چھوٹے دریا اور ندی نالے اکثر گلیشیرز سے جنم لیتے ہیں اور کبھی وحشی بن کر ایسا طوفان برپا کرتے ہیں کہ انسان رو اٹھتا ہے

 چھوٹے دریا اور ندی نالے اکثر گلیشیرز سے جنم لیتے ہیں اور کبھی وحشی بن کر ...
 چھوٹے دریا اور ندی نالے اکثر گلیشیرز سے جنم لیتے ہیں اور کبھی وحشی بن کر ایسا طوفان برپا کرتے ہیں کہ انسان رو اٹھتا ہے

  

 مصنف:شہزاد احمد حمید
 قسط:34
 سندھو کہانی جاری رکھے ہے؛”لیہہ میری شمال مغربی گزرگاہ پر واقع ہے۔ شیوک دریا بھی میرے متوازی بہتا ڈیڑھ سو میل کا فاصلہ طے کرکے مجھ میں گرتا ہے۔ ملبیک سے روانہ ہو کر مجھے اولڈنگ پہنچنا تھا۔اپنے دیس، پاکستان، یہاں سے ایک سو پچاس میل کا سفر طے کر کے۔ قراقرم کے مغرب میں لداخ کا ڈھلوانی پہاڑی سلسلہ سندھو کے دائیں کنارے کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔شیوک، شگر کے علاوہ چھوٹے دریا اور ندی نالے اپنی اپنی وادیوں میں مقامی لوگوں کے لئے بقا ء کا سامان مہیا کرنے کے علاوہ کبھی کبھی انہیں خطرات سے بھی دو چار کرتے ہیں۔ان میں سے اکثر گلیشیرز سے جنم لیتے ہیں اور کبھی وحشی بن کر ایسا طوفان برپا کرتے ہیں کہ انسان رو اٹھتا ہے۔ گو یہاں کی اکثر وادیوں میں اب اسلام غلبہ پا چکا ہے۔ دین اسلام ایک مطلق العنان ہستی کی مکمل فرمانبرداری کا سبق دیتا ہے لیکن یہاں کے رہنے والے اب بھی خدا کے ساتھ ساتھ بدروحوں، چڑیلوں اور پریوں پر بھی یقین رکھتے ہیں۔دریاؤں، ہواؤں اور پہاڑوں پر حکومت کرنے والی طاقت ور اور متلون مزاج روحوں کو خوش کرنے کے لئے خفیہ عبادت گاہوں میں چڑھاوے بھی چڑھاتے ہیں۔“
تیار ہوا۔ کشمیری چائے پی۔ سامان جیپ میں رکھا اور میں اور ڈرائیور نواز ہنورمن کو چل نکلے ہیں۔ ایک بار پھر سے ہمارا سفر دریا اور پہاڑوں کے گرد شروع ہونے کو ہے۔نواز ایک کشمیری گیت گنگنا رہا ہے۔ جس کا مطلب ہے؛
”دوست!  ہم جلد ایک دوسرے سے جدا ہونے والے ہیں۔ تمھیں کشمیرکے جنت نظیر نظارے یاد رہیں گے جبکہ آپ مجھے یاد رہو گے۔“
 شائدنواز نہیں جانتا میں بھی اسے کبھی نہیں بھولوں گا۔چار گھنٹے کا یہ کٹھن سفر ہمیں اونچے چٹیل پہاڑوں،اُن سے پھوٹتے چشموں، سبز کھیتوں،گرد اڑاتے ریوڑوں، گہرائی میں بہتے سنگ کھبب کے شور، نواز کی باتوں، گزرے راستے کی یادوں، قدرتی نظاروں کے لشکاروں، اونچے نیچے، ٹیڑھے میٹرھے، تنگ اوردشوارراستے کے سنگ طے کرنا ہے۔ نواز کہنے لگا؛”جناب! ہم انشااللہ دوپہر تک ہنورمن پہنچ جائیں گے اور شام تک آپ اولڈنگ۔“
سورج پہاڑوں کی اوٹ سے بلند ہو نے لگا ہے۔ پہاڑوں پر پڑی برف مہتابی کرنوں کو خوش آمدید کہہ رہی ہے۔ ملبیک میں زندگی پھر رواں دواں ہونے لگی ہے۔ مجھے یوں لگا جیسے میرے دوست سندھو نے مجھے آواز دی ہو؛”گاڑی دھیان اور آرام سے چلانا۔ راستہ مشکل ہے کچھ موڑ تو بہت تنگ ہیں۔ تم شام تک اولڈنگ پہنچ جا ؤ گے۔ میں بھی تمھارے ساتھ ہوں۔ تمھیں ساتھ لے کر ہی پاکستان میں داخل ہوں گا، فکر نہ کرنا۔“ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ تو جواب ملا؛”دوستوں میں شکریہ نہیں ہوتا۔ بس دوستی ہوتی ہے۔ آئندہ اس لفظ سے گریز کرنا۔ ہاں تم نے ایک بات مجھے اب تک نہیں بتائی۔“ میں نے مسکرا کر جواب دیا؛”میں نے تو تم سے کچھ چھپایا ہی نہیں۔“ سندھو کہنے لگا؛ ”تم نے نین کے بارے نہیں بتایا کہ کیسی ہے؟ خوبصورت اورمن موہنی ہے کیا؟ او میرے دوست بتاتا ہوں تم نے پوچھا ہی اب ہے؛”سنو!وہ چاند کی چاندنی ہے، پھولوں کی خوشبو ہے، ہرنی کی طرح چلتی ہے، اس کی مسکراہٹ موتیوں کی سی ہے، اس کی آنکھیں جھیل کی سی گہری ہیں، وہ گل بدن ہے۔وہ مہہ جبین ہے۔ تم دیکھو گے تو دیکھتے ہی رہ جاہو گے۔“ لمحوں کی خاموشی کے بعد سندھو کہنے لگا؛”واہ! حسن اور خوبصورتی کا ایسا ملاپ کم کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ تم نے نین سے ملنے کا میرا اشتیاق کئی گنا بڑھا دیا ہے۔“ 
نواز پوچھنے لگا؛”جناب!آپ کس سے باتیں کر رہے ہیں۔“ میں ہنس دیا اور بولا؛”نواز سندھو میرا دوست ہے۔ ہم آپس میں باتیں کر تے ہیں۔ یہ بات تمھاری سمجھ میں نہیں آئے گی۔“ وہ حیران سا ہو کر خاموش ہو ااور جیپ کو دوسرے سے تیسرے گئیر میں ڈال چکا ہے۔ ایک تنگ موڑ مڑ کر ہمارے اور سندھو کے بیچ کئی سو فٹ کا فاصلہ ہوگیا ہے۔ ملبیک پہاڑوں میں چھپ کر نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے۔میں نے نوازسے پوچھا؛ ”نواز! تمھارے ہاں سرد موسم تو بہت شدید ہوتا ہو گا۔ سردیوں میں کیسے رہتے ہو؛“اس نے نظریں سڑک پر جمائے جواب دیا؛”صاحب!سردیوں میں کاروبار بند ہو جاتا ہے۔ ہر طرف برف کا راج ہوتا ہے۔عورتیں ان دنوں پٹو اورمرد اون اور دھاگہ تیار کرتے ہیں۔ رات کو داستان گو قصے کہانیاں سناتے ہیں۔اس وقت ہم گھروں میں جلتی انگیٹھی کے گرد زیادہ وقت گزارتے ہیں اور اس میں جلتی آگ کو بجھنے نہیں دیتے کہ یہ جسم کی حرارت برقرار رکھنے میں ہماری بڑی مدد گار ہوتی ہے۔ آپ نے ہمارے ہر گھر کی چھت سے باہر کو نکلی چمنی تو ضرور دیکھی ہوگی یہ اسی انگیٹھی کی ہے جو ہم سردیوں میں سلگھاتے ہیں۔ جاڑے میں یہاں زندگی مرجھا جاتی ہے اور ہر شے سکڑ جاتی ہے۔ سیاح بھی بہت کم آتے ہیں۔ جاڑے کے پھرنے سے ہمارے دن بھی پھر تے ہیں۔ زندگی معمول پہ آنے لگتی ہے۔بازار کھل جاتے ہیں۔ جسم میں نئی توانائی آ جاتی ہے، نئی مشقت کے لئے۔‘‘(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -