برابری اور انصاف پر مبنی مستقبل کی جس دنیا کی تعمیر سیاہ فام کرنا چاہتا ہے اس کی واحد امید اسلام ہے

  برابری اور انصاف پر مبنی مستقبل کی جس دنیا کی تعمیر سیاہ فام کرنا چاہتا ہے ...
  برابری اور انصاف پر مبنی مستقبل کی جس دنیا کی تعمیر سیاہ فام کرنا چاہتا ہے اس کی واحد امید اسلام ہے

  

مصنف: میلکم ایکس(آپ بیتی)
ترجمہ:عمران الحق چوہان 
قسط:103
سیاہ فام مسلمان
انیس سو انسٹھ کے موسم بہار میں برادر جانسن ہنٹن کے واقعہ سے چند ماہ قبل ایک نیگرو صحافی لوئس لومیکس نے ایک صبح مجھ سے پوچھا کہ کیا ”قوم اسلام“ متنازع موضوعات پر مشتمل مائک ویلس شو کے لیے دستاویزی فلم بنانے کے واسطے تعاون کرے گی؟ میں نے کہا کہ ایسے مسائل کے لیے ایلیا محمد کی رائے لینا ضروری ہے اور لومیکس ان کی رائے کے لیے شکاگو پرواز کر گیا۔ کچھ سوال پوچھنے اور چند باتوں سے اجتناب کا مشورہ دینے کے بعد ایلیا محمد نے اجازت دے دی۔ 
کیمرہ مینوں نے نیویارک، شکاگو اور واشنگٹن ڈی سی میں ہماری مساجد کے آس پاس ”قوم اسلام“ کے مناظر فلم بند کرنا شروع کر دیئے۔ ایلیا ء محمد اور مجھ سمیت چند وزراء کی آوازیں ریکارڈ کی گئیں جن میں ہمیں سیاہ فام سامعین کو سفید فام شیطان اور دھلے دماغوں کے سیاہ فاموں کے متعلق حقائق بیان کرتے دکھایا گیا تھا۔ 
انہی دنوں بوسٹن یونیورسٹی میں ایک سیاہ فام عالم سی ایرک لنکن نے ڈاکٹریٹ کے تھیسس کے لیے ”قوم اسلام“ کا انتخاب کیا۔ لنکن کی دلچسپی اس موضوع سے اس وقت پیدا ہوئی جب کلارک کالج اٹلانٹا جورجیا میں مذہب کے ایک طالبعلم نے اپناٹرم پیپر داخل کیا جس کے تعارفی حصہ کا میں یہاں حوالہ دینا پسند کروں گا۔ یہ اٹلانٹا کے ان بہت سارے سیاہ فام طالب علموں میں سے ایک کے خیالات ہیں جو ہمارے مقامی معبد نمبر 15 میں اکثر آتے جاتے تھے۔ 
”عیسائی مذہب امریکی نیگروز میں موجود برابری کی آرزو اور عزت کی خواہش سے ہم آہنگی نہیں رکھتا۔ اس نے بجائے مدد کرنے کے رکاوٹیں پیدا کیں۔ جہاں اسے اخلاقی طور پر مستقیم ہونا چاہیے تھا وہاں یہ غیر مستقیم ثابت ہوا۔ اس نے اپنے پیرکاروں کو رنگ کی بنیاد پر تقسیم کر دیا حالانکہ حضرت عیسیٰؑ کے ماتحت اس نے اپنا مقصد عالمی بھائی چارہ قرار دیا تھا۔ عیسائی محبت دراصل سفید فام کی اپنی ذات اور اپنی نسل کے ساتھ محبت ہے۔ برابری اور انصاف پر مبنی مستقبل کی جس دنیا کی تعمیر سیاہ فام کرنا چاہتا ہے اس کی واحد امید اسلام ہے۔“ 
ابتدائی تحقیق نے پروفیسر لنکن پر موضوع کی و سعت عیاں کر دی اور وہ بہت سی گرانٹس کے حصول اور پبلشرز کی حوصلہ افزائی کے بعد اپنے تھیسس کو کتاب کی شکل دینے پر رضامند ہو گئے۔ 
ہماری نسبتاً چھوٹی سی ”قوم“ پر ٹیلی ویژن شو ہونا اور ایک کتاب کا چھپنا ہمارے لیے بڑی خبریں تھیں۔ ہر مسلمان یہ توقع کرنے لگا کہ اب سفید فام کے مضبوط ذرائع ابلاغ کے ذریعہ امریکہ بھر میں موجود ہمارے دھلے دماغوں والے بہن بھائی بلکہ شیاطین بھی ایلیا محمد کی تعلیمات دیکھ، سن اور پڑھ سکیں گے جو اپنی اثر پذیری کے اعتبار سے دو دھاری تلوار سے مشابہہ ہیں۔ 
ہم نے اپنے طور پر اشاعتی طاقت سے استفادے کی چھوٹی موٹی کوششیں بھی کیں۔ میں ایمسٹرڈیم نیوز کے ایڈیٹر جیمز ھک سے مل چکا تھا اور اس کا کہنا تھا کہ معاشرے سے اٹھنے والے ہر آواز قابل توجہ ہوتی ہے لہٰذا جلد ہی میں ایمسٹرڈیم نیوز میں ہفتہ وار کالم لکھنے لگا۔ پھر ایلیا محمد میری جگہ کالم لکھنے لگے اور میں ایک اور سیاہ فام اخبار”لاس اینجلس ہیرالڈڈ سپیچ“ سے وابستہ ہوگیا۔ لیکن میں اپنا ایک ایسا اخبار نکالنا چاہتا تھا جو ”قوم اسلام“ کی خبروں سے بھرا ہو۔
1957ء میں ایلیا محمد نے مجھے لاس اینجلس میں ایک معبد قائم کرنے بھیجا۔ یہ کام مکمل کرنے کے بعد میں وقتاً فوقتاً لاس اینجلس ہیرالڈڈ سپیچ کے دفتر آنے جانے لگا۔ اس سے مجھے اخبار کے دیگر طباعتی مراحل دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ مجھ پر شروع سے اللہ کا کرم رہا ہے کہ اگر میں ایک بار کوئی کام ہوتا دیکھ لوں تو دوبارہ اسے خود سہولت کے ساتھ کرلیتا ہوں۔ کیونکہ جرائم کی دنیا میں شاید زندہ رہنے کا یہ بنیادی اصول تھا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -