"رومانوی داستانوں کے حوالے سے معروف شہر عمرکوٹ تاریخ کے آئینے میں۔۔ ۔ "

"رومانوی داستانوں کے حوالے سے معروف شہر عمرکوٹ تاریخ کے آئینے میں۔۔ ۔ "

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تاریخی نقطہ نظر سے صوبہ سندھ کی تاریخ وثقافت اور تہذیبی تمدن کی تاریخ ہزاروں سال پرانی بتائی جاتی ہے ،سندھ کے تاریخی آثار آج بھی یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ ہزاروں سال قبل بھی سندھ کے باشندے ترقی یافتہ شہری تھے پاکستان کے قدیم تاریخی شہروں میں سے عمرکوٹ بھی پاکستان کا ایک تاریخی شہر ہے ،عمرکوٹ کو مغلیہ عہد سلطنت کے عظیم مغل بادشاہ اکبراعظم کی جائے پیدائش کے شہر ہونے کا شرف حاصل ہے۔عمرکوٹ  کی اپنی ایک خاص منفرد اہمیت ہے ،عمرکوٹ میں تاریخ کی کئی ایک داستانیں ہیں، عمرکوٹ میں محبت اور رومانوی داستانیں بھی ہیں ، ان محبت کی داستانوں پر کئی ٹی وی ڈرامے اور فلمیں اور اسٹیج ڈرامے بن چکے ہیں، عمرکوٹ کی تاریخ کے بارے میں مورخین کی مختلف رائے ہیں۔
عمرکوٹ سٹی سے چند کلومیٹر دور سرکاری باغ کے نزدیک تاریخ کے مطابق مورخہ "23"نومبر "1542" بمطابق "14"شعبان "949" ہجری کو عمرکوٹ میں ہمایوں بادشاہ کی اہلیہ حمیدہ بانو کے بطن سے "اکبر "بادشاہ کی پیدائش ہوئی، تاریخ بتاتی ہےکہ اس وقت ہمایوں بادشاہ شیر شاہ سوری سے شکست کھانے کے بعد سفر کرتے ہوئے عمرکوٹ پہنچا اور اپنی شکست خوردہ فوج کے قافلے  ہمراہ عمرکوٹ کے سرکاری باغ کے نزدیک پڑاؤ کیا ۔ہمایوں بادشاہ نے اکبر بادشاہ کی پیدائش کی خوشی میں مشک نافہ کی ڈلی توڑ کر اپنے ہم راہیوں میں تقسیم کی ،ہمایوں بادشاہ کے پاس شیر شاہ سوری سے شکست کھانے کے بعد کچھ نہ بچا تھا اس وجہ  سے ہمایوں بادشاہ  نے مشک  نافہ تقسیم کیا ۔
اکبر  بادشاہ   کی  جائے پیدائش کے  مقام پر  حکومت   نے ایک چھوٹی سی یادگار قائم کی  ہے  جہاں پاکستان  بھر سے  سیاح اس یادگار  مقام پر آتے ہیں۔  مورخین   کاکہنا ہے کہ عمرکوٹ کو ہندوستان کے راجہ امرسنگھ نے آباد کیا تھا اسی وجہ سے کچھ مورخین عمرکوٹ کو "امرکوٹ"بھی کہتے تھے، وقت کے ساتھ ساتھ عمرکوٹ میں مختلف حکمرانوں نے حکومت کی ان حکمران خاندانوں میں" سومرو"تالپور  "کلہوڑوں" حکمرانوں نے حکومت کی ،کچھ مورخین کا کہنا ہےکہ عمرکوٹ اور اس سے ملحقہ ریگستان کے پہلے حکمران "پرمار "تھے اور یہ پرمار ہندوستان کے علاقے اوجن سے آئے تھے ۔

"عمرکوٹ کا تاریخی قلعہ "۔عمرکوٹ کے تاریخی قلعے پر یہاں حکومت کرنے والے شاہی گھرانوں کی انوکھی تاریخ سے بھرا پڑا ہے کہا جاتا ہے کہ اس عمرکوٹ  قلعے کی  بنیاد  سومرو دور حکومت مورخین کے مطابق (1350-1050ء)کے درمیان پہلے سومرا خاندان کے بادشاہ عمر سومرو نے رکھی تھی تیرہویں صدی کے آخری آدھے حصے میں راجپوت راجہ پرمار سوڈھو نے اس پر قبضہ کیا تھا اس کے جانشین رانا پرشاد نے مغل شہنشاہ ہمایوں کو کچھ مورخین کےمطابق  "1541"اور کچھ مورخین کے مطابق "1542" میں رانا پرشاد نے ہمایوں بادشاہ کو پناہ دی تھی اور "23"نومبر 1542ء کو عمرکوٹ کے نزدیک سرکاری باغ کے یہاں مغل شہنشاہ اکبر بادشاہ کی پیدائش ہوئی عمرکوٹ کے اس تاریخی شہر اور قلعے پر سومرو خاندان کے علاوہ راجپوت ،کلہوڑوں ، حاکموں نے حکمرانی کی تاریخ لکھنے والے مورخین کا کہنا ہے کہ آخر میں اس قلعہ کو کلہوڑوں حاکموں کے ورثاء نے جودھپور کے راجہ کو بیچ دیا تھا۔


