جیت امن کی ہونی چاہئے

جیت امن کی ہونی چاہئے
جیت امن کی ہونی چاہئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہمارے بچپن میں مشکل کے وقت سب لوگ کلمہ شریف کا ورد شروع کر دیتے تھے ۔ اب زمانہ بدل گیا ہے ، اِس لئے افتاد پڑتے ہی ہمارا رخ سوشل میڈیا کی طرف ہو جاتا ہے ۔

کوئی بات مرضی کے خلاف ہو گئی تو ایک زوردار پوسٹ لگا دی ۔ حکومت کا اقدام پسند نہ آیا تو ٹویٹ لکھ دیا اور سمجھ لیا کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے ۔ ہر اچھی بات پہ فیس بُک اسٹیٹس ، ہر بُری بات پہ ایک اور اسٹیٹس۔ منگل کو ، جو گوشت کے ناغے کا دن تھا ، بھارتی طیارے لائن آف کنٹرول پار کر کے پاکستانی سرزمین میں آ گھسے تو سمجھ میں نہ آیا کہ ہم نے انہیں مار گرانے کی کارروائی کیوں نہیں کی۔

ایک قریبی عزیز نے ، جو صبح کی سیر میں پاک فضائیہ کے ایک سابق چیف کے ہم رکاب ہوتے ہیں ، یہ کہہ کر پوسٹ لگانے کی نوبت نہ آنے دی کہ سب کنٹرول میں ہے،مگر ہم محاذ آرائی کو بڑھانا نہیں چاہتے۔
اگلے ہی روز کنٹرول والی بات سچ ثابت ہو گئی،پر کمال تو جمعرات کو ہوا جب وزیراعظم نے انکشاف کیا کہ پاکستان نے جنگی قیدی بنائے گئے بھارتی ونگ کمانڈر کو رہا کر دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ خواہشِ امن کا یہ مدبرانہ اظہار اَور لوگوں کے ساتھ میرے لئے بھی خوشگوار حیرت کا باعث بنا ۔ کھُل کر بات کروں تو مجھے اِس دلیرانہ اقدام کی توقع تھی ہی نہیں ۔ایک تو اِس لئے کہ پاکستانی قوم فوجی اور جمہوری دونوں ادوار میں اپنی قیادت کو ناقص سفارت کاری کا طعنہ دیتی آئی ہے ۔ دوسرے ، یہ رِسک بھی تھا کہ اِس اقدام کو ملک کے اندر یا باہر کہیں ہماری کمزوری کا اشارہ نہ سمجھ لیا جائے۔

لہٰذا مَیں نے ایک اسٹیٹس لگایا تو سہی ،لیکن احتیاط برتنے کی تلقین کئے بغیر رہ نہ سکا ۔ دوسرے شکست کی خفت کی طرح فتح کی سرخوشی کو قابو میں رکھنا بھی آسان نہیں ہوتا اور ہم اپنی فضائی برتری ثابت کر چکے تھے۔فیصلے میں یہ رِسک بھی دکھائی دے رہا تھا کہ اِسے ملک کے اندر اور باہر پاکستان کی کمزوری پہ محمول کیا جا سکتا ہے۔سو میرے الفاظ تھے ’’ویل ڈن پاکستان، لیکن ہم وطن خواتین و حضرات خیال رکھیں کہ صلح جوئی کا یہ اقدام محض پوائنٹ اسکورنگ کے لئے استعمال نہ ہونے پائے‘‘۔

ظاہر ہے پوائنٹ اسکورنگ کا امکان داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پہ ہو سکتا ہے۔ مراد یہ تھی کہ ہمسایہ ملک کو ، جسے (زمینی حقائق سے قطعِ نظر ) بین الاقوامی قانون کے مطابق باضابطہ اعلانِ جنگ کے بغیر ’دشمن‘ نہیں کہا جا سکتا ، اِس حد تک نہ لتاڑیں کہ ہمارا یہ رویہ اپنی ہی فیاضی پہ بدنما داغ نظر آنے لگے ۔ ساتھ ہی پاکستان کی اندرونی سیاست کے تناظر میں حکمران جماعت کے لئے ضروری تھا کہ وہ اِسے اپنے سیاسی مخالفین کی تضحیک کا بہانہ بنانے کی کوشش نہ کرے ۔

دِل ہی دِل میں یہ خدشہ بھی محسوس ہوا کہ آزمائش کی اِس گھڑی میں جہادی جذبے سے سرشار اہلِ پاکستان کہیں عوامی توپوں کا رخ عمران خان کی بجائے میری جانب نہ کر دیں۔
آفرین ہے اِس قوم پر ، جو آزمائش کی ہر گھڑی میں کسی پیشگی وارننگ کے بغیر یکدم ’بندے کی پُتر‘ بن جاتی ہے ۔ اپنے ہی اسٹیٹس کو معیار بناؤں تو پاکستان تحریکِ انصاف کے حامی تو ایک طرف رہے ، انہیں عام حالات میں ’یوتھیا‘ کہہ کر مذاق اُڑانے والوں نے بھی حقیقت پسندی کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا ۔ مثال کے طور پر مسلم لیگی رجحان کے حامل ایک جانے مانے صحافی کا تبصرہ تھا کہ ’’وزیر اعظم عمران خان کی خواہشِ امن تعریف کی مستحق ہے ۔ دونوں ممالک میں جنگی جنون میں مبتلا لاتعداد لوگوں کے ہوتے ہوئے انہوں نے جرأت سے کام لیتے ہوئے ایک دانش مندانہ فیصلہ کیا ۔ مَیں پی ٹی آئی کی سیاسی و معاشی پالیسیوں کو پسند نہیں کرتا، لیکن مجھے یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے، جس سے کشیدگی کم کرنے میں مدد ملے گی‘‘۔تو کیا یہ رویہ ذہنی پختگی کی علامت ہے؟
اِس پر اچانک یاد آیا کہ ستمبر 1965ء میں جب پاکستان نے اپنی بقا کی جنگ لڑی تو جنرل ایوب خان کی نشری تقریر سنتے ہی پاکستانی قوم بھول گئی تھی کہ چند ہی ماہ پہلے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف صدارتی انتخاب میں اُن پر سنگین دھاندلی کے الزامات عائد کئے گئے ہیں ۔ ہمارے سکول کے لڑکوں نے مانگ تانگ کے فوجی وردیاں پہن لیں اور یہ بھی نہ سوچا کہ کیا اِس حرکت سے یونیفارم ایکٹ کی خلاف ورزی ہو رہی ہے ۔

دلوں میں جنگِ عظیم والے پی ٹی ماسٹر غلام سرور عرف ’’کنڈور‘‘ کا پیدا کردہ ولولہ تھا ، جو ہر صبح ہمارے دلوں کو گرما دیا کرتے : ’’نظریں سامنے ، چھاتی باہر ، زور کے ساتھ‘‘ ۔ پھر کہتے ’’نہیں ہے جان ، خدا کی زمین دُکھتی نہیں‘‘ اور ساتھ ہی پوٹھواری لہجے میں گورے سارجنٹوں والے ’کاشن‘ شروع ہو جاتے، یعنی آج کے ’ہوشیار باش‘ کی جگہ ’ٹین چھا‘ او ر ’آسان باش‘ کی بجائے ’ٹنڈے ٹیز‘ ۔
دورانِ جنگ حکومت نے زیادہ سے زیادہ دفاعی فنڈ اکٹھا کر نے کے لئے ’ایک پیسے میں دو ٹینک ‘ کی انوکھی اسکیم چلائی تھی ۔ وہ اس طرح کہ اگر دس کروڑ کی کُل آبادی میں سے ہر شخص ایک ایک نیا پیسہ دے تو یہ دس لاکھ روپے ہو گئے ، اور اُس وقت کے لحاظ سے دو نئے ٹینک خریدنے کے لئے اتنی رقم کافی تھی،چنانچہ جب ہم گھروں ، دفتروں اور دکانوں میں ’مانگنے ‘ کے لئے جاتے تو کوشش ہوتی کہ تین چار سو ٹینکوں کا بندوبست کر کے اٹھیں ۔

رہائشی علاقے کے بیشتر مکین درمیانے درجے کے سرکاری ملازم تھے۔ایک ایک دو دو روپیہ ہو ہی جاتا۔ ہمارے پڑوس میں صرف چندا کی امی نے دفاعی کٹوتی کا عذر پیش کرتے ہوئے ایک کھنکتی ہوئی اٹھنی یہ کہہ کر اچھال دی تھی کہ ’’ دفتر والوں نے تمہارے چچا کی ایک دن کی تنخواہ کاٹ لی ہے ‘‘۔ ہمیں لگا کہ ہمارے دو تین سو ٹینک تباہ ہو گئے ہیں۔
یہ تو گلی محلے کا جوش و جذبہ ہے ۔ لگتا تھا کہ ریڈیو پاکستان بھی ہمارے پی ٹی ماسٹر کے احکامات کے تحت چل رہا ہے ۔ چنانچہ صبح سات بجے اردو بلیٹن کا آغاز مقبول نیوز ریڈر ’دادا‘ شکیل احمد کی آواز میں بھاری بھرکم لہجے کی شہ سرخیوں سے ہوتا : ’’کل (مختصر وقفہ) ہماری فضائیہ نے (مختصر وقفہ) ہلواڑہ، آدم پور ، جام نگر ، جودھپور اور پٹھانکوٹ کے ہوائی اڈوں پر شدید بمباری کی (لفظ ’شدید‘ پر آواز اوپر اٹھتی ہوئی) اور ٹھیک ٹھیک نشانے لگائے (’نشانے لگائے‘ نتیجہ خیزی کا تاثر لئے ہوئے )۔۔۔جب ہمارے طیارے بمباری کر کے لوٹے (یہ پورا شرطیہ جملہ تسلسل سے اوپر کو جاتا ہوا ) تو دُور آگ کے شعلے (تاثر ابھارنے کا وقفہ ) بلند ہوتے دکھائی دیئے‘‘۔۔۔ خبریں بہت ولولہ انگیز ہوتیں ، لیکن یہ کبھی نہ لگا کہ حقیقت پسندی سے کام نہیں لیا جا رہا ۔ حقیقت پسندی سے انحراف کسی اَور پہلو سے ہوا تھا۔
اِس پہلو کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنے خلاف عوامی ردِ عمل کا خطرہ پھر محسوس ہو رہا ہے، کیونکہ میرا اشارہ جنگی ترانوں میں برتی جانے والی بے احتیاطی کی طرف ہے ۔ آپ کہیں گے کہ یار چھوڑو ، شاعری تو شاعری ہوتی ہے اور پھر ماحول کی نزاکت تو دیکھو کہ مکمل بلیک آؤٹ میں خطرے کے سائرن بج رہے تھے ،ساتھ ہی ترانے لکھے اور ریکارڈ کئے جا رہے تھے ۔ ایسے میں شاعر یا موسیقار کا ’اوور‘ ہو جانا کوئی اچنبھے کی بات تو نہ ہوئی ۔

عرض کروں گا کہ بالکل ٹھیک ، مگر وزارتِ اطلاعات و نشریات کو کِس ہُد ہُد نے مشور دیا تھا کہ شعر و نغمہ کے زور پہ قوم کے مورال کو اتنا اونچا لے جاؤ کہ ’’چڑھ بیٹھے پہاڑی پر‘‘ ۔ چنانچہ صدرِ مملکت نے حالات کے تناظر میں فائر بندی کا اعلان کیا تو قوم یہ کہہ کر ہمیشہ کے لئے روٹھ گئی کہ آپ نے فوجی محاذ پہ جیتی ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پہ ہار دی ہے ۔ اِس جانب کسی کا دھیان ہی نہیں تھا کہ نغمہ گروں نے جوش میں آ کر مدِ مقابل کی نسلی او ر مذہبی شناخت کو بھی نہیں بخشا ۔ نمونۂ کلام ملاحظہ ہو :
لالہ جی ، جان دیو
لڑنا کیہہ جانو ، تسی مُرلی وجاون والے
ایہہ گل تہاڈے وس دی نئیں
ایک اور نغمہ ہے ، جو ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹر صاحب کی کاوشِ فکر کا نتیجہ تھا اور جسے بے حد و حساب پذیرائی ملی ۔ اب غور کریں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ اِس میں خواتین کی توہین کرنے کی (خواہ وہ پاکستانی ہوں یا بھارتی) آخر ضرورت ہی کیا تھی ۔ خاس طور پہ اِس لئے کہ ایک انترے میں جہاں خود کو ’’سندھی ، بنگالی ، بلوچ پٹھے‘‘ اور ’’پُت پنجاب دے پانیاں دے ‘‘ کہا گیا ، وہاں یہ نکتہ بھی قابلِ فخر تھا کہ ہم نے ’’دُددھ پیتے نیں مانواں پٹھانیا ں دے ‘‘ ۔ یہ ذہن میں رکھیں اور نغمے کی استھائی یا ٹیِپ کے مصرعے سماعت فرمائیں :
مہاراج ایہہ کھیڈ تلوار دی اے
جنگ کھیڈ نئیں ہندی زنانیاں دی
مَیں عسکری تجزیہ کار نہیں ، ابلاغیات کا طالب علم ہوں ۔ اِس لئے اتنا کہنے کی اجازت تو دیجئے کہ آج کل کی جنگ ہمارے بچپن کی لڑائی نہیں جو محض گیت سنگیت کے زور پر یا اسکول کے لڑکے لڑکیوں کو فوجی وردیاں پہنا کر جیتی یا ہاری جا سکے ۔ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے ، جس میں عسکری ہتھیار کے طور پہ شعر و نغمہ کی افادیت پہلے سے محدود تر ہو گئی ہے۔

وزیراعظم پاکستان حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اگر جارحانہ کارروائیاں نہ رکیں تو صورتِ حال نریندر مودی یا عمران خان کسی کے بس میں نہیں رہے گی ۔

مقامِ شکر ہے کہ دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے مقابلے میں ایک ایسا ملک اور معاشرہ ذہنی پختگی کا ثبوت دے رہا ہے، جس نے سیاسی عمل میں ہر قدم پہ ٹھوکر کھائی اور ٹھوکر کھاکر سنبھلنے کی کوشش بھی کی ،جو آج تک جاری ہے ۔ خدا کی قسم ، ہماری خواہشِ امن ذہنی پختگی کا اظہار ہے ، کمزوری کی علامت نہیں ۔ جیت ان شاء اللہ امن کی ہو گی ۔ پاکستان زندہ باد ۔

مزید :

رائے -کالم -