محسن ِ پاکستان اور محسن کشی
جب اپنوں اور بھارت کی ملی بھگت اور سازش سے1971ء میں پاکستان دو لخت ہوا تو وطن عزیز کو ایٹمی طاقت دے کر ملک کو ناقابل ِ تسخیر بنانے والے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے ملک سے باہر تھے اور تعلیم کے بعد بیرون ملک ایک اعلیٰ عہدے پر فائز پرتعیش زندگی گزار رہے تھے۔ جب پاکستان کا مشرقی حصہ بنگلہ دیش بنا تو ڈاکٹر صاحب کے لئے یہ کسی سانحہ سے کم نہ تھا اوروہ دیار غیر میں اس قومی المیہ پر مسلسل ایک اضطراب میں مبتلا رہے اور کئی روز تک وہ سکون کی نیند نہ سو سکے اور18مئی 1974ء کو جب بھارت نے امریکی اور اسرائیلی مدد سے اپنا پہلا غیر اعلانیہ دھماکہ کیا پکھران ون جسے ”متبسم بدھا“ (Smiling Budha)کا نام دیا گیا تو ان کا اضطراب اور بے چینی اپنے نکتہ عروج پر پہنچ چکی تھی۔ ایک طرف مشرقی حصہ کی علیحدگی اور اس پر مستزاد بھارت کا غیر اعلانیہ ایٹمی دھماکہ،انہوں نے1975ء میں اس وقت کے وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو شہید سے رابطہ کرکے انہیں پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے لئے اپنی خدمات پیش کیں، جسے بھٹو صاحب نے قبول کر لیا اور اس سلسلے میں بھٹو صاحب کی طرف سے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کے بعد وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آگئے اور1976ء میں پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے اپنے خواب کی تکمیل وتعبیر کے لئے صرف تین ہزار روپے کے معمولی ماہوار مشاہرہ پر کام شروع کردیا اور قابل ذکربات یہ ہے کہ معمولی تنخواہ ہونے کے باوجود بھی یہ تنخواہ انہیں چھ ماہ بعد ملی اور ڈاکٹر صاحب کو تنخواہ سے کوئی غرض نہ تھی ا ن کے دِل ودماغ میں ایک ہی دھن سوار تھی اور وہ یہ کہ بھارت کے مقابلہ میں اپنے ملک کو ہر حالت میں جوہری طاقت بنانا ہے
وہ بھارت کے ایٹمی دھماکے کا منہ توڑجواب دینا چاہتے تھے، لیکن یہ کوئی آسان کام بھی نہیں تھا بڑے جان جوکھوں کا کام تھا۔ اس مقصد کے لئے انہیں خاصی تگ ودو اور محنت کرنا پڑی سب سے پہلا اور اہم مسئلہ محفوظ اور موزوں جگہ کا انتخاب اور حصول، ضروری لوازمات اور ایک محنتی، مخلص فعال اور کارآمد ماہرین کی ٹیم درکار تھی۔ ان کا جذبہ صادق تھا اور وہ سود وزیاں سے بے نیاز اور اپنی دھن میں مگن اس کام میں لگے رہے گو کہ اس میں طرح طرح کی مشکلات اور تکالیف آڑے آتی رہیں، مگر انہوں نے انہیں خاطر میں لائے بغیر دن رات اپنا کام جاری رکھا اور اللہ تعالی کے فضل و کرم سے وہ ہر مشکل اوررکاوٹ کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے اپنے عظیم مقصد کے حصول کی طرف گامزن رہے اور وہ ملک جہاں اس وقت سوئی بھی نہیں بنائی جاتی تھی اور چھ سات سال کے مختصر عرصہ میں انہوں نے1984ء میں پاکستان کو جوہری طاقت بنا کر دم لیا، مگر بعض عالمی سیاسی مصلحتوں کے تحت حکومت پاکستان نے باقاعدہ اس کا اعلان نہ کیا،
لیکن جب 11،13مئی1998ء کے دوران بھارت نے پکھران میں اعلانیہ ایٹمی دھماکے کئے تو اس وقت کے ایک بھارتی وزیر لال کشن ایڈوانی نے کہا کہ پاکستانی قوم اب ہمارے سامنے سرجھکا کر چلے کہ اب ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں تو ڈاکٹر خان کا خون کھول اٹھا اور انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف سے کہا کہ اگر ہم نے اب ایٹمی دھماکے نہ کئے تو پھر کبھی نہیں کر سکیں گے اور پھر 28مئی1998ء کو چاغی میں پاکستان نے کامیاب ایٹمی دھماکے کر دئیے اور یوں یہ ایٹمی سفر پایہ تکمیل کو پہنچا۔ آج کئی لوگ ایٹمی دھماکوں کے حوالے سے شیخیاں بگھار رہے ہیں، جنہیں سن کر ہنسی آتی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ایٹمی دھماکوں سے نہ تو کبھی کوئی تعلق رہا اور نہ ہی دور دور تک ان کا کوئی واسطہ تھا۔
یہ پاکستان کی خوش قسمتی تھی کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بیرون ملک ایک ایسے ادارہ میں کام کرنا پڑا جہاں جوہری توانائی کے حصول کی کوششیں اور کام ہورہا تھا، جس میں یورپ کے کئی ملک شامل تھے اور دنیا ان کے اس عمل سے بے خبر اور نا آشناء تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے اربوں ڈالرز کی ٹیکنالوجی بغیر کسی قیمت کے ملک کو تحفے کے طور پردی اور اسے پاکستان کے لئے استعمال کیا۔ ملک کو ایٹمی قوت بنانے کی ذوالفقار علی بھٹو شہید کی شروعات کے علاوہ صدر غلام اسحق خان مرحوم اور جنرل ضیاء الحق مرحوم نے بھی اس مشن کو جاری رکھا،جبکہ دھماکے میاں نواز شریف کے عہد میں ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب کے اس کارنامے پر پوری قوم نے ان کی بے حد پذیرائی کی اور انہیں محسن ِ پاکستان کا اعزاز بخشا۔ علاوہ ازیں اس حوالے سے عالم ِ اسلام میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی اور پاکستان دُنیا کا ساتواں اور عالم اسلام کا پہلا ایٹمی قوت کا حامل ملک بن گیا اور اُنہیں مسلم ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم اور عرب ممالک کے حکمرانوں نے مبارک باد پیش کی اور ان کے اس کارنامے پر بڑی مسرت و انبساط کا اظہار کیا۔ اس کے علاوہ انہیں حکومت پاکستان نے کئی قومی اعزازات سے نوازا۔
انہیں پہلا اعزاز 14اگست1989ء میں ہلال امتیاز، دوسرا 14اگست1996ء میں نشان امتیاز اور تیسرا اعزاز 1999ء میں دوبارہ نشانِ امتیاز عطا کیا گیا اور یوں ڈاکٹر صاحب ملک کی وہ واحد شخصیت ہیں، جن کو ایک سے زیادہ قومی اعزازات دئیے گئے اس کے علاوہ درجنوں یونیورسٹیوں نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں دیں اور کئی قومی، سماجی اور ثقافتی اداروں نے ان کی سونے سے تیار شدہ تاج پوشی کی اور گولڈ میڈل، تمغے اور سینکڑوں اعزازی شیلڈوں سے نواز گیا۔ ایک طرف پاکستانی قوم اور ملت اسلامیہ کی طرف سے ان کی بارآور کوششوں کو سراہا جارہا تھا اور دوسری طرف پاکستان اور اسلام دشمن قوتیں یہ کیسے برداشت کرتیں کہ ایک اسلامی ملک ایٹمی قوت بن جائے اورانہوں نے حسب معمول پاکستان خصوصاً ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف سازشیں شروع کر دیں تاکہ پاکستان ڈاکٹر خان کی صلاحیتوں کو استعمال کرکے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل نہ ہوجائے اس کے لئے انہوں نے پاکستان کے اندر ہی کچھ لوگوں کو ڈالرز کے عوض خرید لیا۔چاہئے تو یہ تھا کہ ہم ڈاکٹر صاحب موصوف کی ماہرانہ خوبیوں کو استعمال کرکے سٹیلائٹ سیارہ خلاء میں چھوڑتے، آٹو موبائل صنعتوں کو جدید خطوط پراستوار کرکے ملکی معیشت کو مستحکم کرتے، پاکستان دشمن قوتوں کویہ باور ہوگیا کہ ڈاکٹر خان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا گیا توپاکستان امریکہ، برطانیہ،
یورپ اورجاپان سے بھی ترقی میں آگے نکل جائے گا اور اسے ہماری ضرورت نہیں رہے گی۔ اس حوالے کا مرکزی کردارکوئی اور نہیں ہمارے ملک کا سابق صدر پرویز مشرف تھا اسے ڈاکٹر صاحب کے خلاف استعمال کیا گیا اور اس نے قوم کے اس ہیرو کو مختلف حربوں سے پریشان کرنا شروع کردیا اور کہا کہ اگر آپ نے ہماری بات نہ مانی توآپ کو امریکہ کے حوالے کر دیا جائے گا اور ڈاکٹر خان جو پہلے ہی ملک کے لئے قربانی دے کر اپنا سب کچھ چھوڑچھاڑ کر پاکستان کو ناقابل تسخیر بنا چکے تھے انہوں نے ایک اور قربانی دی اور 4فروری2004ء کو انہیں دباؤ ڈال کر پہلے سے تیار شدہ ایک بیان ٹیلی ویژن پر پڑھوایا گیا جسے پاکستانی قوم نے مسترد کر دیا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کے جذبہ ئ اخلاص اور حب الوطنی سے پوری طرح آگاہ تھی اور پھر اس خوف سے کہ کہیں قوم اس اقدام کے خلاف نہ اٹھ کھڑی ہو اگلے روز 5فروری2004ء کو پرویز مشرف نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر ایک آزاد شہری ہیں وہ ملک کے اندر جہاں جانا چاہیں آجا سکتے ہیں، مگر انہیں بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا،مگر اس بیان کے برعکس انہیں گھر میں نظر بند کر دیا گیا اور ان کی آزادانہ آمدوروفت پر پابندی عائد کر دی گئی۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنے وکیل علی ظفر کے ذریعے 2009ء میں درخواست دائر کی،جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ مجھے ایک آزاد شہری کے طور پر جینے کا حق دیا جائے،لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان آج تک اس حق سے محروم ہیں،جو ایک آزاد شہری کے حقوق ہوتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب پر آج تک پابندیاں برقرار ہیں نہ انہیں کسی گورنمنٹ کے کالج یا یونیورسٹی کی تقریب میں شرکت کرنے دی جاتی ہے نہ ہی انہیں کسی سرکاری عہدیدار سے ملنے دیا جاتا ہے نہ ہی کسی سرکاری تقریب میں جا نے کی اجازت دی جاتی ہے اور نہ ہی کسی میڈیا کے پروگرام میں شرکت کر سکتے ہیں 85سالہ عمر رسیدہ قومی ہیرو کو آنے جانے کے لئے بھی پہلے سے اجازت لینا پڑتی ہے،جو افسوسناک امر ہے۔ جو قومیں اپنے ہیرو اور محسنوں کی قدر نہیں کرتی وہ کبھی بھی ترقی کی منازل تیزی سے نہیں طے کر سکتی ہیں ہم سب کے لئے یہ ایک لمحہ ئ فکریہ ہے ہماری حکومت وقت سے درخواست ہے کہ وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ایک آزاد شہری کے حقوق دلوائے،اب ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی ہے جہاں ان کو انصاف کی پوری امید ہے۔