سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں اضافہ؟
اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ سلامتی کونسل میں مستقل نشستوں کی تعداد بڑھانے سے اس کی اہمیت میں اضافہ نہیں ہوگا، سلامتی کونسل کی تشکیل نو میں تعطل کے ذمہ دار اپنے موقف میں لچک کا مظاہرہ نہ کرنے والے ملک ہیں، یہ تعطل دس سال سے چلا آ رہا ہے۔
سیکیورٹی کونسل اقوام متحدہ کا ایسا ادارہ ہے جس کے پانچ ارکان مستقل اور ویٹو پاور کے حامل ہیں جبکہ 10 ارکان غیر مستقل ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک طے شدہ طریقِ کار کے مطابق غیر مستقل ارکان بنتے رہتے ہیں۔ گزشتہ تقریباً ایک عشرے سے سیکیورٹی کونسل کے مستقل ارکان کی تعداد بڑھا کر سات کرنے کا سوچا جا رہا ہے، لیکن اب تک اِس ضمن میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا کیونکہ امریکہ سمیت بُہت سے مُمالک بھارت کو مستقل رُکن بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں، جبکہ پاکستان اور اُس کے دوستوں کا خیال ہے کہ بھارت ایک ایسا مُلک ہے جو مستقل رکنیت کا کسی بھی پہلو سے اہل نہیں، کیونکہ یہ اُن معدودے چند مُلکوں میں سرفہرست ہے جو سیکیورٹی کونسل کی اپنی منظور کی ہوئی قراردادوں کا مُنہ چڑاتے ہیں، لیکن اقوام متحدہ اِن کا کچھ نہیں بگاڑ پاتی۔ اِس طرح کا ایک مُلک اسرائیل بھی ہے جس نے آج تک اقوام مُتحدہ کی قراردادوں پر عمل نہیں کیا اور فلسطین کی سرزمین غصب کر رکھی ہے۔ حال ہی میں امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے مُلک کا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کیا تو دُنیا بھر میں اِس پر احتجاج کیا گیا۔ سلامتی کونسل میں اِس فیصلے کے خلاف قرارداد لائی گئی تو امریکہ کے سوا تمام ارکان اِس کے حامی تھے۔ اپنے خلاف یہ قرارداد امریکہ نے ویٹو کر دی تو مجبوراً اِس معاملے کو جنرل اسمبلی میں لے جانا پڑا، جہاں 128 مُلکوں کی حمایت سے قرارداد منظور ہوئی۔ اِس کے باوجود امریکہ اپنے فیصلے پر ڈٹا ہوا ہے اور سفارت خانہ، تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کے لئے اقدامات کر رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ میں اِس معاملے پر بھی بحث ہوتی رہتی ہے کہ کیا سیکیورٹی کونسل کے مستقل ارکان کے پاس ویٹو پاور ہونی بھی چاہئے یا نہیں؟ کیونکہ اِس کی وجہ سے بڑی طاقتیں، خصوصاً امریکہ ہر اُس قرارداد کو ویٹو کر دیتا ہے جو اُس کی خارجہ پالیسی کے تقاضوں کے مطابق یا ہم آہنگ نہیں ہوتی۔ اسرائیل کے خلاف بہت سی قراردادیں اِس وجہ سے منظور نہیں ہو پاتیں۔ اِسی طرح ماضی میں کشمیر کے معاملے پر بھی بہت سی قراردادیں منظور نہ ہو سکیں، کیونکہ بھارت کے ایما پر سوویت یونین انہیں ویٹو کرتا رہا۔ اس کا حل شاید یہ سوچا گیا کہ مزید دو (یا زیادہ) مُلکوں کو مُستقل رکنیت دے کر اُنہیں ویٹو پاور بھی دے دی جائے۔ امریکہ نے اس سلسلے میں کھل کر بھارت کا ساتھ دیا، بلکہ سابق امریکی صدر اوباما اپنی مدت صدارت کے آخری ایام میں بھارت آئے تو اُنہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ بھارت اُن کے عہد میں ہی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بن جائے، لیکن محض خواہشات سے تو ایسے فیصلے نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک مستقل رُکنیت کا اونٹ کِسی کروٹ نہیں بیٹھ سکا، تاہم بھارت اور اُس کے دوست مُلک اِس کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ میں اِس وقت قدیم ترین مسئلہ کشمیر کا ہے جو اُس کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ بھارت کے اُس وقت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو خود یہ مسئلہ لے کر اقوام متحدہ میں گئے تھے اور پوری دُنیا کے نمائندوں کی موجودگی میں اعلان کیا تھا کہ کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے گی اور کشمیریوں کو یہ موقع دیا جائے گا کہ وہ اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کر سکیں۔ اِس اعلان پر کشمیر میں جنگ بند ہو گئی تو بھارت نے شاطرانہ انداز میں اپنی فوجیں کشمیر میں بھیجنا شروع کر دیں اور جب اپنی پوزیشن مستحکم کر لی تو آہستہ آہستہ وعدوں سے مُکرنا شروع کر دیا اور کچھ عرصے کے بعد اِس کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہنا شروع کر دیا، جہاں وہ رائے شماری کرانے کا اعلان کر چکے تھے۔ اُن کے بعد ہر حکومت نے یہی رٹ لگانا شروع کر دی اور آج تک یہی رٹا رٹایا سبق دہرایا جا رہا ہے، حالانکہ مقبوضہ کشمیر میں اِس وقت آزادی کی جو لہر اُٹھی ہوئی ہے، وہ تمام تر ظلم و ستم کے باوجود دبائی نہیں جا سکی اور بُہت سے بھارتی رہنما یہ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔
کشمیر کا تعلق تو براہِ راست اقوام متحدہ سے ہے، کیونکہ یہ قراردادیں آج بھی اُس کے ایجنڈے پر ہیں، لیکن بھارت میں انسانی حقوق کی جو صورتِ حال ہے اور جس طرح اقلیتوں کی زندگی حکمران جماعت کے لیڈروں اور کارکنوں کی نگرانی میں اجیرن کی جا رہی ہے، مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور دوسری اقلیتوں کے خلاف جس انداز کے پُرتشدد واقعات ہو رہے ہیں، جس طرح گائیں ہانک کر لے جانے والے چرواہوں اور فریج میں گوشت رکھنے والوں کو قتل کیا جا رہا ہے، اس کے بعد بھارت کِس طرح ایک ایسے ادارے کی مستقل رُکنیت کا تصور کر سکتا ہے جس کا بنیادی مقصد ہی دنیا میں تصادم اور تشدد کو روکنا ہے۔ بھارت نے کشمیر کی کنٹرول لائن پر باقاعدہ جنگ شروع کر رکھی ہے اور کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب ملحقہ دیہات کے لوگ گولیوں کا نشانہ نہیں بنتے۔ جس ملک کی اپنے سب سے بڑے ہمسائے کے ساتھ نہیں بنتی اور جس نے خطے کو جہنم زار بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، وہ سلامتی کونسل کی ویٹو پاور بن کر تو عالمی غنڈے کا کردار ادا کرنے پر تُل جائے گا اور اپنی اِس حیثیت کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرے گا۔
جو ملک اپنے انداز میں سلامتی کونسل کی توسیع چاہتے ہیں اور یہ فیصلہ پہلے ہی کئے بیٹھے ہیں کہ عالمی ادارے کی قراردادوں کے مخالف ملک کو اس کا رُکن ضرور بنائیں گے اور اِس ضمن میں کِسی قسم کی اخلاقیات کو خاطر میں نہیں لائیں گے، اُنہی کی وجہ سے اِس معاملے میں تاخیر ہو رہی ہے۔ سلامتی کونسل کی توسیع اگر ہونی ہے تو پوری دُنیا کی رائے کو پیشِ نظر رکھ کر ہونی چاہئے۔ یہ نہیں کہ چند ملک یا ملکوں کا کوئی گروہ بیٹھ کر من پسند فیصلے کر لے اور جسے چاہے اُس کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کو فراموش کرکے مستقل رُکن بنا دے۔ پاکستانی مندوب نے بالکل درست کہا ہے کہ ایسے ملکوں کے غیر لچکدار روّیے کی وجہ سے یہ معاملہ حل نہیں ہو رہا، ضرورت ہے کہ یہ ملک اپنے روّیے میں لچک پیدا کریں اور تمام ممالک کے تحفظات دور کرکے اِس سلسلے میں آگے بڑھیں۔ اگر توسیع کے باوجود ادارے کا وقار نہیں بڑھتا تو ایسی بے کار مشق کا کیا فائدہ؟