تحفظِ نسواں کا صحیح مفہوم
عورت محبت و خدمت کی عملی شکل ہے عورت کا جسمانی و روحانی استحصال دراصل نسل انسانی کی بقاء کے لئے سم قاتل ہے اور عورت کے استحصال کا سب سے مثبت درجہ یہ ہے کہ آپ ایک بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری بیاہ کر لے آئیں اب آپ اعتراض کریں گے کہ مذہب تو اس چیز کی اجازت دیتا ہے تو آپ کون ہوتے ہیں پابندی لگانے والے، دراصل بات یہ ہے کہ مذہب انفرادیت کو مخاطب کرتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے "قد افلح من تزکی، یعنی کامیاب ہو گیا وہ جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا" مذہب جیسے ہی تزکیہ نفس سے آگے بڑھتا ہے تو شعور اوکیوم کا نشتر لیکر کھڑا ہو جاتا ہے بات ذرا تلخ ہو جائے گی نہیں تو ابوبکر رازی نے کہا تھا کہ عقل کے ہوتے ہوئے وحی کی افادیت فہم سے بالا تر ہے اقبال نے رازی کے پیچ و تاب کا اعتراف کرتے ہوئے بہرحال جواب تو دیدیا
اِک دانشِ نورانی اِک دانشِ برھانی
ہے دانشِ برھانی حیرت کی فراوانی
دنیا کا کوئی بھی مذہب عورت کے تحفظ کی مخالفت نہیں کرتا بالخصوص اسلام نے تو عورت کو بدوی ظلم و ستم سے نجات دلائی جو عورت کے معاملے میں وحشی صفت واقع ہوئے تھے پیغمبر اسلام حضرت محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو محبت و تقدس کی روشنی سے منور کر دیا روایات کے معاملے میں خاصا تساہل برتتا ہوں لیکن آپ کا یہ معروف ارشاد کہ اے مسلمانو! عورت کے معاملے میں ہمیشہ خدا سے ڈرتے رہنا، کون مسلمان واقف نہیں لیکن اسکے باوجود بھی رجعت پسند مولوی اسلام کی خود ساختہ تعبیر پیش کرکے نت نئی نظریاتی جنگ چھیڑ دیتا ہے دنیا کا ہر مذہب بالعموم اور اسلام بالخصوص اس بات پر زور دیتا ہے کہ ایک انسان اپنے نفس میں موجود آلائش کو دور کرے لیکن آج کا مولوی اسلام کو اپنی من پسند تعبیرات میں لپیٹ کر پیش کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ جدید ذہن مذہب سے بیزار ہو رہا ہے
پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے مطلب یہاں ہر شہری کو قرآن و سنت سے غیر متصادم قانون سازی کا مکمل حق حاصل ہے اس میں مرد اور عورت کی کوئی تخصیص نہیں اصل میں معاملہ اْس وقت خراب ہو جاتا ہے جب اسلام اور جمہوریت کو آپس میں متصادم قرار دیا جاتا ہے تو تب انسان اسلام کا رہتا ہے نہ جمہوریت کا، دوٹوک بات یہ ہے کہ مذہب اور جمہوریت دو الگ الگ معاملات ہیں اور دونوں میں جوہری اختلاف پایا جاتا ہے اسلام میں قانون سازی کا مطلق حق خدا کے سوا کسی کو بھی حاصل نہیں جبکہ جمہوریت کا سادہ مطلب یہ ہے کہ ہر شہری کو بلاامتیاز قانون سازی کا حق دے دیا جائے چاہے وہ قانون نصوص یا ڈیوائن کے خلاف کیوں نہ ہو لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں مذہب اور جمہوریت آئین میں ایک مربہ کی شکل لئے ہوئے ہے اور یہی بنیادی وجہ ہے جو لبرل اور مولوی کو باہم نظریاتی جدل پر کاربند کئے ہوئے ہے اب ملک کی نظریاتی مبادیات کو کون اتاترک متناسب کر سکتا ہے؟ نہیں معلوم، لیکن اتنا تو واضح ہے کہ اس ملک کو معرض وجود میں لانے والی شخصیت کسی بھی لحاظ سے مذہبی ذہن کی حامل نہیں تھی قائد کو کیا معلوم تھا کہ اْس کی آزاد فکری ریاست اصغر سودائی کے ترانے کی بھینٹ چڑھ جائے گی، جس ملک کے پہلے نامزد وزیر تعلیم ایک ہندو پنڈت اور وزیر خارجہ احمدی مبلغ تھے نہ معلوم وہ کب رجعت پسند مولوی کے ہتھے چڑھ گئی؟
تحفظ نسواں کی ضرورت ان بدترین معاشروں میں پیش آتی ہے جہاں کے مرد شدید جنسی گھٹن میں مبتلا اور اخلاقیات سے عاری ہوں ہمارے معاشرے میں نقاب اور عبایا میں لپٹی ہوئی دوشیزہ یا ادھیڑ عمر مائی جب گھر سے قدم باہر رکھتی ہے تو ہم مردوں کے تیر نظر انکے کے خدو و خال کو چیر رہے ہوتے ہیں ،ہمارے معاشرے کی عصمت دار دوشیزہ معاش کی مجبوری سر پہ اٹھائے جب آفس جاتی ہے تو باس اس کی عصمت کی قیمت چند اعلیٰ مراعات کے عوض خریدنے کی کوشش کرتا ہے اور مزاحمت کی صورت میں اس کو ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں ایسی بھیانک صورتحال میں تحفظ نسواں بل تو درکنار تحفظ نسواں آئین مرتب کرنا چاہئے جس میں یہ قانون درج ہو کہ جو بھی مرد بلاضرورت کسی اجنبی عورت کو تاکنا شروع کر دے تو اسے فوری طور پر حوالات میں بند کر دیا جائے ہمارے ہاں ایک بنیادی مسئلہ ارینج میرج کا ہے جس میں دو انسانوں کی بجائے دو خاندانوں کے درمیان شادی ہوتی ہے ایسی صورت میں مرد کا ایک اجنبی عورت کے ساتھ شفقت سے پیش آنا محض ایک چانس ہی بن جاتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں نکاح کے بعد عموماً عورت قید اور مرد آزاد ہو جاتا ہے چنانچہ مرد بزعم خود اپنی عورت پر ہر طرح کی برتری کا خواہاں ہوتا ہے ۔
اس کے برعکس ہمارے معاشرے میں عورت کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں ہوتا چنانچہ اکثر عورتیں اس اذیت ناک صورتحال کو نصیب کا کھیل سمجھ کر وقت کو دھکا لینے لگ جاتی ہیں کیونکہ ہمارے ہاں مرد کے مقابلے میں عورت کی دلیل اْسکی گستاخی اور کمینگی پر محمول کی جاتی ہے پس عورت اپنے ہونٹ سی کر مرد کا بہیمانہ تشدد برداشت کرتی رہتی ہے جو کسی بھی لحاظ سے جائز نہیں، شادی محض جسمانی ضرورت کی تکمیل یا افزائش نسل کا ذریعہ نہیں شادی دراصل دو انسانوں کی روح کے مضبوط تعلق اور عبودیت کی سب سے بہترین شکل ہے اور عبادت تبھی ممکن ہو سکتی ہے جب روح کا روح سے اتصال ہو جائے ایسا اتصال بے لوث اور مبنی بر اخلاص ہوتا ہے اور اس میں کسی قسم کی لالچ وغیرہ کا امکان باقی نہیں رہتا البتہ شادی کے بعد عورت کی بنیادی ذمہ داریوں میں اپنے خاوند کی خدمت، امور خانہ داری اور اولاد کی تربیت اولین درجہ رکھتی ہیں اگر ان تین ذمہ داریوں میں کوئی خلل نہ آئے تو عورت کسی بھی سماجی امور کی انجام دہی یا معاشی ذمہ داری اٹھا سکتی ہے مہذب معاشروں میں ایسا ہی ہو رہا ہے مغرب میں لاتعداد ایسی پڑھی لکھی عورتیں موجود ہیں جو صرف اپنے گھر اور بچوں کی تربیت کیلئے اپنے آپ کو وقف کر چکی ہیں میں ذاتی طور پر اس کا مشاہدہ کر چکا ہوں لیکن جنہیں معاشی مسائل کا سامنا ہوتا ہے تو وہ ضروریات زندگی کی تکمیل کیلئے احسن طریق اور کماحقہ خودداری سے ملازمت بھی کرتی ہیں۔
ہمارے ہاں مذہبی سکالر مذہبی مشقات پر تو دن رات توجہ دلاتے رہتے ہیں اور جہنم کے عذاب سے بچنے کیلئے وظائف و اوراد بتاتے رہتے ہیں لیکن معاشرے کو بدترین اخلاقی رویوں سے جہنم بنانے والے مرد حضرات کی اصلاح کی کوشش بالکل نہیں کی جاتی، کیونکہ ہماری ترجیحات دنیا سے ماوراء ہیں ہمیں موجودہ زندگی سے بے خبر اس زندگی کو بہتر بنانا ہے جس کے لئے پہلے مرنا ضروری ہے اوشو فرماتے ہیں کہ’’سوال یہ نہیں کہ آپ موت کے بعد کی زندگی کیلئے کیا کچھ کر رہے ہیں سوال یہ ہے کہ آپ موت سے پہلے کی زندگی کو واقعی زندہ ہو کر جئے‘‘۔