خدا سے حسن نے اک روز یہ سوال کیا۔۔۔جہاں میں کیوں نہ مجھے تو نے لازوال کیا

 خدا سے حسن نے اک روز یہ سوال کیا۔۔۔جہاں میں کیوں نہ مجھے تو نے لازوال کیا
 خدا سے حسن نے اک روز یہ سوال کیا۔۔۔جہاں میں کیوں نہ مجھے تو نے لازوال کیا

  

 مصنف: جمیل اطہر قاضی
 قسط:37
گم گشتہ شے…… سمجھنے میں کچھ مشکل جملہ تھا۔ بعد میں مفسرین نے کہا کہ یہ مراد ہے کسی ٹیکسٹائل فیکٹری سے کسی آموں کے باغ سے، کسی گائے بھینس سے جو متروکہ جائیداد کی تعریف میں آئے۔ میں بھی ایک گائے گورداس پور چھوڑ آیا تھا۔ بعد میں وہاں کے ناظر نے لکھا کہ وہ طغیانی میں بہہ گئی ہے۔ یہاں سے ایک ہندو دوست نے جاتے ہوئے اپنی گائے دی کہ کسی قصائی کے ہاتھ لگ جائے گی اس سے تو آپ بہتر ہیں۔ بعد میں جب میں نے سنا کہ گورداسپور والی گائے بہ گئی ہے کہ بہ کر ادھرہی نکل آئی ہوگی۔ یہ وہی گائے ہوگی۔ زیادہ غسل کرنے سے صرف رنگ بدل گیا ہے اور رفتہ رفتہ یقین ہوگیا کہ یہ وہی گائے ہے کیونکہ دودھ بھی ویسا ہی سفید تھا۔ اس لئے ٹیکسٹائل مل نہ سہی، گائے سہی۔ ورنہ میں اچھا خاصا مہاجر تھا۔ یہ لوگ تو13سال کے مہاجر ہیں۔ میں 1300 سال سے نکلا ہوں اور دادا پر دادا کے وقتوں سے تو باقاعدہ مہاجر ہوں اور محض اسلامی جذبے کے تحت اپنا سنگلاخ ملک چھوڑ کر کبھی کبھی اس طرف چھاپا مارتا۔ تاکہ تیروسنان کا فن ان لوگوں کو سکھایا جائے پھر یہاں کے دوستوں نے کہا کہ یہیں رہ جاؤ۔ہر سال چھاپہ مارنے سے کیا فائدہ۔ ایک ہی چھاپہ مارو۔
مگر میں مطلب سے دور نکل رہا ہوں۔ اِن شاء اَللہ پھر کوئی موقع ہجرت نکل آئے گا۔ اس وقت تو میں نے صاحب صدر سے یہ اجازت لی ہے کہ صرف آدھ گھنٹہ کی سمع خراشی فراہم کرسکوں گا اور ضروری نہیں کہ وہ اقبال کے متعلق ہو۔ اگر آپ مجھے پہلے کہتے کہ یوم اقبال کے 15 دن بعد بھی روالشمس کے طریقے سے یوم اقبال واپس ہوسکتا ہے تو میں اخبا ر والوں کو کہتا کہ بہ تحقیق نکالو ایک سرخی…………
”علامہ اقبال لائل پور میں“
اور اقبال کے متعلق ایسا پھڑکتا ہوا لطیفہ سناتا کہ اقبال نے خود بھی نہ سنا ہوتا۔ اب تو اس کے متعلق آپ نے اتنا کہا سنا ہے کہ سوائے ابو ہریرہ کے قصے کے اور کچھ رہا ہی نہیں اور اگر کچھ رہا ہے تو نمبر ایک وہ لطیفے جو مجھ جیسے لوگوں کو پتہ ہی نہیں جن کے سامنے وہ اٹھتے بیٹھتے تھے اور جو مرتے دم تک ان کو رائے دیتے رہے کہ پاکستان بناؤ۔ میں بھی شائد 1938 ء کے بعد ان سے ملا ہوں۔نمبر دو:۔ وہ تنقیدیں جو اقبال کے خیال و قیاس و گمان و وہم سے دور ہیں اور کچھ ایسا بھی ہونا چاہئے جس کی سمجھ نہ آئے ورنہ دماغی کوفت کس طرح ہوتی اور دماغی کوفت نہ پیدا ہو تو دل کو تسلی نہیں ہوتی کہ میں نے کچھ تحقیق کی ہے۔ مثلاً یہ سنیے۔
”ان تمام مباحث سے یہ ثابت ہوا کہ اقبال کا نظریہئ حسن معروضیت، موضوعیت کا ہے جسے ہم معنوی مناسبت کی بناء پر کئی نام سے موسوم کرچکے ہیں اور یہی نظریہ اپنی جگہ پر صحیح اورجامع بھی ہے۔“
اپنی جگہ تو سب کچھ صحیح ہوتا ہے۔ مگر سب کچھ اپنی جگہ رہتا نہیں۔ حضور کو ساری تکلیف اس وجہ سے پیش ہو رہی ہے کہ کسی جگہ تو اقبال کہتا ہے کہ حسن عارضی ہے یعنی اس پر زوال وارد ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک مرتبہ اللہ میاں کے ساتھ اچھا خاصا معرکہ ہوا۔ اللہ میاں کی یہ پرانی عادت ہے کہ بعض لوگوں کو سر پر چڑھاتا ہے پھر گرا بھی دیتا ہے۔ ابلیس کے علاوہ حسن بھی انہی میں سے ایک ہے مگر یہ خاص منظورِ نظر ہے اور سمجھتا ہے کہ اللہ میاں کا میرے بغیر گزارہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ خود جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ القصہ۔
خدا سے حُسن نے اک روز یہ سوال کیا
جہاں میں کیوں نہ مجھے تو نے لازوال کیا
خدا تعالیٰ نے جو جواب دیا وہ پھر کسی دن سناؤں گا۔ بات یہ ہے کہ مجھے خود سمجھ نہیں آئی۔ اگر آپ کو پسند ہو تو معروضات اور موضوعات کے دھوئیں میں اپنا مطلب بظاہر آشکار کرکے چھپا سکتا ہوں تو پھر بتائے دیتا ہوں کہیں آپ کی حسین راتیں بے قراری میں نہ گزریں۔ خدا نے جواب دیا کہ چونکہ دنیا کی نمود رنگ تغیر سے ہوئی ہے لہٰذا
وہی حسین ہے حقیقت زوال ہو جس کی
اسی طرح کے جواب ہمارے ایک پروفیسر بھی دیا کرتے تھے۔ ان سے پوچھتے کہ معروضات کیا ہیں تو وہ کہتے کہ ”معروضات! جیسے موضوعات!یہ سارے ایک قسم کے لفظ ہیں۔ واردات، مسمات، لات و منات، ان کو ہم قافیہ الفاظ کہتے ہیں یا شائد ہم ردیف ہیں اور معروضات تو آسان ہے جب کہ اس کو مصروفیت پڑھیں تو اور بھی مشکل ہو جاتا ہے جیسے پروفیسروں میں محمد منور تو گویا معروضات کے معنی ہوئے معروض کی جمع اور مفعول کے وزن پر ہے۔ یہی عرضی، درخواست، بھئی مجھے نہ ستاؤ کبھی ڈکشنری بھی دیکھا کرو۔“) جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -