حضور اکرم کا معجزہ اور ابوجہل کی بے بسی!

حضور اکرم کا معجزہ اور ابوجہل کی بے بسی!
حضور اکرم کا معجزہ اور ابوجہل کی بے بسی!
کیپشن: hafiz

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اللہ کے نبی ؑ جب بھی دنیا میں آئے، اہل کفر وباطل نے ان کا نہ صرف انکار کیا بلکہ ان کے راستے میں ہرطرح کی رکاوٹیں بھی کھڑی کیں۔ کتنے ہی انبیائے کرام ؑ کو ان کی قوموں نے شہید کرڈالا۔ حضور نبی پاکﷺ کی بھی بہت زیادہ مخالفت کی گئی، اس کے باوجود کئی بار معجزانہ طور پر کفار آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رعب میں آکر خوف سے کانپ اٹھے۔ ”البدایہ والنہایہ “ امام حافظ ابن کثیر کی معرکہ آرا اور مستند تاریخ وسیرت کی کتاب ہے۔ اسی طرح ابن ہشام کی سیرت نبوی پر معروف زمانہ کتاب ”سیرت ابن ہشام“ کا بھی بہت بڑا مقام ہے۔ دونوں عظیم مورخوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایسا ہی معجزہ بیان کیا ہے۔ اس واقعہ کے راوی ابن اسحاق ہیں، جن سے ان مورخین نے اسے نقل کیا ہے۔
ابن اسحاق نے بیان کیا ہے کہ دشمنِ خدا ابوجہل بن ہشام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت دشمنی اور بغض رکھتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ابوجہل کو کئی بار ذلیل ورسوا کیا۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات تھے۔ ابن اسحاق نے کہا: مجھ سے عبداللہ بن عبداللہ بن ابوسفیان ثقفی نے بیان کیا اور یہ بہت اچھے حافظے والے بزرگ تھے۔ انہوں نے کہا: ”اراش کی بستی سے ایک شخص اونٹ لے کرمکہ آیا۔ ابوجہل نے اس سے اونٹ خرید لئے، پھر قیمت ادا کرنے سے انکاری ہوگیا۔ اراشی مایوس ہوکر قریش کی مجلس میں آیا اور ان سے مدد مانگی۔ اس نے کہا:” قریش کے لوگو! مَیں ایک اجنبی مسافر ہوں اور ابوالحکم بن ہشام نے میرا حق مار لیا ہے، کون سا شخص مجھے میرا حق دلائے گا“؟ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے ایک کونے میں تشریف فرما تھے۔
اہل مجلس سبھی منکرین حق تھے۔ انہیں شرارت سوجھی تو انہوں نے اراشی سے کہا: ”کیا تم دیکھ رہے ہو، وہ شخص جو کونے میں بیٹھا ہے، وہی تمہارا حق دلا سکتا ہے“۔ دراصل سردارانِ قریش جانتے تھے کہ ابوجہل حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت عداوت رکھتا ہے۔ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سبکی چاہتے تھے اور مسافر سے مذاق کررہے تھے۔ اراشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا اور جا کر کہا: ”اے اللہ کے بندے! ابوالحکم بن ہشام نے میرا حق مار لیا ہے اورمَیں اجنبی ہوں۔ ان لوگوں سے مَیں نے پوچھا کہ کون مجھے میرا حق دلا سکتا ہے تو انہوں نے آپ کی طرف اشارہ کیا۔ پس آپ میرا حق دلادیں، اللہ آپ پر رحم کرے“۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کے ساتھ چل دئیے۔ قریش کے لوگوں نے دیکھا تو اپنے میں سے ایک شخص سے کہا: ”اے فلاں ان کے پیچھے جااور دیکھ کر آ، کیا تماشا بنتا ہے“؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجنبی کو ساتھ لئے ابوجہل کے دروازے پر پہنچے اور دستک دی۔ اس نے پوچھا: ”کون ہے“؟ فرمایا: ”مَیں محمد ہوں، ذرا باہر نکلو“۔ ابوجہل باہر نکلا تو اس کا رنگ اڑا ہوا تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس کے جسم میں روح نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اس شخص کا حق ادا کردو“۔
