پروٹوکول مریض اور سرکاری ہسپتال
میں نے اپنا چھتیس برس کا نوجوان بیٹا یاسر صدیق اظہر کھو دیا ہے یہ المیہ گزشتہ بدھ کو مجھے جھیلنا پڑا اور تمام عمر یہی ہو گا،لیکن یہ کہانی ارباب اختیار اور ہمارے اداروں کے کردار کے لئے کوئی نئی نہیں ہے کہ آدمی حیرت و غم کی تصویر بن جائے،لیکن جس کی بقیہ عمر کے ساتھ یہ سانحہ لپٹ گیا ہے وہ شاید حیرت اور غم کے اندھیروں سے کبھی باہر نہ آ سکے گا، 11مئی صبح نو بجے میری بہو جو میری بھتیجی ہے، مجھے فون پر بتاتی ہے تایا ابو یاسر کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی ہے،اتفاقاً میرے ایک دوست گھر آئے ہوئے تھے،جنہیں میں نے ایک ڈاکٹر سے وقت طے کرنے کے بعد جناح ہسپتال لے جانا تھا۔میں نے ان سے درخواست کی یاسر کو بھی لیتے چلتے ہیں،سو ہم نے صحافی کالونی سے یاسر کو گاڑی میں بٹھایا اور جناح ہسپتال پہنچ گئے،مشکل سے گاڑی پارک کی اور ایمرجنسی کی طرف چلے، اچانک یاسر زمین پر گر گئے، بھاری بھر کم تھے، میں نے سٹریچر کے لئے آواز لگائی تو جواب ملا سٹریچر خود ڈھونڈ لاؤ، یہاں تین دن سے ہڑتال چل رہی ہے،میں دِل کا مریض اپنے دوست کو بیٹے کے پاس چھوڑ کر سٹریچر کی تلاش میں ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں بھاگتا رہا، ایک ملازمہ کو میری حالت دیکھ کر ترس آیا اور اس نے ایک وارڈ سے سٹریچر دے دیا، سٹریچر لے کر میں باہرآیا تو ہسپتال کے ملازمین نے بیٹے کو اٹھانے سے انکار کر دیا، دربدر کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے مریضوں کے لواحقین نے ہماری مدد کی اور میں اپنے بیٹے کو سٹریچر پر ڈال کر ایمرجنسی میں لے گیا وہاں ایک بلند قامت نوجوان ڈاکٹر نے مریض کو دیکھتے ہی مجھے ایسا جملہ کہا کہ میں دِل پکڑ کر رہ گیا۔میں نے ڈاکٹر سے کہا بیٹا میں اس کا باپ ہوں، مجھے کم از کم ڈھارس تو دو،ڈاکٹر صاحب فرمانے لگے ہم مریض کے لواحقین کو ہر برے لمحے کے لئے تیار رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔دِل گرفتہ میں نے سی پی این ای کے صدر کاظم خان کو فون کیا۔چند منٹ کے بعد کاظم خان نے مجھے ایم ایس سے ملنے کی ہدایت کی۔ایم ایس کے کمرے میں کوئی میٹنگ چل رہی تھی،میں نے ان کے سیکرٹری کو بتایا کہ سیکرٹری صحت کے توسط سے مجھے ملنا ہے۔
اس نے مجھے آدھ گھنٹہ باہر بٹھایا،پھر میں اس کی اجازت کے بغیر دروازہ کھول کر ایم ایس کے پاس گیا وہاں آدھ درجن کے قریب لیڈی ڈاکٹرز موجود تھیں، کوئی میٹنگ نہیں تھی،البتہ گتے کے گلاسوں میں آڑو کا جوس پیا جا رہا تھا۔میں نے اپنا نام بتایا،ایم ایس صاحب نے کہا آپ کے بارے میں فون آیا تھا، بتائیں کیا مسئلہ ہے۔عرض کیا میرا بیٹا زندگی اور موت کے مرحلے میں ہے ایمرجنسی میں ہے انہوں نے ایک صاحب کو میرے ساتھ کر دیا جنہوں نے موجود ڈاکٹروں سے سفارش کر دی اور واپس چلے گئے۔اس دوران مریض مسلسل بے ہوشی کے عالم میں لیٹا رہا،چند گھنٹے میں اور میرا بڑا بیٹا بے یارو مددگار اسے دیکھتے رہے۔میں بار بار ایم ایس کے کمرے میں جاتا رہا اور وہ مسلسل مجھے کہتے رہے آپ کا مریض پروٹوکول والا مریض ہے فکر نہ کریں اسے سی ٹی سکین کا کہا گیا، اس کے لئے پہلے پرچی بنوائی پھر وقت ملا اور سکین کیا گیا۔ سٹی سکین کی حالت یہ تھی کہ ڈاکٹر طے ہی نہیں کر پا رہے تھے کہ ہوا کیا ہے، پتہ چلا سکین کا رزلٹ ہی ٹھیک نہیں تھا چند گھنٹوں بعد اسے چوتھے فلور پر منتقل کر دیا گیا اور اس کے سرہانے ایک مانیٹر لگا دیا گیا، جو دو گھنٹے چلنے کے بعد بند ہو گیا اور اگلے روز تک نہ چلا۔ رات کچھ دیر کے لئے میرے بیٹے نے آنکھیں کھولیں،لیکن بولا نہیں۔ ہاتھ اٹھا کر مجھے اشارہ کیا۔مجھے نہیں معلوم وہ اشارہ کیا تھا۔اس تمام وقت کے دوران اسے طبی امداد نہیں دی گئی۔
