کورونا،اشرافیہ،عوامیہ میں تقسیم؟
وزیر اعظم عمران خان نے کہہ دیا ہے کہ ہمیں کورونا کے ساتھ ہی زندہ رہنا ہے۔ کیسز بھی بڑھیں گے اور اموات بھی ہوں گی لیکن اب لاک ڈاؤن نہیں لگائیں گے۔ گویا اب یہ طے ہو گیا ہے کہ جو کچھ کرنا ہے عوام نے کرنا ہے، حکومت نے جو کرنا تھا کر دیا۔ وزیراعظم کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ وہ اب امداد دینے سے بھی خود کو تہی دست محسوس کر رہے ہیں، ان کے خیال میں حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ لوگوں کو امداد دی جاتی رہے۔ بس اب اللہ ہی اللہ ہے، وہ ہمیں کورونا سے محفوظ رکھے تو رکھے، حکومت تو زیادہ سے زیادہ کسی ہسپتال میں ایک بیڈ فراہم کر سکتی ہے، کورونا کا علاج تو دریافت ہوا نہیں، اس لئے ہسپتال سے جو بچ کے واپس آئیں انہیں خوش قسمت سمجھا جائے۔ آج کل مشہور شخصیات کے کورونا پازیٹو ہونے کی خبریں بھی تواتر سے آ رہی ہیں جن کے ساتھ یہ وضاحت بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے خود کو گھر میں آئسولیٹ کر لیا ہے۔ پھر چند دنوں بعد یہ خبر بھی آ جاتی ہے کہ خیر سے وہ صحت یاب ہو گئے ہیں اور ان کا پازیٹو نیگٹیو ہو گیا ہے۔ انہیں دیکھ کر تو لگتا ہے کہ کورونا بس ایک ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ ہے جو خود ہی جان چھوڑ جاتی ہے۔ مگر دوسری طرف عوام ہیں، جن کی خبریں اذیت ناک آتی ہیں جو کسمپرسی کے عالم میں ہسپتالوں کے اندر مرتے ہیں اور ایس او پیز کے تحت انہیں دفنا دیا جاتا ہے۔ کورونا بھی لگتا ہے اشرافیہ اور عوامیہ میں تقسیم ہو گیا ہے۔ اس کے بھی کھانے کے دانت اور دکھانے کے اور ہیں۔
جس تیزی سے کورونا کیسز میں اضافہ ہوا تھا اور جتنی بڑی تعداد میں اموات ہوئیں، اس کے بعد توقع تھی کہ حکومت کچھ سخت اقدامات اٹھائے گی، کچھ سنجیدہ فیصلے کرے گی، سیکرٹری صحت پنجاب کی اس رپورٹ نے تو ایک تہلکہ مچا دیا، جو انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھیجی اور جس میں لکھا گیا کہ لاہور میں تقریباً 6لاکھ ستر ہزار شہریوں کو کورونا وائرس ہو چکا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہر کے مختلف حصوں میں ٹیسٹ کئے گئے اور پازیٹو کیسوں کا جو تناسب سامنے آیا، اسے لاہور کی آبادی سے ضرب تقسیم کیا گیا تو تعداد 6 لاکھ ستر ہزار نکلی، یہ دو ہفتے پہلے کی رپورٹ ہے، اس کے بعد عید کی خریداری کے دنوں میں جو کچھ ہوا اس نے کیسوں کو کس حد تک بڑھایا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اس رپورٹ کو حسبِ معمولی نظر انداز کر کے کھوہ کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے اور سب کھول دو کی پالیسی پر عمل کیا جار ہا ہے۔
یہ تو پنجاب کے ایک شہر کی رپورٹ ہے باقی شہروں میں بھی اگر اسی طرح کے سروے ٹیسٹ کئے جائیں تو صورتِ حال کی اصل سنگینی سامنے آ سکتی ہے جس نے بھی وزیراعظم عمران خان کی کورونا پر تقریر سنی مایوسی کا اظہار کیا۔ ایک طرف انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن سے صورت حال کو کنٹرول کرنے میں مدد ملی اور کیسز تیزی سے نہیں بڑھے۔ وگرنہ ہسپتالوں میں جگہ ہی موجود نہ تھی، دوسری طرف یہ بھی فرمایا کہ وہ اس قسم کا لاک ڈاؤن نہیں چاہتے تھے، جس قسم کا کیا گیا۔ انہوں نے اٹھارویں ترمیم پر ذمہ داری ڈال کر وفاقی حکومت کو لاک ڈاؤن کے فیصلے سے بری الذمہ قرار دیا۔ یہ وہی کنفیوژن ہے جس کا حکومت شروع دن سے شکار چلی آ رہی ہے۔ اس کنفیوژن کی وجہ سے کہیں بھی ویسا لاک ڈاؤن نہیں ہوا، جیسا دیگر ممالک میں دیکھنے کو ملا کہ اس پر مکمل عملدرآمد بھی کرایا گیا۔ جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے کہ کیسز اور اموات کی تعداد خطرے کے نشان سے بھی آگے چلی گئی ہے۔