ابوجہل نے کہا: ”بہت اچھا! مَیں اس کا حق ابھی ادا کرتا ہوں۔“ گھر کے اندر داخل ہوا، رقم لے کر آیا اور اراشی کے ہاتھ پر رکھ دی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اراشی سے فرمایا: ”اچھا بھائی خدا حافظ“ اور آپ چل دئیے۔ اراشی قریش کی مجلس کے پاس سے گزرا اور ان سے کہا: ”اللہ تعالیٰ اسے جزائے خیر عطافرمائے، خدا کی قسم! وہ بڑا عظیم آدمی ہے، اس نے مجھے میرا حق دلا دیا“۔
جس شخص کو قریش کے لوگوں نے تماشا دیکھنے کے لئے بھیجا تھا، اس سے انہوں نے کہا: ”تیرا ستیاناس ہو، تُو نے کیا دیکھا“؟ اس نے کہا: ”مَیں نے عجیب ترین معاملہ دیکھا۔ خدا کی قسم جونہی محمد نے اس کے دروازے پر دستک دی اور وہ باہر نکلا تو مَیں نے دیکھا کہ اس کے جسم میں گویا جان ہی نہیں۔ محمد نے اس سے کہا کہ اس شخص کو اس کا حق ادا کردو تو بغیر حیل وحجت کے اس نے اس کا حق ادا کردیا“۔
تھوڑی دیر بعد ابوجہل مجلس میں آپہنچا تو لوگوں نے اس سے کہا: ”تیری تباہی ہوجائے، تجھے کیا ہوگیا تھا؟ خدا کی قسم تو نے جو حرکت کی اس کی تو ہمیں کبھی توقع ہی نہیں تھی“۔ ان کی باتیں سن کر ابوجہل نے کہا: ”تمہاری بربادی ہوجائے، خدا کی قسم! جونہی محمد بن عبداللہ نے میرے دروازے پر دستک دی اور مَیں نے اس کی آواز سنی تو میرے اوپر رعب طاری ہوگیا۔پھر مَیں دروازہ کھول کر باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کے سر کے اوپر فضا میں ایک سانڈ اونٹ معلق ہے۔ اس اونٹ جیسی کوہان، گردن اور دانت ،مَیں نے کبھی کسی اونٹ کے نہیں دیکھے۔ خدا کی قسم مجھے یوں محسوس ہو اکہ اگر مَیں نے انکار کیا تو وہ اونٹ مجھے کھا جائے گا“۔ (سیرة ابن ہشام، القسم الاول:389، 390، البدایة والنھایة، جلد سوم، 45)
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل خلقِ خدا کی خدمت کی بہترین مثال، اور اس کے ساتھ اخلاص وجرا¿ت کے اظہار کا بہترین نمونہ ہے۔ آپ نبوت سے قبل بھی مظلوموں اور بے کسوں کے سرپرست اوروالی تھے ،جبکہ نبوت ملنے کے بعد بھی آپ کا یہ عمل جاری رہا۔ آپ نے ہمیشہ اس حوالے سے بہترین کردار ادا کیا۔مولانا الطاف حسین حالی نے اس کا نقشہ یوں کھینچا ہے:
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے
 مرادیں غریبوں کی بَر لانے والے
 مصیبت میں غیروں کے کام آنے والے
 وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والے
 فقیروں کے ملجا، ضعیفوں کے ماویٰ
آج نبی ¿رحمت کی امت پوری دنیا میں ظلم وستم کا شکار ہے۔ مسلم حکمران اپنی رنگ رلیوں میں مصروف ہیں۔ ظلم کے خاتمے کے لئے سیرتِ مصطفٰے کی روشنی میں ہر صاحب اختیار کو اپنا فرض ادا کرنا ہوگا، ورنہ دربارِ ربّانی میں، روزِ حشر آقا کے سامنے رسوائی وذلت کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔

مزید :

کالم -