اگلے روز ایک پروفیسر ڈاکٹر امتیاز وارڈ میں وزٹ کے لئے آئے تو انہوں نے مریض کو دیکھا اور متعلقہ عملہ سے دریافت کیا کہ آپ لوگ اب تک کیا کرتے رہے ہیں، کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔انہوں نے چارٹ پر غذائی نالی اور مسلسل بلڈ پریشر دیکھنے کے علاوہ مریض کو فوری طور پر آئی سی یو میں منتقل کرنے کا کہا،میں پھر سے ایم ایس اور ڈی ایم ایس کے دفتروں کے چکر لگانے لگا۔ ڈی ایم ایس نے کہا ہسپتال کے کسی آئی سی یو میں بیڈ خالی نہیں ہے،لہٰذا آپ میرے کمرے میں مسلسل بیٹھے رہیں جب کسی بھی آئی سی یو کمرے میں بستر خالی ہو گا آپ کو دے دیا جائے گا۔انہوں نے اپنی والدہ کے سالانہ ختم کے لئے کیٹرنگ ٹھیکیدار بلائے ہوئے تھے،اس کے بعد ان سے کھانوں کے بارے میں گفتگو چلتی رہی، کمرے میں موجود لیڈی ڈاکٹرز بھی اپنی رائے دیتی رہیں، دو گھنٹے مسلسل اس گفتگو کو سننے کے بعد میں ڈی ایم ایس کے کمرے سے نم ناک آنکھوں کے ساتھ باہر نکل کر وارڈ میں آ گیا۔ میں نے دیکھا کہ میرے بچے کو نہ ہی غذائی نالی لگائی گئی تھی اور نہ ہی بلڈ پریشر کے لئے دوا دی گئی تھی،اس کا بلڈ پریشر بلند تھا،ایک نوجوان خاتون لیڈی ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کے پاس بلڈ پریشر کی دوا ہی نہیں ہے، میں نے اپنے ایک بیٹے کو بھگایا کہ وہ متعلقہ انجکشن لے آئے۔اس دوران دوسرے ہسپتالوں سے رجوع کرنا مقصود تھا۔ میں اور میرا بیٹا عمران مختلف ہسپتالوں کے چکر لگاتے رہے اور سب نے فائل دیکھ کر کہا کہ جناح ہسپتال والوں سے کہیں کہ وہ توجہ دیں۔واپس ہسپتال پہنچے تو دیکھا کہ مریض کو بلڈ پریشر کا انجکشن ابھی تک نہیں لگایا گیا تھا اور نہ ہی خوراک کی نالی لگائی گئی تھی۔
اس سارے عرصہ میں ایک روز قبل ڈاکٹر کی ہدایت کے برعکس میرے بیٹے کو آئی سی یو میں بیڈ نہ مل سکا۔وہ بار بار سانس اور بلڈ پریشر کی تکلیف میں مبتلا رہا،میں نے وارڈ میں موجود ڈاکٹروں سے گزارش کی تو ہر ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا، کیا سارے مریض میں ہی دیکھوں گا؟ جب میری حالت دیکھ کر ایک نوجوان ڈاکٹر میرے ساتھ بستر تک آیا تو وہاں موجود ایک نوجوان لیڈی ڈاکٹر نے کہا یہ مریض میڈیکل2والوں کا ہے ان میں سے کسی کو بلاؤ وہی دیکھیں گے، میں ایک بار پھر ایم ایس کے کمرے میں گیا،ایم ایس صاحب بار بار یہی کہتے رہے،آپ کی بڑی سفارش ہے فکر نہ کریں، مجبوراً میں نے ایک مرتبہ سی پی این ای کے صدر کاظم خان سے بات کی۔انہوں نے ایک دفعہ پھر سیکرٹری صحت سے رابطہ کیا،جنہوں نے بتایا کہ ایم ایس تو پوری توجہ کی بات کر رہا ہے۔جبکہ مریض کو توجہ تو کیا وہ دوا بھی نہیں دی جا رہی تھی جس کا ڈاکٹر نے اس کی فائل پر لکھا تھا۔ میں نے اس ہسپتال میں یہ منظر بھی دیکھا کہ ہڑتال کے دوران ایک مریض جس کے ہاتھ میں زخمی بچہ تھا اس نے ڈاکٹر سے علاج اور رحم کی اپیل ذرا اونچے لفظوں میں کی تو ڈاکٹر نے گارڈ کو بلا کر اسے مغلظات سناتے ہوئے ہسپتال سے باہر نکلوا دیا۔ایم ایس اور ڈی ایم ایس کا کمرہ رنگا رنگی کا منظر ہے۔میں نے ایسی صورت حال میو ہسپتال، سروسز،گنگا رام سمت کسی سرکاری ہسپتال میں نہیں دیکھی،جوس پر جوس پیئے جا رہے ہیں اور مریض دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔سیکرٹری صحت کی سفارش پرردعمل یہ تھا کہ اگلے روز ایم ایس نے مجھے کہا کہ زیادہ سفارش مریض کے خلاف جاتی ہے۔ ایک روز قبل وہ میرے بیٹے کو پروٹوکول مریض بتا رہا تھا، جس کے نتیجہ میں دو روز میں میرا بیٹا ہر قسم کے علاج سے محروم رہ کر دنیا سے چلا گیا۔یہ سطریں لکھتے ہوئے مجھے ایک ہفتہ کا وقت لگا ہے کہ ہر دو سطروں کے بعد میرے سامنے جناح ہسپتال آن کھڑا ہوتا ہے۔