تلور اور ہرن کی نایابی: پیدائش وافزائش

پاکستان میں ہوبارہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام مختلف شعبوں میں سرگرمیاں جاری ہیں۔ ہوبارہ کا مطلب تو تلور ہے۔ تلور وہ پرندہ ہے جو پاکستان میں سردی کے موسم کے آغاز پر وسطی ایشیا سے آتا ہے۔ اُن دنوں وسطی ایشیائی ممالک میں سانسوں تک کو جما دینے والی سردی ہوتی ہے لہٰذا یہ پرندہ خوشگوار موسم کی تلاش میں ساؤتھ ایشیائی ممالک افغانستان،ایران، بھارت، سری لنکا وغیرہ کا رُخ کرتا ہے۔ یہ تلور کے شکاریوں کے لیے بھی بھرپور تفریح اور شکار کا دورانیہ ہوتا ہے۔ شکار سے تلور کی نسل ختم ہو رہی تھی۔ تلور کا شکار ایک وسیع موضوع ہے۔ ابو ظہبی کے فرمانروا بھی تلورکے شکارکا شوق رکھتے ہیں۔ وہ پاکستان تلور کے شکار کے لئے آتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے وہ عقاب کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کو تلور کی ناپید ہوتی ہوئی نسل کا ادراک اور احساس شروع دن سے ہے جس کاحل اس کی نسل کے اضافے کے لئے اس کے افزائش کا مرکز بناکر نکالا گیا۔ اب تک دنیا کے مختلف ممالک میں ابو ظہبی میں قائم ہوبارہ بریڈنگ سنٹر میں تیار ہونے والے50 ہزار تلور پاکستان میں لا کر ریلیز کیے گئے اور دنیا کے دیگر ممالک میں ریلیز کیے گئے تلوروں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں موجود ہوبارہ فاؤنڈیشن نہ صرف تلور بلکہ ناپید ہوتی ہوئی کالے ہرن اور چنکارہ کے تحفظ اور افزائش کے لئے بھی سرگرم ہیں۔ ان مقاصد کے لئے ایک رحیم یار خان اوردوسرا بہاولپور میں لال سہانرانیشنل پارک کے قریب انکلوژر بنایا گیا ہے۔
ہوبارہ فاؤنڈیشن انٹرنیشنل پاکستان خصوصاً ہوبارہ اور عمومی طور پر جنگلی حیات کے تحفظ پر کار بند ہے۔اس کے دیگر انگنت منصوبوں پر بات پھر کریں گے آج شیخ محمد بن زید کنزرویشن بریڈنگ کا جائزہ لیتے ہیں۔یہ سینٹر لال سہانرا نیشنل پارک، بہاولپور کے قریب صحرا میں ہے۔یہ 18 مارچ 2015ء کو ہوبارہ اور ڈیئر فاؤنڈیشن انٹرنیشنل پاکستان نے حکومت پنجاب، محکمہ جنگلات کے ساتھ ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کرنے کے بعد قائم کیا تھا۔
کنزرویشن بریڈنگ سینٹرپاکستان میں اپنی نوعیت کا واحد مرکز ہے جس کا رقبہ 147.5 مربع کلومیٹر (4750 ہیکٹر) ہے جس کی حفاظت کے لئے چاروں طرف باڑ لگائی گئی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد قدرتی ماحول میں چنکارا اور کالے ہرن کی افزائش کو فروغ دینا، صحرائے چولستان کے نباتات اور حیوانات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ تلور پر تحقیق کرنا ہے۔
محکمہ جنگلی حیات کے مطابق بڑھتی ہوئی آبادی اور بنیادی ڈھانچے کی مسلسل بڑھتی ہوئی ضروریات، جانوروں کے مسکن اور جنگلات کے خاتمے کا باعث بنی ہیں، جس کے نتیجے میں پاکستان میں جانوروں اور پودوں کی نسلیں ختم ہو رہی ہیں۔ دیگر عوامل جو اِس گھمبیر صورتحال میں مزیداضافہ کرتے ہیں، ان میں موسمیاتی تبدیلیاں اور ختم ہوتی جانوروں، پرندوں اور پودوں کی اقسام کے تحفظ کو نظر انداز کرنا شامل ہیں۔ اِن مشکل حالات میں، ہوبارہ اور ڈیئر فاؤنڈیشن انٹرنیشنل نے اِن کے تحفظ کے لئے کام کرنا شروع کیا اور ختم ہوتی اقسام کے تحفظ کے لئے ان کی کوششیں کنزرویشن بریڈنگ سینٹر کے قیام کی صورت میں پروان چڑھیں۔