اب اس وقت زمینی صورت حال یہ ہے کہ کورونا کے خلاف حکومتی حکمتِ عملی اس نکتے پر آ کر رک گئی ہے کہ لوگ خود احتیاط کریں۔ کورونا سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ کیا پاکستان جیسے ملک میں یہ ممکن ہے کہ لوگوں کو اس بات پر قائل کیا جا سکے۔ کیا سب نے دیکھا نہیں کہ جب لاک ڈاؤن کے دنوں میں سختی بھی کی گئی تب بھی عوام نے کورونا کے معاملے کو سنجیدہ نہ لیا اور دکانیں بھی کھولتے رہے اور سڑکوں پر ہجوم بھی کم نہ ہوا۔ اگر لاک ڈاؤن کے دوران ان کی یہ حالت تھی تو اب لاک ڈاؤن اٹھانے کے بعد انہیں کیسے گھروں تک محدود رکھا جا سکے گا۔ میں یہ نہیں کہتا جو کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ حالت یہی رہی تو غریبوں کی لاشیں سڑکوں پر پڑی ہوں گی اور انہیں کسی ہسپتال میں جگہ نہیں ملے گی۔ مگر سوال یہ ہے کہ کورونا کو یوں کھلا چھوڑ دیا گیا اور بے احتیاطی نے اس کے لئے میدان صاف کر دیا تو صورتِ حال کچھ ایسی ہی نہیں ہو جائے گی؟ حکومت نے ساری ذمہ داریاں اپنے گلے سے اتار کر عوام کے گلے میں ڈال دی ہیں کل کلاں وہ یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ لوگ اپنے علاج کا بندوبست بھی خود کریں حکومت کورونا کے مریضوں کو یہ سہولت فراہم نہیں کر سکتی۔
شروع دن سے حکومتی زعماء ہر اگلے دو ہفتے کو خطرناک قرار دے کر گزارا کر رہے ہیں اب جون کے پہلے دو ہفتے خطرناک قرار دیئے گئے ہیں یہاں آ کر عقل حیران و پریشان ہو جاتی ہے کہ جب آپ کو علم ہے کہ جون کے پہلے ہفتے خطرناک ہو سکتے ہیں تو پھر سخت اقدامات کیوں نہیں اٹھاتے کیوں عوام کو کورونا کے رحم و کرم پر چھوڑ کر ایک طرف ہو گئے ہیں بھولے بادشاہ عوام جنہیں اب تک یقین نہیں آیا کہ کورونا بھی ایک موذی وباء ہے، اور جو اسے ٹھٹھہ مخول میں اڑا دیتے ہیں، حکومت ان سے توقع لگائے بیٹھی ہے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گے۔
کیونکہ ہم نے انہیں ایسا کرنے کو کہہ دیا ہے۔ مجھے تو لاہور کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ ایک ذمہ دار محکمے نے انتہائی محنت سے ایک رپورٹ مرتب کی ہے جس میں تمام پہلوؤں کی نشاندہی کر کے حالات کی سنگینی کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ حیرت ہے کہ پنجاب حکومت نے اس رپورٹ کو ردی کاغذ سمجھ کر ٹوکری میں ڈال دیا ہے ویسے بھی پنجاب کے شہروں کا گراف دیکھا جائے تو لاہور ان میں پہلے نمبر پر ہے۔ اگرچہ سرکاری اعداد و شمار اس رپورٹ میں دیئے گئے اعداد و شمار سے کہیں کم ہیں، لیکن یہ بات تو واضح ہے کہ لاہور میں کورونا وائرس نے پنجے گاڑھ لئے ہیں جوں جوں علامات سے بڑھ کر لوگوں کی صورتِ حال سنجیدہ شکل اختیار کرے گی، ہسپتالوں پر دباؤ بڑھتا جائے گا۔ اس رپورٹ میں لاہور کے ان علاقوں کی نشاندہی بھی کر دی گئی ہے جہاں کورونا کیسز سب سے زیادہ ہیں کیا یہ ضروری نہیں کہ ایسے علاقوں کو لاک ڈاؤن کر کے شہر کے دیگر حصوں سے علیحدہ رکھا جائے۔ ابھی تو حالات کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے لیکن اگر خدانخواسطہ پورے لاہور میں ہر دوسرا شخص کورونا سے متاثر ہوا تو کون سنبھالے گا۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ کورونا ہو یا کوئی دوسری وبا اس میں حکومتوں کا کردار کیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک وبائی صورتِ حال میں حکومت عوام کو تنہا چھوڑ دے۔
کل کلاں پھر ڈینگی بخار یا ہیپاٹائٹس کے معاملے میں بھی حکومت ہاتھ کھڑے کر سکتی ہے۔ قوم اس وقت کورونا کے خلاف حالتِ جنگ میں ہے یہ جنگ ہجوم نے نہیں لڑنی بلکہ اس کی منصوبہ بندی حکومت نے کرنی ہے ابھی تو وزیر اعظم اور دیگر حکومتی شخصیات اس بات پر اطمینان کا اظہار کر رہی ہیں کہ کورونا اتنی تیزی سے نہیں پھیلا جتنی تیزی سے اس کے پھیلنے کا خدشہ تھا۔ مگر کیا کورونا اب ختم ہو گیا ہے کہ یہ اظہار اطمینان کیا جا رہا ہے۔ مئی کے مہینے میں کورونا کس تیزی سے پھیلا ہے کیا اعداد شمار اس کے گواہ نہیں اور اب روزانہ جتنی بڑی تعداد میں کورونا کیسز اور اموات سامنے آ رہی ہیں، کیا وہ تشویشناک نہیں، کیا یہ حکمتِ عملی درست ہے کہ سب کچھ کھول دو اور لوگوں کو بھوک سے بچالو جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ سب کچھ کھول دو اور عوام کو کورونا کی نذر کر دو، کیا دنیا میں کورونا کے حوالے سے حکومتوں نے اس طرح پسپائی اختیار کی ہے، جیسے ہمارے حکمران کر رہے ہیں؟ نہیں نہیں کوئی مقابل نہیں ہمارا اس حوالے سے دور دور تک!۔