ووٹوں کی خرید و فروخت کا خاتمہ کیسے؟
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق، سینٹ کے انتخابات آج بروز بدھ خفیہ رائے دہی کے اصول کے تحت ہو رہے ہیں حکومتی ریفرنس پر فیصلہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے آئین میں درج طریق کار یا طے شدہ اصول کے مطابق ہی انتخابات منعقد کرانے کی رائے دی ہے یہ مستحسن فیصلہ ہے، جس سے آئین کی بالا دستی کا اظہار ہوتا ہے۔ ایک ٹی وی چینل میں مباحثے کے دوران یہ بات زیر بحث لائی گئی کہ آئین سازی کرنے والو ں کے ذہن میں ایسا اصول طے کرنے کا منشا کیا تھا اور کیا جو کچھ ہو رہا ہے یعنی ووٹوں کی خریدو فروخت تو یہ ان کے پیش ِ نظر نہیں تھا؟اگر نہیں تھا تو پھر یہ اصول یعنی خفیہ رائے شماری کا اصول ناقص ہے اور اگر ووٹوں کی خریدو فروخت کا امکان ان کے ذہن میں تھا تو انہو ں نے اس کا تدارک کیوں نہیں کیا؟یہ باتیں بادی النظر میں معقول لگتی ہیں۔ لیکن معاملہ اتنا بھی سادہ نہیں ہے۔
اس بات کا براہ راست جواب دینے سے قبل ذراہٹ کر ایک بات کرنا چاہوں گا۔ماضی قریب میں ہارنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات 2020ء کے دوران اور پھر اس کے بعد جو رویہ اختیار کیااس سے عالمی امن کو جس انداز میں خطرات لاحق ہو گئے تھے اس بارے میں بحث شروع ہوئی عالمی میڈیا نے ان خیالات کا اظہار بھی کیا لیکن امریکی آئین میں اس حوالے سے جانے والے امریکی صدر کو نامعقولیت کے حوالے سے باز رکھنے کی کوئی سبیل درج نہیں پائی گئی تو کیا یہ امریکی آئین کا نقص نہیں کہلائے گا؟ کیا امریکی آئین کے خالقوں نے ایسے ممکنہ حالات کے بارے میں سو چ و بچار نہیں کی تھی؟یہاں بھی یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کے حالات سے نمٹنے کے لیے آئین میں کسی طریق کار کی عدم موجودگی سے آئین سازوں کی کس طرح کی سوچ کا اظہار ہوتا ہے بات یہ ہے کہ امریکی آئین کے خالقوں نے جیسا امریکی صدرسوچا تھا اس میں ایسی نا معقولیت بارے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے ٹرمپ جیسے شخص کا امریکی صدر منتخب ہونا، امریکی آئین کی نفی نہیں بلکہ اس آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل در آمد نہ کرنا ہے اگر امریکی آئین پر عمل درآمد کیا جاتا تو ٹرمپ جیسا شخص منتخب ہی نہیں ہو سکتا تھا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا ہوا،جس سے امریکہ کی پوری دنیا میں سبکی ہوئی۔
اب بات کرتے ہیں آئین پاکستان کے خالقوں کی سوچ کی۔ذرا چیف جسٹس آف پاکستان کے ان ریمارکسکو ذہن میں لائیں جو انہوں نے کچھ عرصہ قبل آئین کی شق 62/63 کے حوالے سے دیئے تھے کہ اگر یہ پارلیمنٹ پر لاگو کر دی جائے تو سوائے جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق کے باقی سب نا اہل قرار پا جائیں گے۔62/63 کی چھلنی سے چھن کر جو شخص انتخابی میدان میں اترے گا وہ ایک دیانتدار، قابل اور ہر قسم کی ظاہری و باطنی بد اعمالیوں سے مبرا ہو گا۔وہ معاشرے کا ایک باوقار شہری ہو گا اچھی شہرت کا حامل ہو گا۔ اگر ایسا شخص منتخب ہو کر ایوان میں پہنچے گا اور اسے جب اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ ڈالنے کا موقع ملے گا تو وہ کسی بھی قسم کی پارٹی وابستگی، برادری یا ایسی ہی کسی اور قسم کی وابستگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی مفادات کے مطابق اپنا ووٹ ڈالے گا۔ باقی رہ گئی بات ووٹ کی قیمت وصول کرنے کی تو اس بارے میں تو سوچا ہی نہیں جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آئین میں ووٹوں کی خرید و فروخت کو روکنے کے حوالے سے کسی قسم کی تحریر یا تادیب کا ذکر نہیں ہے۔یہ کام الیکشن کمیشن کا ہے کہ وہ 62/63 کے عملی نفاذ کے ذریعے صرف ایسے امیدواروں کو میدان انتخاب میں اترنے کی اجازت دے جو طے شدہ شرائط پر پورے اترتے ہوں تا کہ ہماری منتخب کردہ اسمبلیوں میں ایسے مرد و زن پہنچیں جو اپنے کردار اور افکار کے حوالے سے کسی قسم کے شک و شبہے سے بالا تر ہوں وہ قومی جذبے سے بھی سرشار ہوں اور اپنے ضمیر کے آگے بھی شرمندگی کا احساس رکھتے ہوں انہیں اپنی آخرت اور رب کریم کے حضور جوابدہی کا بھی احساس ہو۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں، قرارداد مقاصد میں جو اب آئین کا حصہ ہے یہ بات طے کر دی گئی ہے کہ مملکت خداداد میں اللہ کے احکامات یعنی قرآن کریم اور اس کے آخری نبی حضرت محمدﷺ کی سنت کے مطابق ہی حکمرانی ہو گی۔ساورنٹی یعنی اللہ کا منشااور مرضی اور قرآن میں درج ہے اور رسول کریم ؐ کی سنت اس کی تشریح ہے کے مطابق اس ملک کا رہنما و رہبر ہو گا۔ عوام کے نمائندے قرآن و سنت کے مطابق ہی حق حکمرانی کو استعمال کر یں گے۔ ایسے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ عوامی نمائندے یعنی ممبران اسمبلی جھوٹے یا خائن ہو سکتے ہیں ووٹ کا لین دین، ذاتی مفادات کے پیش نظر کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ووٹوں کی خریدو فروخت کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا تو اسے روکنے کی بات کہاں درج ہو گی اس حوالے سے آئین پاکستان میں کوئی ابہام نہیں ہے۔
حکومت نے خفیہ بیلٹ کے خلاف جو وجوہات بیان کی ہیں اور جس لین دین کے تدراک کا کہا ہے اس کا اہتمام تو پہلے ہی آئین کی شق 62/63 میں کر دیا گیا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ الیکشن کمیشن 62/63 کی چھلنی حقیقی معنوں میں لگائے، تا کہ بے ایمان اور ضمیر فروش قسم کے لوگ انتخابی میدن میں ہی اتر نہ سکیں یہی آئین کا منشا ہے۔