کورونا کے غائبانہ وار!
خواتین و حضرات کورونا وائرس ہمارے جسم میں داخل ہو چکا ہے، ہمارے اعصاب پر قابض ہے، ہماری معاشرت اور ثقافت کا حصہ بن گیا ہے اور ہماری معیشت پر بھی چھا گیا ہے۔اِس سے اب بچے، بوڑھے، امیر غریب، ملکی و غیر ملکی، پڑھے لکھے اور اَن پڑھ سبھی خوب واقف ہو چکے ہیں۔ اِسکا قبضہ فیس بک، ٹویٹر، یوٹیوب، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ہو چکا ہے۔ہر طرف اِسکی دھوم اور چرچے ہیں۔ اِس مرض پر دستاویزی اور فیچر فلمیں بھی بن چکی ہیں۔تاہم ہمارے افسانوں، ناولوں اور نظموں کا موضوع کوروناوائرس ہنوز نہیں بنا۔لیکن ایسی کوئی دْوری بھی نہیں، بلکہ جلد ہی آپ اِس پر نظمیں، افسانے اور ڈرامے بھی دیکھیں گے۔
جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کورونا، شکلیں بدل بدل کر ہمارے سامنے آتا ہے اور لہر بن کر ہوا اور فضاء میں لہرا جاتا ہے۔ کورونا کی پہلی لہر، دوسری لہر اور تیسری لہر آئی ہے۔ اِس موقع پر ہمیں ادا کار لہری بھی یاد آتے ہیں۔
یہ وہ واحد مرض ہے جس نے طبی، سماجی، معاشی، ثقافتی زندگی کے ساتھ ساتھ مذہبی فرائض اور معاملات کو بھی متاثر کیا ہے۔پہلے ہم ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ آپ نے کورونا کا ٹیسٹ کروایا ہے؟ پھر بات اْس سے آگے بڑھی اور سب آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ آپ نے کورونا ویکسین کی ڈوز لگوائی ہے؟ کیا عجب کل کلاں کو یہ نکاح نامے میں بھی ایک کالم کی شکل میں شامل ہو جائے کہ " دْلہا دْلہن کو کورونا وائرس کی دونوں ڈوز لگ چکی ہیں "۔ اِس بیماری نے حفاظتی ٹیکوں کی شہرت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اَب لوگ اِس بیماری سے متعلق لطیفے، مزاحیہ واقعات اور چٹکلے بھی ایجاد کرنا شروع ہو گئے ہیں۔وہ جو کسی شاعر نے کہا ہے:
بربادیوں کا سوگ منانا فضول تھا
بربادیوں کا جشن مناتاچلا گیا
اِس سلسلے میں ایک قیامت فیس ماسک نے بھی ڈھائی ہے۔ اَب آپ گھر سے جوتے پہنے بغیر بے شک نکل پڑیں لیکن ماسک نہ پہننے کا رِسک نہیں لے سکتے۔ مختلف سائز، کلر، ڈیزائن کے فیس ماسک نکل آئے ہیں جنہیں خواتین اپنے لباس، جوتوں اور لِپ اسٹک کے شیڈز سے میچ کر کے بھی پہن سکتی ہیں۔
خواتین و حضرات شاید آپ مجھ سے اِتفاق کریں کہ ہماری قوم کو بار بار اور جگہ جگہ تھوکنے کی عادت ہے۔ پان کھانے والے حضرات، نسوار کے شوقین اور سگریٹ نوشی کے عادی ایک عجب مشکل میں پڑ گئے ہیں۔ بعض اوقات بے خیالی میں ماسک پہنے پہنے تھوک نکل جاتی ہے۔ یہ دِلچسپ معاملہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جس طرح کفایت شعار لوگ ایک ٹی بیگ سے دو دو تین تین چائے کے کپ بنا لیتے ہیں، اِسی طرح ہمارے نوجوان بالخصوص موٹر سائیکل چلانے والے، ایک دوسرے کا ماسک آزادانہ اِستعمال کرتے ہیں۔ ایک ماسک کئی دِن چلتا ہے۔بعد ازاں اِسے دھو کر دوبارہ استعمال کر لیا جاتا ہے۔
خواتین و حضرات! بہت کوششیں کی گئیں، قانون سازی ہوئی، اِشتہارات چلے، مضامین اور فیچر ز لکھے گئے اور حکومت نے لوگوں کے ہاتھ پاؤں تک جوڑے کہ کسی طرح شاپر بیگ، پلاسٹک / پولیتھین والے لفافے ہماری روز مرہ زندگی سے نکل جائیں کہ اِنکے بہت سے نقصانات ہیں لیکن ایسا مکمل طور پر نہ ہو پایا۔ اَب اِس پر یہ ستم کہ ہمیں اَب جگہ جگہ کوڑے کے ساتھ اِستعمال شدہ فیس ماسک بکھرے نظر آئیں گے۔ تیز ہوا اور آندھی کی صورت میں یہ ہمارے گھروں میں ازخود اْڑے چلے آئیں گے۔ پارٹیوں اور دعوتوں میں کھانے کے ساتھ ٹِشو پیپرز کا اِستعمال اَب لازمی ہو گیا ہے۔ اِسی طرح اَب ایک ڈِبہ ٹِشو پیپرز کا ہو گا اور دوسرا فیس ماسک کا۔ سکول کی سطح پر تو یہ بچوں کے یونیفارم کا حصہ بن چکا ہے۔