"1813"میں تالپور حکمرانوں نے عمرکوٹ قلعہ پر واپس قبضہ جمالیا "1843"میں جب انگریزوں نے سندھ پر قبضہ کیا تو عمرکوٹ کا یہ تاریخی قلعہ ان کے تصرف میں آگیا مستطیل شکل والے اس قلعے کی اراضی "785"ضرب "946" مربع فٹ ہے۔ عمرکوٹ قلعہ وسیع رقبہ پر پھیلا ہوا ہے قلعے کی دیواروں کے چاروں کونوں پر آدھی گولائی والی دفاعی برج اور دوسری طرف محراب والا داخلی دروازہ ہے۔ عمرکوٹ قلعے کے اندر واقع مین فصیل قلعہ کے اوپر شہر کے دفاع کےلیے بھاری توپیں نصب ہے جس سے دشمن کا بھرپور مقابلہ اور دفاع کیا جاتا تھا۔ قلعے کے اس مین فصیل کی اتنی اونچائی ہے جس سے آج بھی شہر بھر کا نظارہ کیا جاسکتا ہے ۔

"عمرکوٹ عجائب گھر "

عمرکوٹ کا نام تاریخ میں   عظیم مغل شہنشاہ اکبر بادشاہ کی جائے پیدائش    اور عمر ماروی کی لوک داستان کی وجہ سے مشہور ہے۔ اکبر اعظم کے تعلق کی وجہ سے اس جگہ کو دور اکبری کی یادگار قرار دیا گیا اور وہ اشیاء جو اس دور سے تعلق رکھتی ہےعمرکوٹ عجائب گھر میں نمائش کےلیے   رکھی گئی۔

عمرکوٹ عجائب گھر "1968"میں تعمیر کیا گیا سال "2006"میں اس عجائب گھر کی نئی عمارت تعمیر کی گئی عمرکوٹ عجائب گھر میں مغلیہ عہد کے مخطوطات ،ہتھیار  اور مختلف مغلیہ عہد میں جاری سکے ،مغل بادشاہ اکبر کے شاہی  فرمان نامے ،شاہی دستاویزات خطاطی کے نادر نایاب نمونے مختلف شاہی خطوط اور عجائب گھر کی تعمیر کے دوران کھدائی کے وقت ملنے والی جین اور ہندو درم کے دریافت  مجسمے اور عمرکوٹ تھرپارکر  کے قدیم زیورات اور مغلیہ عہد کی تصاویر نمائش کے لیے اس عجائب گھر میں رکھی گئی ہیں یہ تاریخی نواردات مغلیہ سلطنت خاص کرکے  اکبر بادشاہ کی اور مقامی ثقافت کی جھلک پیش کرتا ہے ۔

"تاریخی شہر عمرکوٹ سے منسوب رومانوی داستانیں "

پاکستان اور صوبہ سندھ کے تاریخی شہر عمرکوٹ کے حوالے سے کئی لوک داستانیں مشہور ہے ان لوک داستانوں پر اب تک کئی ٹی وی ڈرامے فلمیں اور  سٹیج ڈرامے اور سندھ فلمیں بن چکی ہے، پیار محبت کی ان عظیم لوک داستانوں میں مشہور عشقیہ داستان "عمر ماروی "رانوں اور مومل"کا تعلق بھی عمرکوٹ سے ہیں لوگ جب عشق محبت کی ان عظیم داستانوں کے حوالے سے عمرکوٹ کو ضرور یاد رکھیں گے۔ عمر ماروی اور رانوں مومل پر اب تک کئی ٹی وی ڈرامے اسٹیج ڈرامے اور اردو سندھی فلمیں بن چکی ہے ۔


عمرکوٹ کی سرزمین نے پاکستان اور سندھ کی تاریخ میں کئی نامور سیاسی سماجی اور مذہبی شخصیات کو جنم دیا ہے ان سیاسی سماجی مذہبی شخصیات میں سندھ کے سابق وزیراعلیٰ سید مظفر حسین شاہ  آنہجانی اقلیتی وفاقی وزیر رانا چندر سنگھ سندھ کے سابق وفاقی اور موجودہ پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی نواب محمد یوسف تالپور رکن سندھ اسمبلی سید علی مردان شاہ  صوبائی وزیر سید سردار شاہ پی ٹی آئی کے اقلیتی ایم این اے لال مالھی، وزیراعلیٰ سندھ کے معاون خاص نواب تیمور تالپور، سماجی شخصیات صدارتی ایوارڈ یافتہ ڈاکٹر ھرچند رائے لاکھانی، رانا ہمیر سنگھ سماجی، شخصیت حاجی سراج الدین سومرو ،ڈاکٹر سید نور علی شاہ، قاسم سراج سومرو ، خالد سراج سومرو ،مذہبی شخصیات میں مرحوم علامہ عبدالرحمن جمالی مرحوم  علا مہ محمد ہاشم سومرو پیر ابراہیم جان سرہندی سمیت کئی اھم شخصیات شامل ہے پاکستان کی سیاست میں عمرکوٹ کی اہميت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو اور موجودہ وزیر داخلہ مخدوم شاہ محمود قریشی عمرکوٹ سے الیکشن لڑچکے ہیں۔

"شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر (اکبراعظم )کی حکمرانی اور اکبر بادشاہ کا ترکہ "


مغلیہ عہد سلطنت کا عظیم بادشاہ شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر انتہائی کم عمری صرف تیرہ "13"سال کی عمر میں ہندوستان کے حکمران بن گئے تاریخ کی مختلف کتب میں درج ہےکہ ہمایوں بادشاہ "1556"۶ اور "963"ھجری میں دنیا سے رخصت ہوگیا تاریخ "ہمایوں بادشاہ ازبام افتاد " ہمایوں بادشاہ کی وفات کے بعد امیروں نے مکمل اتفاق رائے سے شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کو دوسری "2"ربیع الثانی بمطابق "923"ھجری میں کلانور میں تخت پر بٹھا دیا گیا یوں اکبر بادشاہ نے انتہائی کم عمری صرف تیرہ سال کی عمر میں ہندوستان پر اپنی حکمرانی کا جھنڈا گاڑ دیا تاریخ بتاتی ہےکہ اکبر بادشاہ کو علم سے خاص دلچسپی تھی  اکبر بادشاہ کے دور میں ڈاک کا خصوصی نظام  تھا اور اکبر بادشاہ کا تعلیم کی ترقی کی طرف خصوصی دھیان تھا اکبر کا سرکاری کتب خانہ عظیم الشان اپنی مثال آپ تھا اکبر بادشاہ نے اپنے دور حکمرانی میں دارالترجمہ بھی قائم کیا اس دارالترجمہ کا مختلف کتابوں کے ترجمے کیے جاتے تھے اکبر بادشاہ نے ہندوستان پر اکاون "51"سال حکمرانی کی شہنشاہ اکبر کو اپنے دو بیٹوں  شہزادہ مراد اور شہزادہ دانیال کی موت کا بہت دکھ اور غم تھا جس کے باعث اور کثرت شراب نوشی کے باعث اکبر بیمار پڑ گیا اکبر بادشاہ کی صحت دن بدن گرتی گئی اور تاریخ مطابق "13"تیرہ جمادی الاول "1014"ھجری میں شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر  نے اس عالم فانی سے عالم جادوانی کی راہ لی اکبر بادشاہ کو باغ سکندری میں دفن کیا گیا۔


"اکبر بادشاہ کا ترکہ "


تاریخ  میں درج ہےکہ اکبر کے پاس ہاتھیوں کی پانچ ہزار سے زائد تعداد تھی ایک ہزار کے قریب چہتے بارہ ہزار کے قریب گھوڑے دس کروڑ روپے  لعل خاصہ ایک کروڑ ،سونا غیر مسکوک دس من پختہ ،پختہ چاندی غیر مسکوک ستر من ، پول سیاہ ساٹھ من  اور تنگہ پانچ ارب ایک ہزار ہرن وغیرہ شامل تھے  بتایا جاتا ہے کہ اکبر کے پاس ہاتھیوں کی اتنی کثیر تعداد تھی جو شاید ہی کسی مغل حکمران کے پاس ہو اکبر کا قطعہ یہ ہے ۔

۔

نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

بلاگ -