محنت کشوں سے سیاستدانوں کی دہشتگردی
گلوبل پِنڈ ( محمد نواز طاہر )رات گئے مال روڈ سے گزرتے ہوئے ہلکی بارش میں چند پتے گرے اور ان کی آواز صاف سنائی دی ، یہ آواز بہت بھلی لگی ، اگلی دوپہر وہیں سے پھر گزر ہوا تو دھویں اور شور نے رات کا منظر یاد دلا دیا ۔ میرے دماغ پر محنت کشوں کے عالمی دن کی تقریبات سوار تھیں ، شکاگو کے محنت کش اور ان کی یاد منانے والے پاکستانیوں کے بڑے بڑے جلسے ،ریلیاں اور پر جوش تقریروں کی بازگشت تھی ۔ اسی دھیان اور بے دھیانی میں پورا مال روڈ گھوم لیا بلکہ ٹاﺅن ہال والی سڑک سے ٹرن لے کر واپس اسمبلی ہال بھی کراس کرلیا اور پھر آواری ہوٹل چوک سے آوارہ گردوں کی طرح پریس کلب کی جانب مڑ گیا ۔ پریس کلب کے سامنے خاکروبوں اور اپنے جیسے محنت کشوں کا ایک جھنڈ دیکھ کر یقین آیا کہ آج محنت کش اپنا دن منا رہے ہیں ۔ کسی زمانے میں صحافیوں سمیت تمام اخباری کارکن بھی یہ دن مناتے تھے ، وہ کوڑے بھی کھاتے تھے اور فاقوں کے لقمے بھی لیا کرتے تھے ۔ آج پریس کلب ایسے صحافیوں سے ویران تھا ۔ بس دو ایک نوجوان فوٹوگرافر موجود تھے اور وہ بھی سیاسی جلسوں کے بارے میں بات کررہے تھے۔ تنہائی محسوس کرتے ہوئے میں نے کوڑے کھانے والے ایک صحافی خاور نعیم ہاشمی کو فون کیا لیکن جواب نہ ملا تو یقین ہوگیاکہ ابھی بیدار نہیں ہوئے ہونگے ۔جب وہی آج بیدار نہیں تو اور کون ہوگا؟ ´ اس کا جواب بھی میرے پاس نہیں تھا کیونکہ یہ لاٹ تو ختم ہوچکی اور جو کوئی محنت کشوں اور صحافیوں کے حقوق کی بات کرتا ہے وہ محض’ٹی وی ٹاک ہوتی‘ ہے۔کسی ٹی وی چینل پر بھی محنت کشوں کی کسی سرگرمی کی کوئی خبر نہیں تھی ،بے چینی میں ریڈیو سٹیشن کی راہ لی تو عملے کی تعداد نے پھر یقین دلایا کہ آج محنت کشوں کا عالمی دن ہے اور سرکاری چھٹی ہے ۔ اس یقین پر مہر اس وقت ثبت ہوئی جب خبروں میں دوسرے، تیسرے نمبر پر یومِ مئی کی خبر نشر ہوئی ۔شعبہ خبر میں بیٹھے کچھ لوگ میری طرح پریشان تھے کہ اب سٹیریو ٹائپ خبر کیا نشر کریں جبکہ شہر میں تو کوئی تقریب ہی نہیں ہو رہی ؟ وہ تو بھلا ہو کہ کچھ لوگوں نے بختیار لیبر ہال میں ’بابا ‘ زندہ رکھا ہوا ہے یا پھر فاروق طارق اوراُن کے ساتھیوں کو یہ دن یاد رہتا ہے ، اس طرح خبر کا ’پیٹ ‘ کچھ بھر گیا ۔ہر طرف بات سیاسی جلسوں اور سیاسی جماعتوں کی انتخابی سرگرمیوں کی ہو رہی تھی ۔ یہ تمام سیاسی جماعتیں عام آدمی کی قسمت بدلنے کا دعویٰ اور منشور رکھتی ہیں لیکن یہ دعویٰ آج منہ چڑا رہا تھا ۔
کچھ سیاسی جماعتوں کے لیبرو نگ کے رہنماﺅں سے بات ہوئی تو انہوں نے عذر پیش کیا کہ انتظامیہ نے دہشت گردی کے خوف سے جلسے ، جلوس نکالنے پر پابندی لگائی ہے ۔ حاکمانِ وقت ہمیشہ اپنے مفاد میں فیصلے کرتے ہیں ، اس وقت تو نگران حاکم ہیں ، ان کا مفاد کیا ہے؟ ´ یہی کہ وہ نگران کن کے ہیں ؟جنہوں نے انہیں نامزد کیا ؟دہشت گردی کا خوف انہیں بھی ہے ۔