کورونا وائرس کے براہ ِ راست نقصانات کے علاوہ چند غائبانہ مسائل بھی ہیں۔ ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو اِس وائرس کو مانتے ہی نہیں۔
وہ کہتے ہیں، کدھر ہے کورونا، ہمیں دِکھاؤ۔ لیکن شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ کچھ زخم غائبانہ بھی لگتے ہیں۔ وہ جو ناصر کاظمی نے کہا ہے۔
وہ زخم یاد ہیں اب تک جو غائبانہ لگے
اِسی طرح اِس مرض کے کچھ غائبانہ نقصانات ہیں۔ مثلا گزشتہ دِنوں اخبارات میں ایک خبر چھپی جس نے اِس سارے کالم کے تانے بانے جوڑے ہیں۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے جہاں تعلیمی اِدارے بند ہیں وہیں مزارات اور درباروں کو بھی بند کرنے یا لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ جانے پر پابندی لگ گئی ہے جس سے محکمہ اوقاف پنجاب کو 60 کروڑ روپے کا مالی خسارہ ہوا ہے۔ لفظ " خسارہ" پر بھی توجہ فرمائیے گا گویا یہ ایک منافع بخش کاروبار تھا جو اب خسارے میں جا رہا ہے۔ تاہم محکمہ اوقاف نے خبر میں مزید وضاحت کی ہے کہ ملازمین اور افسران کی تنخواہوں کی ادائیگی اور دیگر اِنتظامی اخراجات پورے کرنے میں دْشواری ہو رہی ہے۔
خواتین وحضرات! محکمہ اوقاف کو تو اپنا خسارہ ہی نظر آیا ہے لیکن جن لوگوں کو اِنفرادی طور پر غائبانہ نقصان ہو رہا ہے اور اْنکی آمدنی، منافع اور " اْگرائی" رْک گئی ہے اْنکا کیا بنے گا۔اِن مزارات پر بے شمار پیشہ ور فقیر اور ملنگ مانگتے نظر آتے تھے جو روزانہ کے " دیہاڑی دار" تھے، اْنکے نقصان کا کیا بنے گا۔ اکثر لوگ اِن مزارات پر کھانا کھانے (لنگر) اور بعد ازاں دربار کے صحن میں پیر پسار کر سونے کے عادی بھی تھے، وہ بھی خسارے کا شکار ہو گئے ہیں۔ اِنہی درباروں پر ڈھول کی تھاپ پر دھمال ڈالنے والے بھی بے روزگارہو گئے ہیں۔ یہاں پر جرائم پیشہ بھی دیہاڑی لگا لیا کرتے تھے، نشہ کرنے والے اور نشہ آور اشیاء چوری چھپے فروخت کرنے والے بھی اپنی آمدنی سے محروم ہو گئے ہیں۔ کچی پکی دیگیں پکانے والے اور فروخت کرنے والے بھی کورونا سے مالی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ جوتیاں پکڑنے والے اور جوتیاں چرانے والے بھی خسارے کا شکار ہوئے ہیں۔
کورونا نے اِن اچھی بھلی معاشرتی، مذہبی، ثقافتی اور معاشی سرگرمیوں پر ضرب کاری لگائی ہے۔۔۔۔۔اور لوگوں کے کاروبار کو نقصان پہنچایا ہے۔
وہ جو بیچتے تھے دوائے دِل وہ دْکان اپنی بڑھا گئے
ایک غائبانہ نقصان اْدھار پیسے دینے والوں کا بھی ہوا ہے۔ہمارے معاشرے میں اْدھار رقم لینا دینا عام ہے۔ اَب آپکا مقروض فیس ماسک پہنے آپ کے پاس سے دیدہ دلیری سے گزر جاتا ہے۔ کیوں کہ ماسک کے ساتھ موٹر سائیکل والوں کے لئے ہلمٹ بھی لازمی ہے، لہذا آپ کسی کو پہچان نہیں سکتے کہ کون اپنا ہے، کون بیگانہ۔
خواتین و حضرات! اَب اِن نئے حالات میں نئے محاورے اور ضرب المثل بھی تخلیق ہوں گے۔ یعنی " نصیب اپنا اپنا " اب " ماسک اپنا اپنا " بن جائے گا۔" تیرے بِنا بھی کیا جینا"، کو اب " ماسک کے بغیر بھی کیا جینا"، کہا جائے گا۔" دِل میرا دھڑکن تیری"، بن جائے گا۔ " ماسک میرا منہ تیرا "، " پلٹ تیرا دھیان کدھر ہے"، بن جائے گا، " پلٹ تیرا ماسک کدھر ہے " وغیرہ۔ میر تقی میر اگر آج کے دور میں ہوتے تو اپنا مشہور شعر یوں کہتے۔
کورونا کے مریض اپنے چاہنے والوں سے یوں شکایت کریں گے۔۔۔۔۔
میں نظر ملا کے تڑپ گیا
وہ نظر بچا کے نکل گئے
اَب تو دِل سے یہی دْعا نکلتی ہے، بقول احمد ندیم قاسمی
خدا کرے کہ میری ارض ِ پاک پر اْترے
وہ فصل ِ گْل جسے اندیشہ زوال نہ ہو