یومِ شہداء2013ء:آرمی چیف کا خطاب اور میڈیا
ہمیں اپنے میڈیا کو ہزار شاباش دینی چاہیے کہ وہ ہمیں اصل موضوعات کی طرف سے تو بے خبر رکھتا ہے، لیکن ان کی ذیلی شقوں،بلکہ شقوں در شقوں پر باخبر کرنے کے کارِ خیر میں اپنا ثانی نہیں رکھتا....میری مراد زیادہ تر الیکٹرانک میڈیا سے ہے۔
مثلاً30اپریل 2013ءکا دن تو تمام پاکستان میں پاک آرمی نے اپنے شہداءکی یاد تازہ کرنے کے لئے مختص کیا ہواتھا۔تمام فوجی چھاﺅنیوں میں اس دن کی مناسبت سے تقریبات منعقد کی گئیں۔لاہور کینٹ میں بھی 29اپریل کو کورہیڈکوارٹر کی جانب سے کسی لفٹین صاحب کا فون آیا کہ 30اپریل کی شب یادگار شہداءپر تشریف لائیں۔
پچھلے برس یہی ایام تھے اور ہر ملٹری گیریژن میں ایسی ہی تقریبات منعقد کی گئی تھیں۔مَیں بھی حاضر ہوا تھا اور اس تقریب کے سلسلے میں اپنے تاثرات بھی لکھے تھے۔ اس بار بھی ضرور حاضر ہوتا، اگر ایک انتہائی ذاتی مصروفیت حائل نہ ہو جاتی....بہرکیف اللہ کریم سے شہدائے کرام کی ارواح کے لئے دل کی گہرائیوں سے دعائیں اور ان کے لواحقین کو صبر کی تلقین....
کہا جاتا ہے کہ وقت،مرنے والوں، بچھڑنے والوں، ہمیشہ کے لئے جدا ہونے والوں اور داغِ مفارقت دینے والوں کے زخموں پر مرہم رکھ دیتا ہے۔جو عام زخم آج تازہ ہوتا ہے وہ آنے والے کل میں بھر جاتا ہے،لیکن شہداءکی جدائی کا غم ایک خاص غم ہے اور ایسا غم ہے جو لواحقین کے سینوں کے زخم تادیر تازہ رکھتا ہے:
وقت کے افسوں سے تھمتا نالہ ءماتم نہیں
وقت، زخمِ تیغِ فرقت کا کوئی مرہم نہیں
جب آپ کی نظر سے یہ سطور گزریں گی تو الیکٹرانک میڈیا یوم شہداءکی اہمیت پر کم ،لیکن آرمی چیف کی اس تقریر پر کہ جو انہوں نے جی ایچ کیو راولپنڈی میں اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کی، آپ کونہ صرف زیادہ بلکہ حد سے زیادہ کنفیوز کرچکا ہوگا!....
میں اس جملے کی وضاحت کرنا چاہوں گا....
آرمی چیف کا یہ خطاب نہایت سادہ، صاف اور براہ راست تھا۔اس میں کسی ابہام یا کسی ذومعنویت کا شائبہ تک نہ تھا۔انہوں نے قوم کے سامنے جو جو باتیں رکھیں، وہ ان کے ٹھہرے ٹھہرے اور پُرسکون لہجے کی ایک ایک ادا سے ٹپکی پڑتی تھیں۔دراصل فوج کی تمام تحریروں اور تقریروں کی زبان بالعموم نہایت صاف، شفاف اور سیدھی سادی ہوتی ہے اور ایسا کرنا عسکری تحاریر و تقاریر کی پیشہ ورانہ ضرورت بھی ہوتی ہے۔ مَیں اس پر زیادہ زور دے کر یا اس کی مزید تفصیل میں اتر کر قارئین کا وقت ضائع نہیں کروں گا۔مَیں ان چیدہ چیدہ نکات کا ذکر کرنا چاہوں گا جو ان کی تقریر کا لبِ لباب تھے۔مثلاً:
1۔ انتخابات 11مئی کوضرور ہوں گے۔
ان کے التواءکے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔
2۔دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ ، امریکہ کی جنگ نہیں، ہماری اپنی اور پاکستان کی جنگ ہے۔
3۔فوج، جمہوریت کو مستحکم کرنے کا عزم رکھتی ہے۔اگر ہم نے ہوش سے کام نہ لیا تو آمریت ہو یا جمہوریت،قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور بربادی جاری رہ سکتی ہے۔
4۔ اگر ملک دشمن عناصر ہتھیار رکھ دیں اور ملک کے آئین کی پاسداری کریں تو وہ قومی دھارے میں شریک ہو سکیں گے،وگرنہ پاک آرمی، ملک و قوم کے مفادات کا تحفظ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گی۔
قارئین محترم! متذکرہ بالا سطور اگرچہ ان کے خطاب کا لفظ بہ لفظ اعادہ نہیں، لیکن ان کا خلاصہ یہی تھا۔
اب ذرا غور فرمایئے کہ ہمارے میڈیا کے بعض ناخداﺅں نے اس کا کس کس انداز سے پوسٹ مارٹم کیا ہے اور ان کے الفاظ کو کیا کیا معانی پہنا دیئے ہیں۔مثال کے طور پر جنرل صاحب کا کہنا تھا:”میری رائے میں صرف انتقام نہیں، بلکہ عوام کی وہ آگہی اور ان کی (انتخابات میں) وہ شمولیت ہے جو آمریت اور جمہوریت کے درمیان جاری بلی چوہے کے کھیل کو ختم کرسکتی ہے“.... تقریر کے اس ٹکڑے سے یاروں نے یہ مطلب نکالا ہے کہ جنرل کیانی کا اشارہ جنرل(ر) پرویز مشرف کے ساتھ حالیہ”حسنِ سلوک“ کی طرف ہے اوریہ بالواسطہ اشارہ صاف صاف فوجی آمر، جنرل مشرف کے ٹرائل کی طرف ہے۔
جب مَیں نے یکم مئی کی صبح پاکستان کے ایک بڑے اور باوقار انگریزی روزنامے میں صفحہ اول پر اخبار کی شہ سرخی (Lead)دیکھی اور ساتھ ہی ان کی باوردی تصویر بھی دیکھی تو ایک عزیز کو ٹیلی فون کیا کہ آج دیکھنا ہر ٹیلی ویژن چینل اسی ”بالواسطہ اشارے“ کو اپنے شبانہ مشاعرے کا مصرعہ ءطرح بنائے گا.... اور وہی ہوا۔
بیشتر نیوز چینل یومِ شہداءکی اہمیت کو طاقِ نسیاں پر رکھ کر جنرل (ر) مشرف کے ٹرائل کی طرف آئے اور بڑی آن بان سے آئے۔خود مشرف بھی یہ مشاعرہ سن چکے ہوں گے اور شائد فراز کاوہ شعر یاد کررہے ہوں گے جس میں ”سنگِ ملامت“ کا ذکر ہے۔
کچھ عرصے سے بیشتر نیوز چینلوں کے اینکر صاحبان ایک ہی رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں۔دورانِ ماڈریشن ان کا جھکاﺅ کس طرف ہوتا ہے، اس کا اظہار ان کے ہرہر لفظ اور ”جسمانی زبان“ کے ایک ایک انگ سے پھوٹ رہا ہوتا ہے.... طریقہ ءارتکاب واردات یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ مناظرے میں ایک طرف کسی جانے پہچانے ”پرو مشرف“ مہمان کو بٹھا دیا جاتا ہے، دوسری طرف ”اینٹی مشرف“ حضرت فروکش ہوجاتے ہیں اوران کے درمیان ایک جانے پہچانے صحافی یا تجزیہ نگار کو مدعو کرلیا جاتا ہے۔
ٹاک شو شروع ہوتا ہے....انٹرو میں اینکر صاحب یا صاحبہ دوچار منٹ میں اپنا مافی الضمیر واضح کرتے ہیں اور پھر شرکائے شو(Show)میں سے پہلے مہمان کو دعوتِ کلام دیتے ہیں کہ وہ بتائیں کہ آرمی چیف نے 30اپریل 2013ءکو جو تقریر کی ہے، اس میں ان کی تقریر کے فلاں ٹکڑے کا ”اصل مفہوم“ کیا تھا .... اور”اندر کی بات“ کیا تھی؟
ناظرین کو خوب معلوم ہوتا ہے کہ ٹاک شو کے اس مہمانِ گرامی کا نقطہ ءنظر کیا رہا ہے اور ہے ،وہ پرومشرف (Pro-Mushrraf)ہے یا اینٹی مشرف (Anti-Mushrraf)ہے، آمریت کا قصیدہ گو ہے یا جمہوریت کا عاشقِ زار ہے۔اگر کوئی فوجی افسر یا جنرل ہے تو ٹی وی کا ہر ناظر گزشتہ پانچ سات برسوں میں پانچ سات سو بار ان کا نقطہ ءنظر سن چکاہوتا ہے،اس لئے قندِمکرر اب تلخابہ بن چکی ہوتی ہے....وہ اگر پرومشرف ہے تو مشرف کے ٹرائل کی مخالفت میں چند لولے لنگڑے دلائل دے گا اور اگر اینٹی مشرف ہے تو بس اللہ دے اور بندہ لے....
