گہری کھائیوں کی یہ سرزمین جسم میں خوف کی لہر دوڑادیتی ہے,مسافر خود سے ہی سوال کرنے لگتا ہے ”میں یہاں کیوں آیا تھا؟“

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:35
چڑھائی چڑھتی جیپ کا انجن شور مچا رہا ہے، راستہ سنسان، تنگ، ایک طرف گہری کھائی اور دوسری طرف اونچے برف پوش پہاڑ۔ کہیں کہیں سنسان اور بیابان میدان۔خوفزدہ مسافر، سفر جاری رہتا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرا کوئی چارہ بھی نہیں۔ نظر کبھی سڑک سے نیچے جاتی ہے تو گہری کھائیوں کی یہ سرزمین جسم میں خوف کی لہر دوڑادیتی ہے۔مسافر خود سے ہی سوال کرنے لگتا ہے ”میں یہاں کیوں آیا تھا؟“ یہ راستہ انتہائی بلند، تنگ اور دشوار ترین دروں سے گزرتا ہے۔ گرمی کے موسم میں دن میں بھی درجہ حرارت کم ہی رہتا ہے اور درمیانے درجے کے گرم کپڑے پہن کر ہی سفر کرنا پڑتا ہے۔ مجھے جب بھی دوست کی دوستی کا خیال آیا تو خوف کی شدت کچھ کم محسوس ہوئی ہے۔۔ سامنے ایک بڑا چشمہ آبشار کی طرح گرتا دکھائی دیا ہے۔ نواز نے میرے کہے بغیر ہی جیپ روک دی ہے۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہا ہے کہ مجھے اپنے دوست کی آواز سنائی دی؛”یہ ”شے“ کی آبشار ہے۔ اس کا پانی شریں، یخ اور شفاف ہے۔ تم پیو تو یوں لگے گا جیسے جسم میں برف اتر آئی ہے، تازہ دم ہو جاؤ گے اور کھایا پیا سب ہضم۔“ میرا دوست سندھوکبھی غلط نہیں کہتا ہے۔ ایسا ہی ہوا ہے۔
داستان گو بتانے لگا ”ہم کارگل تحصیل سے گزر رہے ہیں۔کارگل قصبہ سے چار کلو میٹر ڈاؤن سٹریم ”دریائے شنگو“ مجھ میں ملتا ہے۔ شنگو دریا پاکستان سے پھوٹ کر ہندوستان میں داخل ہو تا ہے اور کارگل سے کچھ ڈاؤن سٹریم مجھ میں مل جاتا ہے۔ یہ دریا اپنے ساتھ گلیشیرز کا ٹھنڈا اور شفاف پانی لاتا ہے۔چٹیل پہاڑوں کے بیچ سے بہتے پتھروں سے ٹکراتے ہم دونوں دریاؤں کا پانی ایک دوسرے میں ضم ہونے سے پہلے خوب اچھلتا ہے جیسے مجھ میں ملنے کی خوشی منا رہا ہو۔تم غور کرو اس سے آگے میرے بہنے کی رفتار کافی تیز اور میرا شور بھی بڑھ جاتا ہے۔ کارگل کے پیچھے ”بٹالک“ سیکٹر ہے اور اس کی بغل میں ”گیاری“(پاکستان) کا علاقہ جہاں ایک بڑے برفانی تودے کی زد میں آ کر پاکستانی فوج کے ایک سو چوالیس (144) جوان جام شہادت نوش کر گئے تھے (ایک ہی بار یہ شہادت پانے والوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔)انہی پہاڑوں کے پیچھے ہے۔ یہاں سے کچھ فاصلہ پر ہی ”ہنورمن“ گاؤں ہے جس کے ساتھ سے بہتا میں 71 کی جنگ سے پہلے پاکستان میں داخل ہوتا تھا(یہ گاؤں 71 کی جنگ سے پہلے پاکستان کا حصہ تھا اب بھارت میں ہے۔) میں اب ”وانکو“ نامی گاؤں سے بہتا ”پاک سرزمین“ میں داخل ہوتا ہوں۔ ”وانکو برج“ میرے دونوں کناروں کو ملاتا ہے۔“
یہاں سے روانہ ہوئے توپھر وہی پہاڑ ہیں جن پر گھاس کا تنکا بھی نہیں اگتا۔ وہی بل کھاتی پتلی سڑک،ٹھنڈی تازہ ہوا، نواز اور میں۔ یہ ویرانی بھی اچھی لگ رہی ہے کہ ہر طرف قدرت کے جلوے بکھرے پڑے ہیں۔ہر جلوے کانیا انداز، نیا رنگ ہے۔ میں قدرت کی ان فیاضیوں سے لطف اندوز ہوتا اولڈنگ کو رواں دواں ہوں۔ اک نیا جذبہ میرا ہمسفر ہے کہ اپنے وطن لوٹ رہا ہوں۔ دنیا کے کسی ملک میں بھی چلے جائیں اپنے وطن جیسا نہ کوئی ملک ہے اور نہ لوگ۔ وطن کی مٹی میں جو بات ہے کہیں اور نہیں۔ ابھی بھی3 گھنٹے کی مسافت باقی ہے۔
”یہ وہی راستہ ہے جہاں زمانہ قدیم میں بھی قافلے گزرتے تھے۔وہ گھوڑوں، خچروں اور یاک کا زمانہ تھا آج جیپس اور دوسری گاڑیاں ہیں۔“ سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے۔ جاڑے کی دھوپ اچھی لگ رہی ہے۔ راستے میں سڑک کنارے ایک بڑا درخت آیا جس کی شاخوں پر ہزاروں کی تعداد میں رنگ برنگے کپڑوں کی کترنیں اور دھاگے لٹک رہے ہیں۔ نواز نے جیپ روکی اور درخت کی ٹہنی سے سبز رنگ کا دھاگہ باندھ کر خاموش کھڑا رہا۔ واپس آیا تو میں نے پوچھا؛”نواز! یہ کیاہے۔“ کہنے لگا؛”جناب! یہاں سے3 کلو میٹر آگے تک کا راستہ انتہائی دشوار، خطرناک چڑھائیوں تنگ موڑ وں پر مشتمل ”موت کا راستہ“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔دھاگہ باندھنے سے مراد ہے کہ”اللہ خریت سے یہ راستہ طے کروا دے۔ واپسی پر بھی ایسا ہی کروں گا۔“(ڈرائیوروں کے بھی اپنے عقیدے ہیں)۔ وہ بتانے لگا؛”روایت کے مطابق سید علی ہمدانی ؒ نے کشمیر سے گلگت سکردو جاتے ہوئے اس درخت کے نیچے قیام کیا تھا۔ انہی کی دعا اور اللہ کی رحمت ہے کہ مسافر اس مشکل راستے سے بخریت گزر جاتے ہیں۔یہ سب اللہ کی اپنے نیک اور محبوب بندوں پر خاص کرم نوازی ہے۔ اس سفر خیر کی قیمت حضرت علی ہمدانیؒ کی دعا،دھاگہ یا کپڑے کی کترنیں اور ہمارا یقین ہے۔“ میں بھی اپنے سفر کا آغاز ہمیشہ اپنی مرحومہ ماں کی نصیحت کے مطابق”آیت الکرسی“ پڑھ کر شروع کرتاہوں اور میرا ایمان ہے کہ اللہ کے کرم، آیت الکرسی کی برکت اور ماں کی دعا سے میرا سفر اچھا اور محفوظ ہو گا انشا اللہ۔ آج تک میرے تمام سفر مشکلات کے باوجود اللہ کے کرم اور ماں کی دعا سے بخیریت تمام ہوئے ہیں۔ اپنے اپنے یقین اور ایمان کی بات ہے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)