لال سہانرہ نیشنل پارک کے قریب مرکز ایک ایسے علاقے میں واقع ہے جس کی حفاظت کے لئے 10 فٹ اونچی چین لنک باڑ لگائی گئی ہے۔ اِسے درج ذیل جدید ترین سہولیات سے آراستہ کیا گیا ہے: افسران، ویٹرنری ڈاکٹروں، عملے اور 100 گارڈز کے لئے رہائش گاہیں۔ آفس اور ریسرچ سینٹر کی عمارت۔مہمان خانہ۔مکمل افرادی قوت کے لئے پانی کی فراہمی کے لئے آر او پلانٹ۔تمام عمارتوں میں بجلی کے لئے سولر پلانٹ،مسجد، بہتر کنٹرول اور سکیورٹی کے لئے انکلوژر کے جنوب میں عملے اور افسر کی رہائش گاہوں کے ساتھ وائلڈ لائف چیک پوسٹ۔انکلوژر کی حفاظت کے لئے 24 عدد واچ ٹاورز میں سکیورٹی عملہ ہر وقت موجود ہوتا ہے۔ ہر ٹاور کی چھت پر سیکیورٹی گارڈ کا چودہ بائی چودہ کاکمرہ ، کچن اور باتھ روم بنایا گیا ہے۔واچ ٹاورز کو وائرلیس سیٹ (سولر چارجرز کے ساتھ) بھی فراہم کیے جاتے ہیں تاکہ بیس کو کسی بھی معلومات کی بروقت اطلاع دی جا سکے۔واچ ٹاورز سے سکیورٹی کے علاوہ، رات کے وقت باڑ کے ساتھ وائلڈ لائف سکیورٹی گارڈز کی ٹیمیں بھی گشت کرتی ہیں۔کنزر ویشن سنٹر میں ایک جدید کانفرنس ہال بھی بنایا گیا ہے جس میں پاکستان کے بڑے اداروں کے ماہرین اور دانشوروں کی گزشتہ دنوں ورکشاپ ہوئی جس کا موضوعِ سخن انکلوژر میں جانوروں اور نباتات کی افزائش تھاجس پر سیر حاصل گفتگو ہوئی اور سفارشات تیار کی گئیں۔چنکارہ اور بلیک بک یعنی کالا ہرن حیرت انگیز انورکنزرویشن بریڈنگ سینٹر کے لئے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ مرکز کے اندر کالے ہرن اور چنکارا کے بچے دیکھے جاسکتے ہیں۔اب تو انکلوژر میں بارہ نیل گائے کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔
انکلوژر کے اندر ہوبارا بسٹرڈیعنی تلور پر بھی تحقیق کی جاتی ہے۔ پاکستان کے علاقوں کی رہائشی ہوبارا بسٹرڈ کی نسل، جس کی ابوظہبی میں افزائش کی جاتی ہے، انکلوژر میں باقاعدگی سے آزاد کی جاتی ہے۔ ان میں سے کچھ ہوبارا بسٹرڈکنزرویشن بریڈنگ سینٹرکے اندر، یونیورسٹی کے طلباء اور دیگر سائنسدانوں کے تحقیقی مقاصد کے رکھے جاتے ہیں۔
اس مرکز کو منفی سرگرمیوں سے مکمل طور پر محفوظ رکھا گیا ہے، جس کی وجہ سے اس کے اندر مقامی پودوں کی بھرپور افزائش ہوئی ہے اور یہ بڑی تعداد میں حیوانات کے لیے بطور چارہ اور پرندوں کے لئے قدرتی پناہ گاہ ہے۔ کنزر ویشن بریڈنگ سنٹر(سی بی سی) کے اندر کا سازگار ماحول صحرائے چولستان کے تمام پرندوں کو افزائش کے مواقع فراہم کرتا ہے، جس میں شکرہ، بگلا کی مختلف اقسام؛ کیٹل ایگریٹ، لٹل ایگریٹس، پونڈ ہیرون، عقاب، فاختہ، کبوتر، تلیر، مینا، مور، مکھی کھانے والے پرندے اور تتلیاں وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ صحرائے چولستان کے نباتات بھی پھل پھول رہے ہیں۔ حال ہی میں انکلوژر میں موجود پودوں کو مزید بڑھانے کے لئے اُن میں بیری اور کیکر کے پودوں (ہرنوں کی خوراک)کا اضافہ کیا گیا ہے۔صحرائے چولستان کے قدرتی ماحول سے لطف اندوز ہونے کے لیے اور وائلڈ لائف میں دلچسپی رکھنے والے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔جب انکلوژر میں زیادہ سے زیادہ ہرن ہونگے تو ان قدرتی جنگلات اور صحرا میں چھوڑ دیا جائے گا۔
ہوبارہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام اگر رفاعی اور فلاحی منصبوں کی بات کی جائے تو اس کی ایک طویل فہرست ہے۔ان کا جہاں اجمالاً تذکرہ کئے دیتے ہیں:سلووالی کے قریب 1400 ایکڑ پر مشتمل زرعی فارم ہے جس میں 400 مقامی لوگ ملازم ہیں۔ رحیم یار خان میں شیخ زید ہسپتال‘ سٹیڈیم، چلڈرن پارک‘ ہیلتھ سینٹرز او لیول سکول اور ٹریننگ سنٹر کام کر رہے ہیں۔ روجھان میں ہسپتال، کالج اور پورے شہر کیلئے پانی کا انتظام کیاگیا ہے۔ قریب ہی دریا کے پاٹ پر 10کلومیٹر طویل پل مکمل ہو چکا ہے جس سے روجھان سے رحیم یار خان کا فاصلہ 65 سے 54 کلومیٹر رہ گیا ہے۔ دراوڑ میں صحرائی حیات ونباتات کے تحفظ کے لئے اسلامیہ یونورسٹی کے اشتراک سے ڈائیورسٹی پارک بھی روبہ عمل ہے۔