یہ خوف میں کینال بینک روڈ پر روز دیکھتا ہوں جو پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کی گزرگاہ ہے ۔کہا جاتا ہے کہ وہ بڑے لبرل اور دلیر ہیں ۔ ایک بات کی گواہی میں بھی دیتا ہوں کہ وہ محنت کشوں اور ان کی بات کرنے والی صحافتی تنظیموں کی قدر کرتے ہیں جس کا اعتراف انہوں نے کچھ سال قبل اپنی گرفتاری اور رہائی کے بعد پریس کلب میں میرے سامنے کیا تھا مگر آج وہ خوفزدہ کیوں ہیں ؟ آمریت کے عادی ملک میں ان کی یہ جمہوریت پسند مصلحت مان لی ۔ میں نے ایک دو ایسے لوگوں سے بات کی جن کے بارے میں میڈیا پر کہا جاتا ہے کہ یہ دہشت گردی میں ملوث ہیں اور ان کے دہشت گردوں سے رابطے ہیں ، ان کا کہنا تھا کہ ہم نہ تو دہشت گرد ہیں نہ یہ الزام درست ہے ،یہ الزام مشرکانہ ہے البتہ ہمیں اتنا اختلاف ضرور ہے کہ یہ مسلمانوں کا دن نہیں، مگر ہم محنت کشوں، ان کے اجتماعات کیخلاف بھی نہیں ہیں ۔ محنت کشوں سمیت پورے ملک کےساتھ دہشت گردی تو امریکہ اور سامراج نواز حکمران و اربابِ اختیارر،استحصالی قوتیں اور ان کے ایجنٹ کرتے ہیں ، ہم تو اس فرمان کے پابند ہیں کہ محنت کش اللہ کا دوست ہے ۔
پورا دن یونہی گزرا، رات کو سابق وزیراعلیٰ میٹرو بس کے روٹ پر رکشے میں سوار نظر آئے ۔ ساتھ یہ خبر بھی آئی کہ ٹریفک جام ہے اور ریلی بہت بڑی ہے ؟ مجھے خوف محسوس ہونے لگا کہ کہیں خدا نخواستہ دہشتگردی کی کوئی واردات نہ ہوجائے ۔۔۔ اللہ نے سب کو محفوظ رکھا۔ یہ ریلی اور سابق وزیراعلیٰ کی تقریر اختتام کو پہنچی مگر اس میں بھی یوم ِ مئی یا محنت کشوںکا ذکر تھا نہ ہی محنت کشوں جیسے ملکی حالات میں انہوں نے اس بے بسی کا اظہار کیا کہ دہشت گردی کے خوف نے ہمیں محنت کشوں کا عالمی دن بھلا دیا ہے۔آئیں مل کر دہشت گردی اور اس کے اسباب ختم کریں ۔ ایسا کچھ نہیں تھا ۔مسلسل دو تین دن تک بے چینی میں گزارے اور دیکھا کہ ملک کی تقدیر بدلنے کا خواب دکھا کر ووٹروں سے دھوکہ دہی کرنے والی بڑی پارٹیوں کے لیڈر جہازوں میں طوفانی دوروں پرہیں لیکن کسی کے منہ سے محنت کش کے حق میں بات نہ نکلی ۔ جہاں بھی بات ہوئی دہشت گردی کی ہوئی ، ملک سنوارنے، ملک کو پیرس بنانے اورتقدیر بدلنے کا موقع نہ ملنے کا گلہ کیا گیاجبکہ دوسری جانب یکم مئی کو ملک بھر میں سرکاری طور پر چھٹی کے باوجود دیوٹی دینے والا ملتان کا غریب سیور مین اپنے دو بیٹوں سمیت سیوریج کی صفائی کرتے دم توڑ گیا ، ایک ہی خاندان کے تین افراد کی ہلاکت پر بھی کسی سیاسی جماعت کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور کسی نے تعزیت ، ہمدردی اور دکھ کا اظہار بھی نہ کیا ۔ حمکرانوں ، نگران حکمرانوں اور سیاستدانوں کی اس بے حسی کے بعد جب ڈھٹائی کے ساتھ یہ آواز کان میں پڑتی ہے کہ وہ غریب عوام کی حالت بدل دیں گے تو دل خون کے آنسوروتا ہے اور بے بسی خود ’ےبسی‘ پر ہنستی ہےاور بہت کچھ کہتی ہے ۔۔۔ اب تو لگتا ہے کہ اصل منظم دہشت گردی بھولے عوام اور خاص طور پر محنت کشوں کے ساتھ ہو رہی ہے۔۔۔