ترقی کے نام پر دو بڑے شہروں کی بربادی
سپریم کورٹ کے حکم پر قائم واٹر کمیشن برائے کراچی حیدر آباد کے سربراہ جسٹس (ریٹائرڈ) امیر ہانی مسلم نے گریٹر کراچی سیوریج سے متعلق تفصیلات معلوم کرنے کے لئے سیکرٹری خزانہ اور وفاقی سیکرٹری پلاننگ کمیشن کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے۔ کمیشن کے سربراہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترقی کے نام پر کراچی اور حیدر آباد جیسے شہروں کو برباد کر دیا گیا۔ جب پانی کی نکاسی کا کوئی بندوبست نہیں تو عمارتیں اور ہاؤسنگ سکیمیں بنانے کی اجازت کیوں دی جاتی ہے۔ حیرت ہے کہ سندھ حکومت ایسی ہاؤسنگ سکیموں کو نہیں روک سکتی۔ حد یہ ہے کہ نالوں پر بھی پلازے اور بلڈنگیں تعمیر ہو چکی ہیں۔ فاضل جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم نے افسوس کا اظہار کیا کہ جرائم میں ملوث افسران سرکاری عہدوں پر کام کررہے ہیں۔ دھڑا دھڑ بیس بیس منزلہ بلڈنگیں تعمیر ہو رہی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔سیوریج سسٹم کامیاب نہیں جبکہ پینے کے لئے صاف پانی بھی میسر نہیں۔ فیکٹریوں کا فضلہ مسلسل دریائے سندھ اور سمندر میں بہایا جا رہا ہے۔ کراچی اور حیدر آباد میں سیوریج سسٹم اور واٹر سپلائی کے حوالے سے واٹر کمیشن کے سربراہ کے یہ ریمارکس بے حد اہم ہیں۔ ان پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سیوریج کا پانی اور فیکٹریوں کا فضلہ پچھلے کئی عشروں سے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صاف پانی میں شامل کرنا معمول بن چکا ہے۔ متعلقہ ذمے دار افسروں کو یہ احساس نہیں کہ اُن کی عدم توجہی اور فرائض سے چشم پوشی کے باعث کروڑوں معصوم شہریوں کی صحت اور زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے۔ دفتری اہلکار بھی صرف اپنی مٹھی گرم کرنے میں مصروف رہتے ہیں، ورنہ کیسے ممکن تھا کہ مذکورہ دونوں شہروں میں کسی پلاننگ کے بغیر عمارتیں تعمیر کرنے کا سلسلہ جاری رہتا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ کراچی یا حیدر آباد کا کوئی ماسٹر پلان نہیں بنایا گیا اور متعلقہ افسران واٹر کمیشن کے سربراہ کے استفسار پر بھی کچھ نہ بتا سکے۔ واٹر کمیشن کی ہدایت پر 77 فیکٹریوں کا معائنہ کرنے کا پروگرام بنایا گیا۔ پہلے مرحلے میں بارہ فیکٹریوں کا دورہ کیا گیا تو چھ فیکٹریوں کی انتظامیہ نے دورہ کرنے والی ٹیم کو اندر داخل ہونے کی اجازت نہ دی ۔ واٹر کمیشن کی ہدایت پر چھ فیکٹریوں کی انتظامیہ کے خلاف مقدمات درج ہو گئے، ان فیکٹریوں کے وکلاء نے انکشاف کیا کہ متعلقہ محکمے کی طرف سے انہیں کوئی نوٹس تک نہیں دیا گیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مک مکا سے معاملہ چل رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مجرمانہ غفلت اور فرائض سے کوتاہی برتنے والے’’ سیپا ‘‘حکام اور اہلکاروں کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ کراچی اور حیدر آباد میں نکاسی آب کے کسی منصوبے پر کام نہیں ہو رہا ہے۔ جب بارشیں ہوتی ہیں تو نکاسی آب نہ ہونے سے دونوں شہروں میں بدبو، تعفن اور گندگی پھیلنے سے شہریوں کا جینا دوبھر ہو جاتا ہے۔ واٹر کمیشن کے سربراہ نے درست نشاندہی کی ہے کہ جب کرپشن اور مجرمانہ غفلت کے مرتکب افسر اپنے عہدوں پر کام کر رہے ہوں گے تو پھر صورت حال بہتر کیسے ہو سکتی ہے۔ بدعنوان اور فرائض کی ادائیگی نہ کرنے والے مافیا کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہو سکی۔ اس بارے میں سندھ حکومت ہی کو ذمے دار سمجھا جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ناقص سیوریج سسٹم اور دھڑا دھڑ عمارتوں کی تعمیر میں ملوث لوگوں کے خلاف اعلیٰ سطح پر کارروائی کرکے اگلے پچھلے حساب برابر کئے جائیں۔ یہ معاملہ چونکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کے تحت اٹھایا ہے تو سخت کارروائی کو بھی یقینی بنایا جائے۔