پابلو نرودا کی شاعری (2)

پابلو نرودا کی شاعری (2)
 پابلو نرودا کی شاعری (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

0آؤ اب دیکھیں نرودانے اپنی شاہکار نظم ’’کانتو جنرل‘‘ کیسے تخلیق کی؟ اس نظم کے سوتے بھی اس جیتی جاگتی کائنات سے پھوٹتے ہیں۔ اس تخلیق کا آغاز اس وقت ہو ا جب اسے چلی کے قونصل کی حیثیت سے بار سلونا اور میڈرڈ میں ان شعراء کی قربت کا موقع ملا جن کا عوام کے ساتھ حقیقی رشتہ موجود تھا۔1934ء میں فاشسٹوں نے اس کے دوست رافیل البرٹی کے گھر کو جلا کر راکھ کردیا اور 1936ء میں خانہ جنگی کے بعد لورکا کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یہ واقعات نرودا کو عملی سیاست کی طرف لانے میں عمل انگیز ثابت ہوئے اس نے ایک بیان کے ذریعے اس ظلم ووحشت پر احتجاج کیا، جس کے نتیجے میں اُسے قونصل کی نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ اس کے سامنے سیاسی مخالفت مول لینے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ وہ یوں گویا ہوا:
غدار جرنیلو
میرے راکھ راکھ گھر کو یکھو
ٹوٹے پھوٹے سپین کو دیکھو
مکانوں سے اگتے ہوئے پھولوں کی بجائے
اٹھتے ہوئے شعلوں کو دیکھو
گو1938ء کی یہ نظمیں ’’سپین میرادل‘‘ بلند آواز میں نہیں گائی گئیں ،پھر بھی ان میں بلاغت اورسلاست کے تمام عناصر بدرجہ اتم موجود ہیں۔ ان کو پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے ،جیسے ان کا مخاطب کوئی بہت بڑا ہجوم ہو۔ ان نظموں کا مقصد محض قرطاس کے دامن پہ موتی بکھیرنا نہیں، بلکہ قاری کے احساس کو جھنجھوڑنا بھی ہے اور اس تخلیقی عمل میں اس کوشامل کرنا بھی۔لکھے ہوئے لفظوں اورزبان سے ادا کئے ہوئے الفاظ کا یہ نمایاں فرق اہمیت کا حامل ہے۔ نرودا کے مطابق شاعری ایک ذاتی عمل نہیں ہے، بلکہ عوامی عمل ہے۔شاعر کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ میں عوام کے جذبات واحساسات شامل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی نظموں میں ایک عام آدمی کا دل دھڑکتانظر آتا ہے۔ اس بات کا اظہار نرودانے1963ء میں ان الفاظ میں کیا ہے:’’ایک زندہ انسان کے لئے زبان پہ تالے لگا لینا،موت کے مترادف ہے۔ میں بولتا ہوں،اس لئے میں زندہ ہوں‘‘۔
’’دھرتی کا بن باس‘‘ والی نظمیں سسکتی ہوئی کائنات سے مخاطب ہیں۔ اس مکالمے میں تیسرا فریق موجود نہیں ہے۔ اس کے بعد ’’چند چیزوں کی وضاحت‘‘ والی نظموں میں اس کا موضوع سخن لوگوں کا انبوہ کثیر ہے، جیسے اجڑی ہوئی دنیا دوبارہ آباد ہوگئی ہو۔ یہ ڈرامائی تبدیلی، غم جاناں سے شروع ہوکر غم دنیا پہ اختتام پذیر ہوتی ہے۔شاعری کا یہ عوامی رنگ1938ء کے بعد واضح نظر آتا ہے۔ یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اس کی شاعری کا ابلاغ کن لوگوں کے لئے ہے۔اسی سال’’چلی کی رز میہ نظم‘‘ تخلیق ہوتی ہے۔ جو بعد میں’’کانتو جنرل‘‘ کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ پندرہ حصوں پر مشتمل یہ نظم نرودا کی بارہ برس کی تخلیقی جدوجہد کا ثمر ہے۔ یہ نظم 1950ء میں شائع ہوئی۔ اس وقت تک نرودا ایک مرد مجاہد کی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔ ا س عرصہ میں سے وہ تین سال (1940-43ء) تک میکسیکو میں چلی کے قونصل کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔
1945ء میں وہ سینٹرمنتخب ہوا اور کمیونسٹ پارٹی کا ممبر بنا۔ اس دوران اسے عام کارکنوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔1948ء میں صدر گونزالیزوڈیلا نے مشرقی یورپ کے ممالک سے تعلقات منقطع کرلئے۔ یہ وہی صدر ہیں جو کمیونسٹ پارٹی کی حمایت سے برسراقتدار آئے۔ اس دوران نرودا کو گرفتار کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ بالآخر وہ کارکنوں کی پناہ میں روپوش ہوگیا۔ کانتو جنرل کا دسواں حصہ اسی تجربے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔وہ لکھتا ہے کہ میں آج ان لوگوں کی پناہ گاہوں میں حصے دار ہوں جن کے لئے میری شاعری وقف ہے۔ سپین سے واپسی پر اس نے مزدوروں کے جلسوں ،جلوسوں میں نظمیں پڑھنا شروع کردی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ’’کانتوجنرل‘‘ کی زبان فنی لحاظ سے تقریر سے قریب تر ہے۔ اس نظم نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ عوام کی زبان میں بھی شاعری ہوسکتی ہے۔ وہ شاعری جس کا ابلاغ اکثریت تک ہو اس میں مقفع مسجع زبان کی بجائے روز مرہ کی زبان استعمال کی گئی ہے۔ سادگی کے باوجود یہ شاعری پیغمبرانہ شاعری کے ضمن میں آتی ہے ۔ شاعر اپنی کہانی سناتے ہوئے فطرت اورتاریخ کے اسرار ورموز سے پردہ اٹھاتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ امریکہ کی اصل کہانی کیا ہے۔ اس کا جغرافیہ کیا ہے۔ اس کے لوگوں پر فاتح ڈکٹیٹروں کے ظلم وبربریت کی داستان کیا ہے۔ اس کا انداز بیان رزمیہ بھی ہے اوحزنیہ بھی۔ وہ کبھی طنز و مزاح کے نشتر چلاتا ہے تو کبھی نوحہ کناں ہوتا ہے۔ وہ ایک رابطے کا کام کررہا ہے۔ فطرت اورانسان کے درمیان۔ وہ ماضی سے باخبر ہے۔ وہ فطرت کی زبان سے آشنا ہے۔ وہ دریاؤں، جنگلوں اورپتھروں کی خفیہ زبان کو نئے معنی عطا کرکے اپنے قاری کو بھی اس تجربے میں شامل کرتا ہے۔
*بائیو بائیو مجھ سے باتیں کرو
تم نے مجھے زبان عطا کی ہے
تو نے مجھے بارش اور پتوں کی بوچھاڑ کا گیت دیا ہے
(*دریا کا نام)
جب تاریخ اور فطرت روح کل کی صورت اختیار کرتے ہیں تو انسانی تقدیر کا فیصلہ کرنا آسان ہو جاتا ہے۔جب مادی ترقی انسانی محنت کے استحصال کا باعث بنتی ہے تو اسے باور کرایا جاتا ہے کہ انسان اپنی قسمت کا خود مالک ہے۔ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر محنت کے بل بوتے پر ایک اچھی زندگی تعمیر کر سکتا ہے۔فطرت اور تاریخ سے یہ خطاب انسانی سوچ سے ماورا اہمیت کا حامل ہے جو نظم کے ہر بند میں نمایاں ہے لیکن اس کی شدت اور زور بیان نظم کے اس حصے میں بھرپور اور سحر انگیز ہے جہاں وہ اینڈین کے پہاڑوں میں پوشیدہ اس قلعے کا ذکرکر تاہے۔ یہ قلعہ صدیوں سے پہاڑوں کے دامن میں ایک مخفی راز کی طرح چھپا ہوا ہے۔ نرودا ماضی کو عالم وجود میں لاتا ہے اور اس سے ہم کلام ہوتا ہے۔ قلعے کے پتھر بولتے ہوئے نظر آتے ہیں وہ اپنے معماروں کے بارے میں باتیں کرتے ہیں، وہ ایک گواہ کی طرح یہ سب کچھ دیکھتا ہے، محسوس کرتا ہے:
ماضی کے دامن میں سوئے ہوئے غلاموں کو
میں اپنی خوابیدہ آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں
ہزاروں مرد اور عورتیں
جو بارش اور طوفان کی نذر ہوئے
شاعر ہمیشہ حواس خمسہ کو بروئے کار لاتا ہے۔ اس کی شاعری میں جابجا ایسے جملے نظر آتے ہیں۔ ان کو دیکھو، اس چیز کو چھوؤ، سمندر کی رات میں چھپے دیکھ رہا ہوں، دفعتاً میں نے لوگوں کا ایک انبوہ کثیر دیکھا۔ اس قسم کی بے شمار مثالیں اس کی شاعری میں نظر آتی ہیں۔۔۔’’کانتو جنرل‘‘ میں ایک جگہ نرودا فطرت سے ٹکر لیتا ہے۔ وہ فطرت جس پر ابھی انسانوں کے پاؤں نہیں پڑے تھے۔ پھر وہ وقت آن پہنچا جب انسانی تاریخ کا آغاز ہوتا ہے اور اندھیرے اجالوں میں بدل جاتے ہیں۔ وہ ماضی کی وادیوں میں اس گم گشتہ راز کی تلاش میں نکلتا ہے، جس کو فاش کرنے کے لئے انسان نے اپنی قسمت کو فطرت سے پہلی دفعہ جدا کیا تھا۔ وہ قدیم انسان کی ان یادگاروں کو نشانِ راہ کے طور پر پاتا ہے جن پر فنکاروں کے ہاتھوں کے نشان آج بھی موجود ہیں۔ نظم راپا نوئی کی چند سطریں:
جزیروں میں انسانی چہرے اگنے لگے
بموں سے پیدا ہونے والے گڑھوں سے
نئے انسانوں نے جنم لیا
یہ انسان وہ سنتری ہیں
جو دریاؤں کے رخ موڑنے کی طاقت رکھتے ہیں
’’کانتو جنرل‘‘ میں ان گمنام مجاہدوں کی قصیدہ خوانی کی گئی ہے جو تعمیر انسانیت کی جدوجہد میں کام آئے۔ اس نظم میں غداروں کو لعن طعن کی گئی ہے۔ چلی کے مطلق العنان حکمران گونز الیزوڈیلا کے حصے میں لعنت ملامت آئی ہے۔ اس میں استحصالی طبقے اور درباری شعرا کی بھی نندیا کی گئی ہے۔ کانتو جنرل کانفس مضمون اپنی جگہ اہم ہے۔ لیکن اس کی معمولی سے معمولی باریکیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا تصوراتی تاثر توانائی سے بھرپور ہے۔ ملاحظہ کیجئے ’’مچھلی اور ڈوبتا ہوا شخص‘‘ سے چند سطریں:
پریشان حال ڈوبتا ہوا شخص
مدوجذر کی جانب
ایک ڈھال کی مانند بڑھ رہا ہے
سمندر کی تہہ میں
ایک زخمی میراث کی مانند
ڈوب جائے گا
’’کانٹو جنرل‘‘ کی اشاعت کے بعد نرودا کی شاعری اس حد تک سہل ممتنع کی حدوں کو چھو چکی تھی کہ اس کا ابلاغ غیر ادبی لوگوں تک بھی ہونے لگا جو 1954ء میں ’’عناصر کی نظم معریٰ‘‘ کی تخلیق کا باعث بنی۔ چھوٹے چھوٹے جملوں پرمشتمل یہ نظمیں خوبصورت گیتوں میں صورت پذیر ہوئیں۔ جس میں شاعر اپنے فن کو زندگی کے قریب لانے میں پوری طرح کامیاب ہوتا دکھائی دیتا ہے:
میں کتابوں کی طرح
ملفوف نہیں ہونا چاہتا
مجھے آشکارہونے دو
میری نظمیں خالی نظمیں نہیں ہیں
بلکہ پرجوش واقعات کو نگلنے والی بلائیں ہیں
(جاری ہے)

مزید :

کالم -