سینیٹ الیکشنوں سے مریخ تک!
یہ کالم لکھنے سے پہلے کئی بار سوچا کہ ایک ایسی قوم جس کی اکثریت داخلی سیاسیات کے بخار میں مبتلا ہو اور آج (3مارچ) کے سینیٹ الیکشنوں کا پل پل شدید بے تابی سے گزار رہی ہو اس کوکسی خلائی کامیابی کی خبر سنانا بے وقت کی راگنی ہو گا لیکن پھر خیال آیا کہ شاید اکّا دکّا لوگ ایسے بھی ہوں جو ملکی سیاسیات کا روبی کان عبور کر چکے ہوں اور ان کے لئے آج کے الیکشنوں میں کسی انقلابی ڈویلپمنٹ کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوں۔ چنانچہ ’چل میرے خامے بسم اللہ؟‘ کا نعرہ لگانے کا عزم کرتا ہوں۔
برسبیلِ تذکرہ راقم السطور اگرچہ سیاست کا کوئی باقاعدہ طالب علم نہیں لیکن پھر بھی پاکستان میں رہتے ہوئے لوٹ جاتی ہے اُدھر کو بھی نظر کیا کیجیے…… میرے مطابق آج کچھ بھی نیا وقوع پذیر نہیں ہوگا۔ اسلام آباد میں یوسف رضا گیلانی اور عبدالحفیظ کے جس ’جوڑ‘ کو گزشتہ دو تین ہفتوں سے میڈیا بہادر نے سر پر اٹھا رکھا ہے اس کا ”کَٹّی کٹّا“ آج نکل جائے گا تو اپوزیشن کے دلِ بے قرار کو قرار آ جائے گا۔ اس کے بعد کیا ہوگا۔ یہ آج رات تک ہم بے چارے پاکستانیوں کو معلوم ہو جائے گا۔ میرے ایک کالم نگار دوست منظور احمد جو ایک سابق بیورو کریٹ اور بینکار بھی ہیں وہ ”العوام کالانعام“ کا اردو ترجمہ ”خچر عوام“ کیا کرتے ہیں اور میں ان سے ہمیشہ اختلاف کرتا ہوں کہ ہر پاکستانی کو عوام کے زمرے میں شمار کرنا ویسے تو ایک حقیقت ہے لیکن ہر پاکستانی کو ’خچر‘ کا لقب عطا کرنا آپ کی اپنی توہین ہے کہ آپ خود بھی انہی خچر عوام میں سے ایک ہیں۔ آج شب کے ٹاک شوز میں ہمارا محبِ وطن میڈیا اپوزیشن کے آئندہ ’مارچ پروگرام‘ کی تفصیل بتا رہا ہو گا۔ یہ لانگ مارچ خواہ 26مارچ کو ہوگا یا آگے پیچھے کر دیا جائے گا اس سے حکومت کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ جس اسلام آباد کو اللہ کریم نے تین چار برس پہلے طالبان دہشت گردوں سے بچایا تھا وہ اس مارچ 2021ء میں بھی اسے محفوظ و مامون رکھے گا۔ البتہ اپوزیشن کا یہ ایجنڈا کامیاب ہوتا نظر آتا ہے کہ اگست 2018ء میں پاکستان میں ایک غیر روائتی، غیر وراثتی پولیٹیکل پارٹی برسرِ اقتدار آ تو گئی ہے تو اس بیچاری ”تازہ واردِ بساطِ ہوائے دل“ کو پانچ برس پورے کرنے کا موقع دے ہی دیا جائے…… ان کا ارادہ ہے کہ اس گہما گہمی کو تین پونے تین سال تو گزر ہی چکے ہیں۔ باقی ڈیڑھ دو برس گزرنے کی اجازت بھی دے ہی دی جائے۔2023ء کے الیکشنوں تک موجودہ پراسس کو کھینچ تان کر لے جانا ناممکنات سے نہیں۔ خود برسرِ اقتدار تحریک انصاف بھی اس میں ”اپنا حصہ“ ڈال رہی ہے۔ ہر شام آپ کو میڈیا کی سکرینوں پر جہاں اپوزیشن کے ترجمان رونق افروز نظر آئیں گے وہاں حکومتی وزیروں مشیروں کی فوجِ ظفر موج کا کوئی نہ کوئی فرد بھی باقاعدہ شریکِ جنگ دکھائی دے گا۔ میڈیا اگر حکومت اور اپوزیشن کو برابر کا ٹائم عطا کرنے کا ذمہ دار ہے تو اس ”عطائیگی“ میں خود حکومت بھی شریک ہے۔ میں نے ایک بار اپنے کالم میں عرض کیا تھا کہ اگر آج حکومت یہ فیصلہ کرلے کہ کسی بحث و مباحثے میں خود کو ’ملوث‘ نہیں کرنا اور اپوزیشن کو کھلی چھٹی دے دینی ہے تو یہ کھیل ایک مہینہ بھی نہیں چلے گا۔ سامعین و ناظرین آخر کب تک یک طرفہ چاند ماری کو دیکھیں اور برداشت کریں گے۔ عوام کالانعام کا پیمانہ ء صبر جلد لبریز ہو جائے گا اور وہ میڈیا کی پانی کی ٹینکیوں سے منہ اٹھا کر اپنے اپنے باڑوں میں سمٹ جائیں گے…… اللہ اللہ خیر سلّا!
آصف زرداری صاحب ایک بار پھر سرگرم ہو گئے ہیں۔ کراچی میں تھے تو ان کو نجانے کیسے کیسے جسمانی اور نفسیاتی عوارضِ مزّمن لاحق تھے لیکن وہ آج کے دنگل پر اثر انداز ہونے کے لئے خود اسلام آباد میں تشریف فرما ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کے اعلان تک دارالحکومت ہی میں قیام فرما ویں گے۔ ان کے وراثتی جانشین بلاول زردری بھی، یادش بخیر، گلگت۔ بلتستان کے الیکشنوں میں گلگت جا کر بیٹھ گئے تھے اور الیکشن کمشنر کے احکامات کے برعکس ان کا دعویٰ تھا کہ وہ جی بی میں پی پی پی کی فتح کے اعلان تک قیام فرما رہیں گے…… لیکن پھر کیا ہوا، کیا پی پی پی فتح یاب ہوئی، کیا ان کی تمنائے دل بر آئی اور کیا ان کی گاڑی پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنے والوں کی مرادیں پوری ہوئیں ان سوالوں کا جواب وہ کبھی نہیں دے سکیں گے اور میرا خیال ہے ان کے والد گرامی بھی آج شائد رات کی پرواز سے واپس کراچی تشریف لے جائیں گے اور آرام کی نیند سوئیں گے!
دوسری طرف وزیراعظم عمران خان بھی بنی گالہ سے نکل کر پارلیمان کی کسی بغلی آرام گاہ میں براجمان ہیں۔ وہ بھی پی پی پی کی طرح پی ٹی آئی کی تبلیغی جماعت کا سہ روزہ کاٹ رہے تھے۔ آج ان کو بھی بھرپور نیند آئے گی۔ اگلے روز پہلی بار خاتونِ اول داتا دربار کی پناہ گاہ میں تشریف لے گئی تھیں اور فرمایا تھا کہ ہر کامیاب انسان کی کامیابی میں اس کی بیوی کا ہاتھ ہوتا ہے۔گویا فرما رہی تھیں:
ہاتھ ہے اللہ کا ”بندیء مومن“ کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کار کشا، کارساز
(ضروری نہیں کہ خدا کو مذکر ہی باندھا جائے۔ اس کی تو کوئی جنس نہیں۔ نہ وہ مرد ہے نہ عورت، نہ بندہ نہ بندی…… وہ بس غالب ہے، کار آفریں ہے، کار کشا ہے اور کارساز ہے)
