انڈیا کی آرمی کمانڈرز کانفرنس!
انڈین آرمی اور پاکستان آرمی کی نفری میں دو اور ایک کی نسبت ہے۔ جہاں انڈین آرمی 13لاکھ افراد (آل رینکس) پر مشتمل ہے وہاں پاکستان آرمی کی تعداد کم و بیش 6لاکھ ہے۔ انڈین آرمی کے تنظیمی ڈھانچے میں سات ٹیکٹیکل کمانڈز ہیں جن کے نام اور ہیڈکوارٹرز درج ذیل ہیں:
1۔ سنٹرل کمانڈ: لکھنو (اتر پردیش)
2۔ویسٹرن کمانڈ: چاندی مندر (ہریانہ)
3۔ایسٹرن کمانڈ: کول کتہ (مغربی بنگال)
4۔ساؤتھ ویسٹرن کمانڈ: جے پور (راجستھان)
5۔ ناردرن کمانڈ: اووھم پور (جموں و کشمیر)
6۔سادرن کمانڈ: پُونے (مہاراشٹر)
7۔ٹریننگ کمانڈ: شملہ (ہماچل پردیش)
ایک آرمی میں بالعموم تین کوریں ہوتی ہیں۔ انڈیا کی درج بالا 7کمانڈز میں ایک تو آرمی ٹریننگ کمانڈ ہے جس میں آرمی کے جوانوں اور دیگر عہدیداروں کے لئے ٹریننگ کی سہولیات میسر ہوتی ہیں اور باقی 6کمانڈیں آپریشنل ہیں۔ ان میں تین کمانڈیں بالخصوص فعال شمار ہوتی ہیں جن کے نام ویسٹرن کمانڈ، ساؤتھ ویسٹرن کمانڈ اور ناردرن کمانڈ ہیں۔ نفری کے حساب سے دیکھا جائے تو ناردرن کمانڈ اور ساؤتھ ویسٹرن کمانڈ میں پرسانل کی اکثریت ہے۔ آپریشنل ضروریات اور خطرات کے مدنظر، نصف انڈین آرمی (تقریباً سات آٹھ لاکھ افراد) انڈو پاک بارڈر اور بالخصوص جموں و کشمیر میں صف بند (Deployed) ہے۔ (مقیم اور صف بند میں فرق یہ ہے کہ جہاں مقیم کا مطلب کسی جگہ ٹھہرنا ہے وہاں صف بند ہونے کا مطلب جنگ / لڑائی کے لئے مقرر کردہ پوزیشنوں میں ٹھہرنا ہے)
پاکستان آرمی میں ہر ماہ کے پہلے عشرے میں ’کورکمانڈرز کانفرنس‘ منعقد ہوتی ہے جس میں پاکستان کی تمام کوروں کے کمانڈر شریک ہوتے ہیں۔ آرمی چیف کی سربراہی میں پہلے سے مقرر پروگرام (Agenda) پر شق وار بحث و مباحثہ کیا جاتا ہے اور فیصلے کئے جاتے ہیں۔ اس کورکمانڈر کانفرنس کا ایجنڈا پہلے سے طے ہوتا ہے جس میں ایک ایک شق کے لئے جس کور نے سمری جی ایچ کیو میں بھیجی ہوتی ہے اس کا کمانڈر اپنے پوائنٹ / موضوع کی تفصیل بتاتا اور اس پر فیصلے کی درخواست کرتا ہے۔ بعض اوقات ملکی اور سیکیورٹی معاملات چونکہ تعجیلی (Quick) اور حساس نوعیت کے ہوتے ہیں، اس لئے ان نکات و معاملات پر سب سے پہلے بحث کی جاتی ہے اور فیصلے کئے جاتے ہیں۔ ان فیصلوں کی پابندی پوری آرمی کو کرنا ہوتی ہے۔ اس کانفرنس کا دورانیہ بالعموم ایک روز کا ہوتا ہے لیکن بعض اوقات اگر حالات زیادہ گھمبیرتا کا شکار ہوں تو دو یا تین دن بھی لگ جاتے ہیں۔ پاکستان آرمی کا ترجمان ISPR ہے اس لئے اس کا ڈی جی بھی اس کانفرنس میں شریک ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں کور کمانڈروں کے ساتھ جی ایچ کیو کے پرنسپل سٹاف آفیسرز (PSOs) بھی شامل ہوتے ہیں۔ ڈی جی ISPR اس کانفرنس کے خاتمے پر پبلک کو مختصراً بریف کرتا اور نان آپریشنل معاملات کی ایسی تصریحات بتاتا ہے جس کی حدود محدود اور مقرر ہوتی ہیں۔ یہ کہہ کر بات ختم کر دی جاتی ہے کہ: ”آج کور کمانڈرز کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ملک کی سیکیورٹی اور خطے کی عمومی صورتِ حال اور نیز بین الاقوامی معاملات پر ڈسکشن کی گئی“۔…… اس سیکیورٹی کی صورتِ حال کی کوئی تفصیل نہیں بتائی جاتی کہ یہ معاملات حساس معلومات کے ضمن میں شمار ہوتے ہیں۔
