عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں ہوا، حلقہ بندیاں متناسب نمائندگی کے تحت کی جائیں ،سپریم کورٹ
کراچی (ثناءنیوز) سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی بدامنی عملدرآمد کیس کا عبوری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ کراچی میں نئی حلقہ بندیاں کرنے کا حکم دیا گیا تھا، اس پر عمل نہیں ہوا، الیکشن کمیشن اور دیگر اداروں نے اجلاس کئے، لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ عدالت کو حلقہ بندیاں نہ کرنے سے متعلق وجوہات سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ عدالتی فیصلہ پر من و عن عمل کیا جائے حلقہ بندیاں متناسب نمائندگی کے تحت تشکیل دی جائیں۔ عدالت نے حلقہ بندیوں کے حوالے سے حکم دیا تھا یہ محض آبزرویشن نہیں تھی الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کروائے۔ ایک سال بعد بھی سپریم کورٹ کے فیصلہ کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، فیصلہ پر عمل نہیں کیا گیا۔ الیکشن کمیشن کو مکمل اختیار ہے کہ وہ بغیر مردم شماری کے جب چاہے نئی حلقہ بندیاں کرسکتا ہے۔ فیصلے احکامات ہیں ان پر من و عن عمل کیا جائے۔ الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست آئین کے مطابق نہیں انتخابات سے قبل کیوں حلقہ بندیاں ممکن نہیں احکامات پر ویسے عمل نہیں کیا گیا جس طرح کہا گیا تھا حلقہ بندیوں پر نظرثانی درخواست خارج کردی تھی۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ یہ بات مانتے ہیں کہ 1998ءکے بعد مردم شماری نہیں ہوئی۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں کراچی امن و امان عملدرآمد کیس کا عبوری حکم نامہ جاری کردیا۔ حکم نامہ 27 صفحات پر مشتمل ہے جس میں جسٹس خلجی عارف حسین کا چھ صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ بھی شامل ہے۔ فیصلہ چار روزہ سماعت کے بعد جاری کیا گیا ہے۔ تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ وطن پارٹی کیس جوکہ حلقہ بندیوں سے متعلق تھا، اس میں معاشرے کے مختلف طبقات نے عدالت عظمیٰ کے ازخود نوٹس کا خیرمقدم کیا لیکن متعلقہ حکام اور اداروں نے ایک سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود فیصلہ پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا گیا الیکشن کمیشن کے بارہا اجلاسوں کے بعد بھی کراچی میں حلقہ بندیوں کے احکامات پر عمل نہیںکیا گیا۔ سپریم کورٹ کے احکامات پر اس طرح عمل نہیں کیا گیا جس طرح کہا گیا تھا۔ عدالت نے فیصلہ میں آرٹیکل 51 کا مکمل متن شامل کیا ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ اس کا حلقہ بندیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ 1974ءکا ایکٹ نئی حلقہ بندیوں پر پابندی نہیں لگاتا الیکشن کمیشن بغیر مردم شماری کسی بھی جگہ حلقہ بندیاں اور حدبندیاں کرسکتا ہے۔ الیکشن کمیشن اس بات کا مکمل اختیار رکھتا ہے کہ وہ جیسے چاہے حلقہ بندیوں میں بغیر مردم شماری تبدیلی کرسکتا ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ الیکشن کمیشن یا دیگر ادارے صرف اجلاس بلاتے رہے۔ انہوں نے کوئی عملی اقدامات نہیں کئے تاکہ شہریوں کو ریلیف فراہم ہوسکتا۔ عدالت نے قرار دیا کہ اگر عملی اقدامات ہوتے تو معاملات زیادہ بہتر ہوتے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 51 کی سب سیکشن 2 قومی اسمبلی کی نشستیں مختص کرنے سے متعلق ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں 28نومبر 2011ءکے سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد کے بیان کوبھی شامل کیا ہے۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ قانون کے مطابق انتخابی حلقے مساوی آبادی پر مشتمل ہونے چاہئیں حلقہ بندی صرف مساوی آبادی ہی نہیں ملی جلی آبادیوں پر مشتمل ہونی چاہئے۔ الیکشن کمیشن نے اتفاق کیا تھا کہ مردم شماری کے بغیر بھی حلقہ بندیوں کی ضرورت ہے وطن پارٹی کیس میں کراچی میں انتخابی حلقے بڑھانے کا نہیں حلقہ بندی کرے کا کہا گیا ہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے اضافی نوٹ میں کہا ہے کہ یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں صاف اور شفاف انتخابات کو یقینی بنائے۔ حلقہ بندیوں اور حد بندیوں کی تقسیم میں اس بات کا خیال رکھا جانا چاہئے کہ جغرافیائی، انتظامی یونٹ اور مواصلات اور عوایم سہولت کوبھی مدنظر رکھناچاہئے۔