میں نے کالم کے آغاز میں انسان کی ایک خلائی کامیابی کا ذکر کیا تھا…… یہ ایک طویل موضوع ہے اور جب تک کوئی قاری خلائی علوم اور ستاروں اور کہکشاؤں کے موضوع میں دلچسپی نہ رکھتا ہو، وہ اس انسانی کامیابی کے لامحدود امکانات کا تصور نہیں کر سکتا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ انسان نے (امریکی انسان) نے 17جولائی 2020ء کو امریکی سرزمین میں قائم ایک رصدگاہ سے ایک راکٹ کے ذریعے ایک روبوٹ مریخ (Mars) کی طرف بھیجا تھا جو پورے سات ماہ بعد 18فروری 2021ء کو مریخ کی سطح پر اتر گیا ہے اور اس نے اس سیارے (مریخ) کی تصاویر زمین پر بھیجنی شروع کر دی ہیں۔ 15منٹ سے لے کر آدھ گھنٹے کی مسلسل وڈیوز آپ کو گوگل سے مل سکتی ہے۔ فیس بک پر خلائی روبوٹ کو مریخ کی سطح پر لینڈ کرتا ہوا دکھایا جاتا ہے۔اس روبوٹ کی تیاری میں امریکی سائنس دانوں کو تقریباً دس برس لگ گئے۔ اس کا نام روور روبوٹ رکھا گیا ہے۔ ایک روبوٹ پہلے بھی مریخ پر بھیجا گیا تھا اور یہ 5برس پہلے کی بات ہے۔
اب دوبارہ انسان نے 2.2ارب ڈالر کی لاگت سے یہ روور تیار کیا ہے اور اسے مریخ پر بھیجا ہے۔ ہمارے نظام شمسی (سولر سسٹم) میں مریخ ایک ایسا سیارہ ہے جس کے بارے میں سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اربوں سال پہلے اس پر بھی زندگی اسی طرح تھی جس طرح آج زمین پر ہے۔اس میں پانی بھی تھا، سبزہ بھی، حیوانات بھی اور انسان بھی……
آج کے زمینی انسان نے اربوں برس پہلے کے مریخی انسان کی سُن گن لگانے کے لئے یہ روبوٹ مریخ پر اتارا ہے۔ اس کی وڈیوز دیکھ کر یہ گمان، یقین میں تبدیل ہو جاتا ہے کہ مریخ پر کبھی برف پوش پہاڑ بھی تھے، دریا اور نہریں بھی اور سمندر بھی۔ یہ روبوٹ جس جگہ اتارا گیا ہے وہ ایک گڑھا ہے اور روبوٹ نے اس کی کھدائی شروع کر دی ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس کھدائی کے نتیجے میں ’پانی‘ دریافت ہو جائے گا اور اسی پانی کے ”انکشاف“ کے بعد زمینی انسان کی وہ تحقیق و جستجو بامراد ہو جائے گی جس کی تمنا وہ کرتا رہا ہے۔ مریخ کی وڈیوز میں دیکھنے والی آنکھ اس جستجو کی کامیابی کے امکانات دیکھ سکتی ہے۔
میں ایک اور طرح سے بھی اس انکشاف کا مفہوم نکالتا ہوں …… اگر مریخ (جو زمینی حجم سے نصف حجم کا حامل سیارہ ہے اور زمین کے بعد نظامِ شمسی کا اگلا سیارہ ہے) اربوں سال پہلے ہماری زمین کی طرح ایک ”سانس لیتا اور جیتا جاگتا“ کرۂ ارض تھا تو ہماری زمین بھی ایک دن اس انجام کو پہنچنے والی ہے۔ قرآن حکیم کے آخری پارے کی سورتوں میں زیادہ تر اسی قیامت کا نقشہ کھینچا گیا ہے جو آج سے 1400سال پہلے انسان کے تصور میں نہیں تھی لیکن آج مریخ کی یہ تصاویر دیکھ کر کٹر سے کٹر کافر کو بھی قیامت پر ایمان لانا پڑتا ہے…… کاش ناسا (NASA) کے خلائی سائنس دان قرآن کی ان آیات کو ڈی کوڈ کرنے کی طرف بھی توجہ دیں۔