اچھا خاصا پڑھا لکھاسپر وائزر یا فورمین نوکری سے آنے کے بعد شام کودہی بڑے، گول گپے یا بن کباب وغیرہ کا ٹھیلا لگا لیتا تھا

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:125
دن کے اوقات میں گھروں میں بیٹھی ہوئی خواتین چھوٹا موٹا دستکاری کا کام کرتیں، بچوں کے کپڑے سیتی تھیں، کاغذ کے لفافے اور گھریلو استعمال کی چیزیں تیار کرتی رہتی تھیں۔اس کے علاوہ کھانے پینے کی اشیا ء بھی بنا کر رکھتی تھیں جن میں دہی بڑے، گول گپے اور سموسے کباب وغیرہ ہوتے تھے۔ شام ڈھلے جیسے ہی ان کے مرد اپنے روزمرہ کے کام سے واپس آتے تو وہ یہ اشیاء بازار میں بیچنے کے لیے لے جاتے۔ کچھ لوگ ٹھیلے یا پتھارے بھی لگا کر بیٹھ جاتے یا سگریٹ پان بیڑی کے چھوٹے چھوٹے خوانچے بنا لیتے۔ بڑی عمر کے بچے ایسے ہی خوانچے گلے میں لٹکائے ایک سے دوسری جگہ پھرتے رہتے تھے اور واپسی تک کچھ پیسے کما لاتے تھے۔
کسی کو کام سے عار نہیں تھا اور نہ ہی کوئی ایسے معمولی کام کاج پر کوئی شرم ساری محسوس کرتا تھا، کیونکہ سارے ہی یکساں طور پر ایک ہی قسم کے حالات سے گزر رہے تھے۔ اکثر دیکھنے میں آتا کہ ایک اچھا خاصا پڑھا لکھاسپر وائزر یا فورمین طرح کا کوئی فرد نوکری سے آنے کے بعد شام کودہی بڑے، گول گپے یا بن کباب وغیرہ کا ٹھیلا لگا لیتا تھا۔ کچھ حلیم اور بریانی جیسے پکوان گھر سے بنوا کر اٹھا لاتے اور وہیں فٹ پاتھ پر ہی اپنا ننھا سا ہوٹل کھول کر بیٹھ جاتے تھے۔
سب کو علم تھا کہ جہاں وہ اپنے گھر بار چھوڑ کر آئے تھے وہاں اب واپس جانا ناممکن تھا، لہٰذا اب جو بھی کرنا تھا یہیں کرنا تھا۔ اس لیے گھر کے ہرفرد نے اس نئی سرزمیں پر آباد ہونے کے لیے جان لڑا دی۔ ان کی محنت رنگ لائی اور جھگیوں میں رہنے کے باوجود آہستہ آہستہ ان کی مالی حالت بہتر ہوتی چلی گئی۔چنانچہ کچھ لوگوں نے اپنے لیے بہتر آشیانے بنا لیے۔
اِس دوران حکومت کوسرکاری دفاتر یا نئی رہائشی کالونیوں کی لیے جگہ کی ضرورت پڑی تو ان کی نظر یں ان میدانوں پر پڑی جہاں بے گھر مہاجرین اپنے عارضی آشیانے بنائے بیٹھے تھے۔ پہلے تو ان کو عام زبان میں ایک پیغام دیا گیا کہ وہ اب گورنمنٹ کی مخصوص کردہ سکیموں میں اپنے لیے باقاعدہ جگہ حاصل کرکے اپنی متبادل رہائش کا بندو بست کریں اور یہ جھگیاں اور کچے مکان فوری طور پر خالی کردیں۔ کچھ تو چلے گئے،پھر بھی بڑی تعداد میں لوگ وہاں ہی مقیم رہے۔ دوسرا یہ بھی ایک مسئلہ تھا کہ حکومت جو رہائشی پلاٹ ان کو فراہم کر رہی تھی وہ شہر سے کافی باہر ملیر، لانڈھی، کورنگی اور ڈرگ روڈ وغیرہ کی طرف تھے جہاں سے روزمرہ کی بنیاد پر آمد و رفت کوئی اتنی آسان بھی نہ تھی اور اس پر کافی اخراجات بھی اٹھتے تھے۔ اس لیے لوگ تذبذب کا شکار تھے۔
پھر کچھ یوں ہونے لگا کہ اکثر کسی جھگی میں کوئی پُراسرار سی آگ بھڑکتی اور چند لمحوں میں ساری بستی میں پھیل کر اس کو خاکستر کر دیتی تھی۔ یا بسا اوقات اتنی شدید آندھی، طوفان اور بارش آتی کہ سب کچھ ہی طوفان میں اڑ جاتا یا بارش کے پانی میں بہہ جاتا تھا۔ یہ لوگ بمشکل اپنی جان ہی بچا پاتے اور ایک بار پھر عرش سے فرش پر آجاتے۔ زندگی پھر نئے سرے سے شروع ہوتی۔ یہ حکومت کے لیے بہترین موقع ہوتا تھا کہ وہ مالی امداد کے نام پر کچھ رقم دے کر ان کو متبادل جگہ پر بھیج دے۔ یوں خالی کی گئی جگہ پر حکومت اپنے منصوبے کے مطابق کام شروع کردیتی تھی۔ علاوہ ازیں اس دوران جن لوگوں کو سرکاری نوکریاں ملتی گئیں، ان میں سے کچھ کو سرکاری کوارٹر بھی مل گئے۔ وہ نہ صرف خود اس میں منتقل ہوئے بلکہ اپنے عزیز و اقارب کو بھی عارضی طور پر ساتھ رہنے کے لیے بلا لیا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)