ایک وقت آیا سارے ہی مہاجر کیمپوں اور جھگیوں سے نکل کر اپنے اپنے گھروں میں آباد ہو گئے، رہن سہن بہت سادہ تھا اس لیے محدود آمدنی میں ہر کسی نے گزارہ کرنا سیکھ لیا 

ایک وقت آیا سارے ہی مہاجر کیمپوں اور جھگیوں سے نکل کر اپنے اپنے گھروں میں ...
 ایک وقت آیا سارے ہی مہاجر کیمپوں اور جھگیوں سے نکل کر اپنے اپنے گھروں میں آباد ہو گئے، رہن سہن بہت سادہ تھا اس لیے محدود آمدنی میں ہر کسی نے گزارہ کرنا سیکھ لیا 

  

 مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:126
 نجی اداروں میں کام کرنے والے یا کاروباری لوگ جنہوں نے تھوڑی بہت رقم پس انداز کر لی تھی، وہ مناسب جگہ پر اپنا پکا مکان بنا لیتے۔ پھر سرکاری طور پر بھی کئی مقامات پرچھوٹے چھوٹے گھر بنائے گئے اور انتہائی کم قسطوں یعنی کوئی دس پندرہ روپے ماہوار پر ضرورت مندوں کو الاٹ کر دیئے گئے۔
ویسے تو اکا دکا مہاجروں کی ہندوستان سے آمد کا سلسلہ سن 60کے بعد تک بھی چلتا رہا لیکن سن52 تک تو ہجرت کا عمل مسلسل جاری رہا۔ جو لوگ یہاں اچھی طرح سیٹ ہو گئے تھے ان کی کوششں تھی کہ اپنے پیچھے ہندوستان میں رہ جانے والے رشتے داروں کو بھی یہاں بلوالیں۔ یہی وجہ تھی کہ ہندوستان سے بڑی دیر تک لوگ کراچی آتے رہے۔ رفتہ رفتہ ان کی آبادی اتنی بڑھ گئی کہ وہ مقامی قومیتوں کی مجموعی تعداد سے بھی بڑھ گئے اور اکثریت میں آگئے۔
پھر ایک وقت آیا کہ تقریباً سارے ہی مہاجر، کسی نہ کسی طرح کیمپوں اور جھگیوں سے نکل کر اپنے اپنے گھروں میں آباد ہو گئے۔پڑھے لکھے مہاجروں نے سکول اور کالج وغیرہ میں ترویج تعلیم کا کام سنبھال لیا۔ کچھ نے دفتروں میں ملازمتیں حاصل کرلیں اور جو یہ نہ کرسکے انہوں نے دلجمعی سے کاروبار کیا اوریوں زندگی کا سلسلہ پُرسکون انداز میں چل نکلا۔ ویسے بھی رہن سہن بہت سادہ سا ہوتا تھا اس لیے اپنی محدود آمدنی میں ہر کسی نے گزارہ کرنا سیکھ لیا تھا۔ لوگوں میں ابھی اتنا لالچ اور دکھاوا بھی نہیں آیا تھا اور نہ ہی وہ اپنے معیار زندگی کا دوسروں سے تقابل کرتے تھے، اس لیے سب روکھی سوکھی کھا کر اللہ کی شکر گزاری کرتے تھے۔اپنے رب سے شکوے شکایت کا رواج بھی نہیں تھا۔ تنہائی میں شاید وہ اپنے رب کے حضور دل کھول کر بیٹھ جاتے ہوں، ان کی آنکھوں میں آنسو بھی آجاتے ہوں گے لیکن بہت کم ایسا ہوتا تھا کہ کوئی اپنی غربت یا پس ماندگی کا ذکر دوسروں کے سامنے کریں۔ وہ گھر سے ہمیشہ پرانے مگر اجلے کپڑوں میں اور مسکراتے ہو ئے ہی نکلتے تھے۔یاسیت پھیلانے کا فائدہ بھی کچھ نہ تھا کیوں کہ سب ایک ہی جیسے حالات سے گزر رہے تھے۔ وہ سوائے ایک دوسرے کو تسلیاں دینے کے اور کر بھی کیا سکتے تھے!
اردو بولنے والے مہاجر پاکستان کی مقامی قومیتوں کی نسبت کچھ زیادہ تعلیم یافتہ تھے اور ان کو اپنی تہذیب و تمدن، انداز بیان اور رہن سہن پر بڑا ناز بھی تھا۔ تاہم ان میں بھی کچھ لوگ شمالی ہندوستان کے دیہاتوں سے آئے ہوئے تھے اور اپنے ساتھ بھانت بھانت کے رسم و رواج اور بولیاں لائے تھے جن میں سے بعض تو اتنی کرخت ہوتی تھیں کہ لگتا تھا کہ ان مکالموں کی ادائیگی کے فوراً بعد شدید قسم کا جھگڑا شروع ہو جائے گا۔پورب سے آنے والے بڑے دھیمے لہجے میں لہک لہک کر خوب صورت پوربی زبان میں گفتگو کرتے جس کو سمجھنے کے لیے کان دھرنے پڑتے تھے۔ دلی، لکھنو اور حیدرآباد دکن کے لوگ بہتر شین قاف کے ساتھ اور انتہائی درستگی سے الفاظ کا چناؤ اور ان کی ادائیگی کیا کرتے تھے۔ ایسا کرتے وقت وہ اکثر تفاخرکا اظہار کرتے اور غلط زبان بولنے پر دوسروں کی تصحیح بھی کردیتے تھے۔ حیدرآباد کے قرب و جوار سے آئے ہوئے لوگ دکنی زبان بولتے تھے جو اردو ہی کی بگڑی ہوئی قسم تھی،تاہم ان کا لہجہ اور کچھ الفاظ قطعی طور پر مختلف ہوتے تھے اور مشکل سے ہی سمجھ آتے تھے۔ اسی طرح پنجاب کے ساتھ لگنے والے علاقوں، پٹیالہ وغیرہ کی بھی زبان اپنی قسم کی یکتاہی تھی جو اردو اور پنجابی کا ملغوبہ تھی۔راجستھان کی طرف سے آئے ہوئے لوگ بڑی کرخت اردو بولتے تھے۔اسے رانگھڑی زبان بھی کہتے تھے۔(جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -