جب زندگی آئی تو اس کی گود میں آرزو بھی آئی، آرزو نے آنکھ کھولی تو ایک دوسری دنیا تھی، اب اگر آرزو وہیں ختم ہو جاتی تو زندگی کا بچہ ہی مر جاتا اور زندگی بے ثمر ہوتی

 جب زندگی آئی تو اس کی گود میں آرزو بھی آئی، آرزو نے آنکھ کھولی تو ایک دوسری ...
 جب زندگی آئی تو اس کی گود میں آرزو بھی آئی، آرزو نے آنکھ کھولی تو ایک دوسری دنیا تھی، اب اگر آرزو وہیں ختم ہو جاتی تو زندگی کا بچہ ہی مر جاتا اور زندگی بے ثمر ہوتی

  

 مصنف: جمیل اطہر قاضی
 قسط:36
یہ اس وقت کی بات ہے جو پیدائش ہوئی۔ اس وقت تک دنیا میں کوئی آرزوئیں ہی نہ تھیں۔ بس ایک درخت کا پھل کھاتے تھے اور سو جاتے تھے۔ یا پھر ننگے پھرتے تھے۔ جب زندگی آئی تو اس کی گود میں آرزو بھی آئی۔ آرزو نے آنکھ کھولی تو ایک دوسری دنیا تھی۔ اب اگر آرزو وہیں ختم ہو جاتی تو زندگی کا بچہ ہی مر جاتا اور زندگی بے ثمر ہوتی اورآپ اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ اقبال کی آرزو کیا ہے۔ 
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
نہیں۔حضرت ابراہیمؑ نے سورج کو طلوع ہوتے دیکھ کر کہا۔ یہی خدا ہوگا مگر وہ ڈوب گیا۔ تو کہا کہ خدا ڈوبنے والا تو نہیں ہوسکتا۔ اس طرح اقبال کی آرزو مٹی میں نہیں مل سکتی۔ مٹی کے مضمون پر زیادہ سے زیادہ وہ خاکم بدہن تک چلا جاتا ہے۔ وہ بھی تکلفاً کیونکہ خدا سے شکوہ کررہا ہے اور ڈرتا رہتا ہے کہ فرشتے کہیں خدا کو نہ اکسائیں۔ یہ فرشتے اب تک خداؤں کو اکساتے رہے ہیں۔ ہر چند کہ خداوند دانا و بینا ہوتے ہیں۔ فرشتوں کی ماننا پڑتی ہے کیوں کہ وہ ہر وقت قرب میں رہتے ہیں اور کہتے  رہتے ہیں لا الہ الاھو (تمہارے سوا کوئی خدا نہیں) اسی سے لفظ مقرب نکلا ہے مگر آپ کو یاد ہوگا کہ ابلیس بھی ایک فرشتہ تھا۔ الغرض اقبال نے جب کہا کہ  
شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو
تو اس طرح سے کہا جیسے ہم خط کے آخر میں لکھتے ہیں کہ آپ کا تابعدار ورنہ ارادہ ہرگز تابعداری کا نہیں ہوتا۔ اور اقبال کا جسم مٹی کا ہو تو ہوگا وہ ہمیشہ آسمانوں میں طیاروں کی طرح پھرتا رہا اور یہی اس کی آرزو کی تعبیر ہے۔
ہر لحظہ طور نئی برقِ تجلی
اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے
یعنی ہمیشہ کوئی نئی چیز پیدا کرنے کی کوشش میں رہوں اور خدا کرے یہ آرزو کبھی ختم ہی نہ ہوتا کہ جو چیز ارادہ ہے اس سے بہتر وجود میں لاؤں۔ بعض لوگوں نے کہا کہ اور تو ہم کوئی نئی چیز پیدا نہیں کرسکتے، بچے ہی پیدا کریں گے۔ مگر ایسا کرنے میں یقین نہیں ہوتا کہ نیا بچہ پچھلے بچے سے زیادہ حسین یا زیادہ ذہین ہوگا اس لئے نئی شادی کرلیتے ہیں تاکہ گھر میں جوانی قائم رہے۔ اقبال نے شادی کی طرف توجہ نہیں کی۔ وہ اب فیملی کمیشن نے کرلی ہے مگر اقبال کا آرزو مند انسان
آفریند کائنات دیگرے
قلب را بخشد حیات دیگرے
نئی دنیا پیدا کرتا ہے جو غالباً روس اور امریکہ کی طرف اشارہ ہے۔ جو آج کل آسمانوں پر پٹاخہ بازی کررہے ہیں۔ پر آپ کے لئے پٹاخہ بازی کی کیا ضرورت ہے آپ کے لئے تو نعرۂ تکبیر ہی کافی ہے۔ اس کا بھی اقبال نے سوچ رکھا ہے۔
گفتند لب بہ بند و ز اسرار ما مگو
گفتم کہ خیر! نعرۂ تکبیرم آرزو است
انہوں نے کہا کہ فطرت کے راز جو ہم نے تمہیں بتائے ہیں کسی کو نہ بتاؤ۔ میں نے جواب دیا کہ میں تو صرف نعرۂ تکبیر ہی لگاؤں گا یہ تو وہ جانتے تھے کہ جب آپ سے کہا جائے کہ نعرہ تکبیر تو آپ فوراً اللھم حل کہہ دیں گے مگر اب تو کوئی راز کی بات رہی نہیں۔ اخباروں میں بھی کبھی روس کے متعلق نعرہ تکبیر، کبھی امریکہ کے متعلق نعرہ تکبیر مگر میں ٹھیک ٹھیک نہیں کہہ سکتا کہ اقبال نے یہ نعرہ تکبیر والا شعر کس موقع پر کہا تھا۔ غالباً میں اس وقت موجود نہیں تھا اور جگہ تو وہ چاہتا ہے کہ فطرت کے راز نہ صرف افشا کئے جائیں بلکہ ان پر اضافہ کیا جائے۔
بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت
جو اس سے نہ ہو سکا وہ تو کر
مگرجو کچھ کرنا ہو وہ اس طرح کرو کہ اس میں جوش نظر آئے۔ اس میں تڑپ پیدا ہو۔ جیسے آپ کو کسی چیز کی تلاش ہو چیز تو معلوم ہو مگر گم ہوگئی ہو۔ اس کام کے لئے وہ جسم کو چھوڑ کر روح کومامور کرتا ہے کیونکہ جسم روح کے زور سے چلتا ہے اور جسم زوال پذیر ہے۔
روح کو لیکن کسی گم گشتہ کی ہے ہوس
ورنہ اس صحرا میں کیوں نالاں ہے یہ مثلِ جرس
حُسن کے اس عام جلوے میں بھی یہ بے تاب ہے
زندگی اس کی مثالِ ماہی بے آب ہے
( جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -