وہ علاقہ جہاں رہنے والے بچوں کی آنکھیں پانی کے نیچے مچھلیوں سے بھی بہتر انداز میں کام کرتی ہیں، ایسا کیسے ممکن ہے؟ آپ بھی انتہائی دلچسپ حقیقت جانئے

وہ علاقہ جہاں رہنے والے بچوں کی آنکھیں پانی کے نیچے مچھلیوں سے بھی بہتر انداز ...
وہ علاقہ جہاں رہنے والے بچوں کی آنکھیں پانی کے نیچے مچھلیوں سے بھی بہتر انداز میں کام کرتی ہیں، ایسا کیسے ممکن ہے؟ آپ بھی انتہائی دلچسپ حقیقت جانئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بنکاک (نیوز ڈیسک) خشکی پر زندگی گزارنے والے انسان کے جسمانی اعضاءکی صلاحیتیں پانی کے اندر پائی جانے والی مخلوقات سے بہت مختلف ہیں، لیکن جنوب مشرقی ایشیاءکے بحری خانہ بدوش قبائل کے بچوں کی زیر آب بصری صلاحیتوں نے تو مچھلیوں کو بھی پیچھے چھوڑدیا ہے۔
اخبار ”ڈیلی میل“ کے مطابق موکن قبائل تھائی لینڈ کے مغربی ساحلوں پر پائے جاتے ہیں اور ان کی تمام زندگی سمندر کے کنارے بھٹکتے ہوئے یا سمندر کے اندر گزرتی ہے۔ ان قبائل کی زندگی کا تمام تر دارومدار سمندر پر ہے۔ یہ اپنی خوراک بھی سمندر سے حاصل کرتے ہیں اور دیگر ضروریات زندگی بھی سمندر میں ملنے والی اشیاءکو فروخت کرکے پوری کرتے ہیں۔ ان قبائل کے ننھے بچے بھی غوطہ خوری کے ماہر ہیں اور اپنی خوراک ڈھونڈنے سے لے کر کھیل کود تک سب کچھ سمندر میں ہی کرتے ہیں۔ ان بچوں کی سب سے خاص بات ان کی طاقتور بصارت ہے، جس کی مدد سے یہ سمندر کے پیندے میں پڑی چھوٹی سے چھوٹی اشیاءکو بھی دیکھ لیتے ہیں۔
سویڈن کی ایک سائنسدان اینا گسلن نے ان بچوں پر تحقیق کی تو حیران کن انکشاف ہوا کہ یہ سطح سمندر سے 75 فٹ کی گہرائی پر بھی چیزوں کو بالکل صاف دیکھ سکتے ہیں۔ اینا کا کہنا ہے کہ ان بچوں کی بصارت ڈولفن مچھلیوں جیسی ہے، جو گہرے سمندر میں بھی بہترین انداز میں کام کرتی ہے۔ یہ بچے سمندر کی گہرائی میں چھوٹی چھوٹی کنکریاں اور سکے تک واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ اینا نے اپنے تجربات کے دوران ان بچوں کی بصارت کا موزانہ یورپی بچوں کی بصارت سے کیا تو معلوم ہوا کہ ان کی بصارت یورپی بچوں سے دو گنا تیز تھی۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ موکن قبائل کے بچوں کی حیران کن بصارت جینیاتی وراثت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ ان کے منفرد طرز زندگی کا نتیجہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بچے انتہائی چھوٹی عمر سے ہی سمندر میں غوطہ خوری شروع کردیتے ہیں اور گہرے سمندر میں اشیاءکو دیکھنے کی صلاحیت وقت کے ساتھ بہتر ہوتی جاتی ہے۔ اینا گسلن کا کہنا ہے کہ یہ بچے جب سمندر میں غوطہ لگاتے ہیں تو عام انسانوں کے برعکس اپنی پتلیوں کو سکیڑ لیتے ہیں، جس کی وجہ سے ناصرف یہ اپنی بصری قوت کو زیادہ مرتکز کرسکتے ہیں بلکہ لمبے وقت تک پانی میں موجود رہ کر اشیاءکو باآسانی دیکھ سکتے ہیں۔ اینا گسلن کے مطابق یہ صلاحیت کسی بھی بچے میں پیداہوسکتی ہے، لیکن چونکہ موکن قبائل کے بچے بہت زیادہ وقت پانی میں گزارتے ہیں لہٰذا وہ قدرتی طور پر ہی اس صلاحیت سے مالا مال نظر آتے ہیں۔