہاں نہ صرف کنٹرول برقرار رکھا ہوا ہے، بلکہ وہاں سڑکیں اور کمیونیکیشن نیٹ ورکس بھی قائم کر رکھے ہیں، جبکہ بھارت نے ”اپنے علاقے“ میں سڑک بنانے کی کوشش کی تو چین نے اس کا بھرپور جواب دیا، اس طرح بھارت کو منہ کی کھانا پڑی اور پوری دنیا میں اسے شرمندگی اٹھانا پڑی۔
یہاں ایک بات پر نظر رہنی چاہیے کہ بھارت خطے میں چودھراہٹ کا امیدوار ہے،اسے امریکی آشیرباد بھی حاصل ہے، بلکہ امریکہ دو دہائیوں سے بھارت کو بڑھاوا بھی دے رہا ہے۔ بحر ہند اور خطے میں چین کے مقابل اسے ”تیار“ بھی کیا جا رہا ہے۔ امریکہ عالمی منظر پر، عالمی معیشت پر، عالمی سیاست پر چین کے اٹھتے ہوئے،بڑھتے ہوئے اور جمتے ہوئے قدم ہر گز ہرگز پسند نہیں ہیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت چین دنیا کے 3براعظموں ایشیا، یورپ اور افریقہ کے 100ممالک میں اپنے قدم جمانے کی منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے۔ سی پیک اس منصوبے میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ امریکہ خطے میں کشیدگی کے ذریعے اس کلید پر ضرب لگانا چاہتا ہے۔ اس لئے بھارت سرکار کو چین کے خلاف شہ دی جا رہی ہے اور حالیہ چین بھارت کشیدگی اسی امریکی سوچ کی عکاس ہے۔ امریکہ نے بھارت کو شہ دے کر چینی ضبط کو چیک کیا ہے۔ چین ”نووار اور کم از کم کشیدگی“ کی پالیسی پر گامزن ہے، کیونکہ چین اپنے طے کردہ پروگرام کے مطابق، اپنی تعمیر و ترقی کا ایک سنگ میل 2025ء میں عبور کرنے جا رہا ہے اور عالمی اداروں کے مطابق 2030ء تک چین بالفعل ایک عالمی طاقت بن جانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اگر حالات ایسے ہی رہے تو چین اپنے اہداف حاصل کر لے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے جنگ میں الجھاکر اس کی منزل کھوٹی کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ ہندوستان کا لداخ میں حالیہ قدم، اسی عالمی سازش کا ایک حصہ ہے۔
عالمی ادارے بشمول آئی ایم ایف یہ واضح کر چکے ہیں کہ 2020ء میں صرف ایک معیشت ہی قابل ذکر گروتھ ظاہر کر سکے گی اور وہ ہے چینی معیشت۔یعنی چین نے کورونا کے حملے کو سر کر لیا ہے اور اس کی معیشت اس کے منفی اثرات سے نکل گئی ہے۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ چینی معیشت کس قدر موثر اور مضبوط ہے۔ ظاہر ہے یہ بات عالمی چودھری کو ہرگز ہرگز قبول نہیں ہے۔ اس سے پہلے امریکہ چین پر بھاری پابندیاں بھی لگا کر دیکھ چکا ہے، لیکن چین کے ترقی و عظمت کی طرف اٹھتے ہوئے قدم روکے نہیں جا سکے۔ چین نے 5جی لانچ کے ذریعے دنیا پر اپنی فنی و تکنیکی برتری بھی ثابت کر دی ہے۔ امریکہ نے اس کو بھی ناکام بنانے کی کاوشیں کی ہیں، لیکن اسے خاطر خواہ کامیابی نہیں ہو سکی۔ پھر کورونا کی بلا نازل ہو گئی۔ اس کے بارے میں ابتداً کیا گیا ایک تاثر پیدا ہوا کہ امریکہ نے چینی معیشت کو برباد کرنے کے لئے ”کوڈو19“ چھوڑا۔ ووہان مین اس وبا کے پھوٹتے ہی امریکی صدر نے ”ہر قسم کی امداد“ کی پیش کش کی اس طرح یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ چین بیچارہ وبا میں پھنس گیا ہے،
لیکن دنیا نے دیکھا کہ چین نے 100دنوں کے اندر اندر وبا پر قابو پا لیا اور پھر زندگی پہلے کی طرح رواں ہونے لگی، لیکن اس دوران وباء نے امریکہ و یورپ کا رخ کر لیا، کہا گیا کہ چین نے جوابی کارروائی کی ہے۔ اس طرح امریکہ یورپ سمیت ساری دنیا اس کی لپیٹ میں آ گئی اور عالمی معیشت کا دھڑن تختہ ہو گیا۔ دنیا ابھی تک کورونا کی تباہ کاریوں تلے سسک رہی ہے۔ غربت، بے روز گاری عام ہو چکی ہے، لیکن چین پر اس کے اثرات ایسے نہیں ہیں، جیسے متوقع تھے، یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے آگے بڑھتے ہوئے چین کو ایک جنگ میں جھونکنے کی کاوشیں شروع کر دی ہیں۔ لداخ میں بھارت نے جو کچھ کیا وہ اسی منصوبہ سازی کا ایک حصہ نظر آ رہا ہے، لیکن چین نے جس انداز میں اس کا جواب دیا۔ وہ بھی بڑا یادگار ہے۔
بھارت 1962ء میں بھی چین کے ہاتھوں ذلت اٹھا چکا ہے اور اب بھی ایسا ہی ہوگا، لیکن بھارت اس وقت امریکی ایجنٹ کا کردار بھی ادا کر رہا ہے۔ اس کے اشاروں پر، اس کی منصوبہ سازی کے مطابق خطے میں بدامنی پیدا کرنے کی کاوشیں کر رہا ہے۔ کشمیر پر قبضہ بھی اسی بھارتی سٹرٹیجی کا حصہ ہے۔ پھر شہریت کا متنازعہ قانون اور اس کے اقلیتوں پر اثرات کو دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خطہ بتدریج بدامنی اور انتشار کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ پاکستان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بھی جاری ہے۔پاکستان ائر فورس کا بھارتی فضائیہ کا طیارہ گرانا اور ابی نندن کی گرفتاری اور پھر رہائی ذہن میں رکھیں۔ حال ہی میں سرحدوں پر جاسوسی اور 2بھارتی ڈرونز کا گرایا جانا سامنے لائیں، پھر وزیراعظم عمران خان کے بیانات تواتر کے ساتھ ”فالس فلیگ آپریشن“ کی دہائی خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ پاکستان نے ابھی تک برداشت کا دامن تھاما ہوا ہے۔ جنگ ہرگز مسائل کا حل نہیں ہے۔
امریکہ جیسی سپریم طاقت 18سال تک افغانوں کے ساتھ مصروف جنگ رہی، لیکن اسے بالآخر مذاکرات کے ذریعے ہی مسئلہ افغانستان حل کرنا پڑ رہا ہے۔ ہندوستان، امریکی ایجنٹ کے طور پر فعال کردار ادا کررہا ہے۔ امریکہ خطے میں جنگ کا جہنم دھکانا چاہتا ہے، تاکہ خطے میں عدم استحکام کے باعث اس کی خارجہ پالیسی (جو اسلحے کی فروخت کے فروغ کے مرکزی نقطے کے گرد گھومتی ہے) غالب رہے چین کو اس جنگ میں الجھا کر اس کے عالمی قیادت کی طرف بڑھتے ہوئے قدم روک دیئے جائیں گے۔ پاک بھارت کشیدگی کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان ترقی نہ کر پائے، بلکہ ہندوستان بھی استحکام حاصل نہ کر پائے۔