کسی بڑے شہر میں کوئی بڑی تنظیم عام لوگوں کی نظر سے اوجھل رہ سکتی ہے، کسی شخص کو اندازہ نہیں تھا کہ ایک رات ہارلم میں کیا ہونے والا ہے

مصنف: میلکم ایکس(آپ بیتی)
ترجمہ:عمران الحق چوہان
قسط:102
شادی کے ایک سال بعد قوم کی تعداد بڑھانے کے لیے شبانہ روز محنت نے مجھے تھکا دیا۔ بوسٹن کے معبد میں بطور مہمان معلم میں نے ہمیشہ کی طرح آخرمیں پوچھا ”آپ میں سے کون کون عزت مآب ایلیا محمد کی پیروی کرنا چاہتا ہے؟“ میری حیرانی کی انتہاء نہ رہی جب میں نے کھڑے ہونے والے لوگوں میں اپنی بہن ایلا کو دیکھا۔ ہمارا کہنا ہے کہ مشکل سے قائل ہونے والے لوگ زیادہ اچھے مسلمان ثابت ہوتے ہیں۔ ایلاء کو قائل ہونے میں 5 سال لگے۔
جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ کسی بڑے شہر میں کوئی بڑی تنظیم جب تک کوئی اہم واقعہ نہ ہو جائے عام لوگوں کی نظر سے اوجھل رہ سکتی ہے۔ ”قوم اسلام“ میں کسی شخص کو اندازہ نہیں تھا کہ ایک رات ہارلم میں کیا ہونے والا ہے۔
دو سفید فام پولیس والوں نے ایک لڑائی پر قابو پانے کے لیے راہ گیروں کو ”چلتے بنو“ کا حکم دیا۔ ان تماشائیوں میں بھائی جانسن ہنٹن اور معبد نمبر7 سے وابستہ ایک دیگر بھائی بھی تھے۔ انہوں نے سفید فام پولیس والوں کی حسب منشا موقع سے بھاگنے سے انکار کر دیا۔ برادر ہنٹن پر ڈنڈوں (Nightsitcks) سے حملہ کیا گیا جس سے اس کی کھوپڑی چٹخ گئی اور ا سے ایک پولیس کار میں ڈال کر قریبی تھانے لے گئے۔ دوسرے بھائی نے ہمارے ریسٹورنٹ میں فون کر دیا اور چند ٹیلی فونز کے بعد آدھ گھنٹے کے اندر اندر پچاس کے قریب معبد نمبر7 کے ”ثمر اسلام“ کے اراکین تھانے کے باہر صف بندی کر چکے تھے۔ دیگر نیگروز محض تجسس کی وجہ سے دوڑتے ہوئے آئے اور ان کے پیچھے اکٹھے ہو گئے۔ میں نے اندر جا کر معبد نمبر 7 کے وزیر کے طور پر اپنے بھائی سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی پہلے تو پولیس والوں نے اس کی موجودگی ہی سے انکار کر دیا لیکن پھر اس کی موجودگی تسلیم کرتے ہوئے ملاقات کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ میں نے ان پر واضح کیا کہ ملاقات اور طبی دیکھ بھال کی تسلی کے بغیر ہم واپس نہیں جائیں گے۔ وہ سب لوگوں کے اجتماع سے خوفزدہ اور گھبرائے ہوئے تھے۔ برادر ہنٹن کو دیکھ کر میں بمشکل اپنے غصے پر قابو رکھ سکا۔ وہ نیم بے ہوش تھا۔ اس کا سر، چہرہ اور کندھے خون میں تر تھے۔ میری آرزو تھی کہ پولیس کی درندگی کا ایسا واقعہ مجھے دوبارہ دیکھنے کو نہ ملے۔ میں نے انچارج لیفٹیننٹ سے کہا کہ ”اس آدمی کو ہسپتال میں ہونا چاہیے۔“ انہوں نے ایک ایمبولینس منگوا کر برادر ھنٹن کو ہارلم کے ہسپتال بھجوا دیا اور ہم تمام مسلمان پندرہ بلاک تک پیدل چل کر ہسپتال پہنچے۔ نیگروز نے چونکہ پہلی بار ایسا واقعہ دیکھا تھا لہٰذا وہ دکانوں، ریستورانوں اور شراب خانوں سے نکل کر مجمع میں شامل ہو کر اس کا حجم بڑھاتے گئے۔
مسلمانوں کی سربراہی میں ہارلم ہسپتال پہنچنے والا مجمع مشتعل تھا کیونکہ ہارلم کے سیاہ فام پولیس کی درندگی سے تنگ آ چکے تھے اور انہوں نے اس سے قبل کسی سیاہ فام کو ہماری طرح سخت موقف اپناتے نہیں دیکھا تھا۔ پولیس کا ایک افسر اعلیٰ میرے پاس آیا اور کہا کہ ”ان لوگوں کو یہاں سے ہٹاؤ۔“ میں نے جواب دیا کہ ”میرے بھائی بغیر کسی کو نقصان پہنچائے، انتہائی نظم و ضبط کے ساتھ پر امن طور پر کھڑے ہیں“ پھر بے حد شائستگی سے میں نے کہا کہ ”اصل مسئلہ آپ کے اپنے دیگر ساتھی ہیں۔“
جب ڈاکٹر نے ہمیں یقین دلا دیا کہ برادر ہنٹن کو صحیح طبی امداد مل رہی ہے تو میں نے باقی ساتھیوں کو واپس جانے کے لیے کہا۔ دوسرے نیگروز کا مزاج بہت خراب تھا مگر ہمارے جانے کے بعد وہ بھی منتشر ہو گئے۔ بعد میں ہمیں علم ہوا کہ برادر ہنٹن کے سر میں اسٹیل کی پلیٹ ڈالنا پڑی تھی (آپریشن کے بعد ”قوم اسلام“ کی مدد سے برادر ہنٹن نے مقدمہ دائر کیا اور جیوری نے اسے 70000 ڈالر بطور ہرجانہ دلوائے جو پولیس تشدد کے خلاف نیویارک سٹی کی تاریخ میں سب سے بڑی رقم تھی)
نیویارک سٹی کے لاکھوں قارئین کے لیے یہ ”ہارلم میں نسلی ہنگامہ“ کی کہانی سے زیادہ کوئی خبر نہ تھی۔ ہمارے معاملہ کو زیادہ اچھالا تو نہیں گیا لیکن پولیس کے شعبہ نے ”قوم اسلام“ کی فائلوں کا مطالعہ کیا اور ہمیں ا یک مختلف نگاہ سے دیکھنے لگے۔ سب سے اہم بات یہ کہ ہارلم جو دنیا میں سیاہ فاموں کی گنجان ترین کچی آبادی ہے کے ایک اخبار ”ایمسٹرڈیم نیوز“ نے ساری کہانی کو شہ سرخی کے ساتھ شائع کیا اور پہلی بار سیاہ فام مرد، عورتیں اور بچے گلیوں بازاروں میں ”مسلمانوں“ پر گفتگو کرتے پائے گئے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