بالکل یہی صورتِ حال انڈیا میں بھی ہے۔ وہاں البتہ اس کا نام ”آرمی کمانڈرز کانفرنس“ ہے، کور کمانڈرز کانفرنس نہیں۔ ایک بات اور بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ انڈین آرمی میں کورکمانڈر اور آرمی کمانڈر کا رینک لیفٹیننٹ جنرل ہی رہتا ہے۔ سینئر لیفٹیننٹ جنرل کو آرمی کمانڈر اور اس سے نسبتاً جونیئر لیفٹیننٹ جنرل کو کورکمانڈر مقرر کیا جاتا ہے۔
انڈین آرمی کا معمول یہ ہے کہ اس کی ’آرمی کمانڈرز کانفرنس‘ سال میں دوبار منعقد کی جاتی ہے۔ آرمی کا ہیڈکوارٹر چونکہ نئی دہلی میں ہے اس لئے یہ کانفرنس بھی دہلی ہی میں منعقد کی جاتی ہے۔ اس کا ایک سیشن اپریل میں دوسرا اکتوبر میں ہوتا ہے۔ اس بار چونکہ مودی نے 25مارچ کو ملک بھر میں لاک ڈاؤن کر دیا تھا اس لئے اپریل میں یہ کانفرنس منعقد نہ کی جا سکی اور اسی لئے اب جون میں کی جا رہی ہے۔ اس کا دورانیہ تین دنوں کا ہوتا ہے۔ انڈین میڈیا کے مطابق امروزہ کانفرنس کافی غیر معمولی نوعیت کی بتائی جا رہی ہے۔ اس میں بالخصوص سیکیورٹی اور آپریشنل و انتظامی معاملات پر ایک طویل بحث مباحثے کی توقع کی جا رہی ہے۔ لائن آف ایکچویل کنٹرول (LAC) اور کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر بحث و مباحثہ سرفہرست رکھا گیا ہے۔
کئی ہفتوں سے LAC پر کشیدگی جاری ہے۔ وادی ء گالوان میں پانی کے گرم چشموں اور جھیل پان گونگ (مشرقی لداخ) میں چینی اور بھارتی ٹروپس میں حال ہی میں جو ہاتھا پائی ہوئی ہے اور ’ڈنڈا سوٹا‘ کھڑکنے کے علاوہ سنگ باری سے کئی بھارتی ٹروپس شدید زخمی ہوئے ہیں اس پر ڈویژنل کمانڈرز لیول پر گفت و شنید اور بحث و مباحثے کے 6دور قبل ازیں ہو چکے ہیں۔ انڈین آرمی کے ڈویژنل کمانڈروں (GOCs) کا کہنا ہے کہ چینی، ہمارے علاقے میں پانچ کلومیٹر تک اندر گھس آئے اور جب ان کو روکنے کی کوشش کی گئی تو خاصا ہنگامہ ہوا اور کئی بھارتی ٹروپس کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ہسپتالوں میں منتقل کرنا پڑا۔ جو قارئین انڈو چائنا سٹینڈ آف پر نظر رکھتے ہیں، انہوں نے دیکھا ہو گا کہ گزشتہ ہفتے دو چنوک ہیلی کاپٹر لداخ ایریا میں محوِ پروازدکھائے گئے تھے۔ ان سے دو کام لئے گئے۔ ایک تولیہ (Leh) میں لینڈ کرنے والے ہیوی ٹرانسپورٹ طیاروں (AN32وغیرہ) سے دولت بیگ اولدی، جھیل پان گونگ اور ایل اے سی کی دوسری چوکیوں پر موجود ٹروپس کو منتقل کیا گیا اور دوسرے واپسی پر انہی ہیلی کاپٹروں میں زخمی انڈین ٹروپس بھی عقب میں قائم طبی مراکز میں لائے گئے۔
آرمی کمانڈرز کانفرنس کے ایجنڈے پر دوسرا اہم پوائنٹ پاک بھارت لائن آف کنٹرول کی وہ صورتِ حال ہے جس پر پاکستان بار بار بھارتی سفیر کو بلا کر احتجاج کرتا رہا ہے اور اپنے طرف کے علاقوں میں بھارتی گولہ باری سے شہید ہونے والے مرد و زن کی تفصیلات بتاتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ ہفتے پاکستان نے جن دو بھارتی جاسوس ڈرونوں کو مار گرایا ہے اس پر پاکستان نے جو احتجاج کیا اور جس کی ساری وڈیوز بین الاقوامی میڈیا بالخصوص رشین ٹی وی (RT) اور چائنا ٹی وی (CGTV) پر آتی رہی ہیں، ان پر بھی اس کانفرنس میں ڈسکشن کی جائے گی۔
آرمی کمانڈرز کانفرنس کے ایجنڈے پر تیسرا موضوع ”لاجسٹکس اور ایمونیشن“ ہے جس کا اردو ترجمہ انصرام اور گولہ بارود کیا جاتا ہے۔ اس وقت انڈین آرمی کی یونٹوں میں، ایمونیشن کا جو سکیل ہے وہ حجم کے لحاظ سے خاصا زیادہ ہے۔ مرورِ ایام سے ایمونیشن کی ہلاکت انگیزی میں اضافہ ہو رہا ہے جس نے اس کے حجم کو کم کرنے کا اشارہ بھی دیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایمونیشن کے ذخائر کے علاقوں کو کم رقبے کا بنایا جائے۔ ان ذخائر (Dumps) کے اردگرد بہت سا علاقہ خالی رکھنا پڑتا ہے اور مزید یہ بھی کہ ان کی نگرانی کے لئے جو افرادی قوت درکار ہوتی ہے وہ بھی زیادہ ہے۔ یہ ذخائر اگر حجم میں کم ہوں گے تو ان کی نگرانی کرنے والے بھی تعداد میں کم درکار ہوں گے۔ اس وقت انڈین آرمی کی صورتِ حال یہ ہے کہ اس کا بیشتر ایمونیشن بیرونی ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے۔ اندرونِ ملک اس کی پروڈکشن پر کم توجہ دی گئی ہے۔ اگر جنگ ہوئی تو انڈیا کو ایمونیشن کی مد میں جو زرمبادلہ خرچ کرنا پڑے گا وہ کورونا وائرس کے ان ایام میں روز بروز مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ ایمونیشن بنانے والی گھریلو انڈسٹری پر آج تک زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ اس کانفرنس میں یہ مسئلہ بھی آرمی فارمیشنوں کا بڑا مسئلہ ہوگا۔ باہر سے درآمد شدہ ایمونیشن کی شیلف لائف کم ہوتی ہے، اس کو جلد جلد یا تو خرچ کرنا پڑتا ہے یا تلف کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ (ایل او سی پر بھارت کی طرف سے جو بے دریغ ایمونیشن پھونکا جا رہا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے)
اس کانفرنس کے ایجنڈے پر چوتھا پوائنٹ ڈی جی ایم ٹی (DGMT) اور ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ملٹری کمانڈ (DGMT) کو ”آرمی ٹریننگ کمانڈ“ (ATC) میں ضم کرنا ہے۔ ان دونوں اداروں کا فنکشن ایک ہے اس لئے ان کو از سر نو ری سٹرکچر کرنے کی ضرورت ہے۔
سطور بالا میں جن مباحث کا ذکر کیا گیا ہے ان میں بعض فوری نوعیت کے ہیں اور بعض (ایمونیشن کی تیاری اور اسے ذخیرہ کرنا اور تربیتی اداروں کا ادغام) فوری نوعیت کی ذیل میں نہیں آتے۔ ان میں سے پہلی دو شقیں (انڈیا چائنا سٹینڈ آف اور ایل او سی کی صورتِ حال) پاکستان کے لئے براہ راست اہمیت کی حامل ہیں۔
اس طرح کے کالم اگرچہ عامتہ الناس کی ”کھپت“ میں نہیں آتے لیکن ملک کی سیکیورٹی کا تعلق تو انہی موضوعات سے ہے۔ اس لئے اگر یہ سطور خشک اور ان کی تفہیم مشکل بھی ہو تو اس طرف کمر کرنے کی ضرورت نہیں۔ کورونا وغیرہ کی کھچڑی اور ملکی سیاسیات کا دلیا کب تک پکاتے رہیں گے؟