درمیان میں خود اینکر صاحب(یاصاحبہ) دوران مشاعرہ جو گرہ لگاتے جاتے ہیں، ان کا ذوقِ سخن بھی سامعین سے پوشیدہ نہیں رہتا۔چونکہ موصوف اینکر ہیں ،اس لئے 500میل فی منٹ کی صوتی رفتار سے موضوع کو لتاڑتے ہوئے دوسرے مہمان سے متوجہ ہوتے ہیں کہ ”سر! آپ کا کیا خیال ہے؟“....دوسرے مہمان کے خیال سے بھی پورا پاکستان واقف ہوتا ہے، بلکہ میڈیا کی گلوبل رسائی (Reach)کے طفیل پوری دنیا، واقف ہوچکی ہے کہ کس مہمان نے کیا بولی بولنی اور کس اینکر نے کیا گیت گنگنانا ہے۔
ہر چینل کا ایک مالک (Owner)بھی ہوتا ہے جو اپنے چینل کے افتتاح کے وقت اگر کروڑ پتی تھا تو اب ارب پتی بن چکا ہے اور اگر ارب پتی تھا تو کھرب پتی بن چکا ہے۔یقین نہ آئے تو FBIوغیرہ سے رجوع کرکے دیکھ لیں۔اس کے پاس ساری فائلیں ہوتی ہیں۔ناظرین و سامعین یہ پتلی تماشا ضرور دیکھتے ہیں اوراپنے اپنے ”مسلک“ پر قائم رہتے ہوئے محظوظ ہوتے رہتے ہیں.... میں نے آج تک کسی ٹی وی ناظر کو اینٹی مشرف سے پرو مشرف ہوتے نہیں دیکھا۔ اور نہ کسی پرو آمریت (جنرل مشرف پڑھا جائے ) کو اینٹی آمریت پایا ہے۔
آرمی چیف کے خطاب کے بعض دوسرے حصوں کو بھی نئے نئے استعارے اورکنائے عطا کردیئے گئے ہیں، حالانکہ آرمی کبھی استعاروں یا کنایوں میں بات نہیں کرتی، وہ تو ”آفتاب آمد، دلیلِ آفتاب“ کی قائل ہے۔
آرمی چیف کے کئی تقریری حصوں کو ری پلے کرکے مہمانانِ گرامی سے تبصرہ کرنے والے ٹاک شوز بھی اپنے اپنے چینل مالکان اور پروگرام پروڈیوسروں کی ہدایات پر عمل پیرا ہونے پر مجبور ہیں۔وگرنہ ان کو زیادہ دیر برداشت نہیں کیا جاتا۔اگر آج کوئی معروف ٹی وی اینکر کسی وجہ سے ایک چینل کو چھوڑتا ہے تو آنے والے کل میں وہ آپ کو کسی دوسرے چینل پر بیٹھا نظر آئے گا۔دوسرے لفظوں میں یہ لوگ صورتِ خورشید جیتے ہیں کہ ایک طرف غروب ہوتے ہیں تو دوسری طرف طلوع ہوجاتے ہیں۔قومی انتخابات تو زیادہ سے زیادہ پانچ سال کے بعد ہوتے ہیں، لیکن بعض اینکر صاحبان کے الیکشن، سال میں دو دوبار بھی ہو جاتے ہیں۔اکثر نیوز چینل الیکشن کی اس برکھا رُت میں سراپا سیاسی پارٹی کا روپ دھار چکے ہیں۔ اگر آپ مسلسل اور ہر روز مختلف چینلوں کی سیر کرتے ہیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ کون سا چینل، کس سیاسی پارٹی کے لئے دل میں نرم گوشہ رکھتا ہے....رہی یہ بات کہ وہ یہ نرم گوشہ کیوں رکھتا ہے، تو اس بارے میں زیادہ پریشان ہونا چھوڑیئے، جینا شروع کیجئے۔کس کو معلوم نہیں کہ نرم گوشے کا یہ چشمہ کہاں سے پھوٹتا ہے؟
اب کہ جب الیکشن کو صرف ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے اور تمام اکابر پارٹیوں کے اکابرین خم ٹھونک کر انتخابی مہم پر نکلے ہوئے ہیں تو مجھے رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ جو وعدے وعید وہ آج شہر شہر اور گاﺅں گاﺅ ںجا کر کررہے ہیں، کیا ان کی یہ روش کوئی انوکھی روش ہے یا اس سے پہلے بھی ہر الیکشن میں اسی طرح ہمارے سیاسی رہنماﺅں کے گلے بول بول کر بیٹھ جاتے رہے ہیں ۔ اور جب قوم ان کو حکومت میں لے آتی ہے تو پوری قوم کے بھٹے بیٹھ جاتے ہیں! ٭