عالمی منظر نامے پر پاکستان کی خوشگوار تصویر
حضرت علیؓ کا قول صبح قیامت تک اپنی اہمیت و افادیت کی گواہی دیتا رہے گا کہ بولو تاکہ تم پہچانے جاﺅ۔ میرے دوست ممتاز ادیب و خطیب منشا قاضی کی کتاب بولو کی مجھے آج اہمیت کا پتہ چلا، جب گزشتہ روز یو ایم ٹی میںدنیا کے 11 ممالک کے اور پاکستان کی 31 یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات نے تقریری مقابلوں میں اپنے فن ِ خطابت کے جوہر دکھائے۔ 19 ویں اور بیسویں صدی نے بڑے بڑے خطیب پیدا کئے، جن کی تقریریں رات بھر لوگ سنتے تھے۔ آج اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے آغاز پر یو ایم ٹی کے ریکٹر ڈاکٹر حسن صہیب مراد نے ایک بار پھر اپنے اسلاف کی صدائے بازگشت سے فضائے بسیط میں ایک سماں باندھ دیا ۔ طلبا وطالبات کی تقریروں میں ادا کی جدت ، نگاہ کی حدت اور ابلاغ کی شدت بدرجہ اُتم موجود تھی، طلبا کا انداز بیان مسحور کن اور اُن کا سٹیج پر کھڑا ہونا اعتماد کا بھر پور احساس دلاتا تھا۔ طلبا نے اپنی تقریروں میں جو ش و جذبات کی بادِ بہاری چلا دی اور سامعین اُن کے اس سحر آفریں خطاب میں ڈوب گئے ایشیا ، افریقہ، تیونس، بنگلہ دیش، نیپال، مشرق وسطیٰ کی یونیورسٹیوں اور پاکستان کی 31 یونیورسٹیوں کے طلبہ نے حصہ لے کر اپنے تقریری فن کا مظاہرہ کیا ۔ اتنا بڑا پروگرام جس کا انعقاد موجودہ ملکی حالات میں ناممکن تھا یو ایم ٹی کے ریکٹر ڈاکٹر حسن صہیب مراد اور رانا افتخار احمد ڈائریکٹر آفس آف پارٹیسپینٹس افیئرز اور ان کی ٹیم کے منصوبہ ساز ذہن کی تعریف کیے بغیر میں آگے نہیں بڑھ سکتا، جنہوں نے اپنے ملک کی پائیدار سلامتی کے پیغامات عالمی منظر نامے پر بڑی خوبصورتی سے اجاگر کئے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ ان ممالک کی تہذیبوں کو قریب کرنے اور ان کے تمدن سے آگاہی کے لئے اس سے بہتر دنیا کا کوئی بھی پلیٹ فارم جگہ نہیں لے سکتا۔ طلبا نے اپنے ملکوں کی ثقافت کی ترجمانی الفاظ و بیان کی خوبصورت ادائیگی سے کرتے ہوئے ثابت کر دیا کہ خطابت کا فن دنیا میں ایک مضبوط ترین ویپن سے کم نہیں ہے۔ لوگوں کے دلوں میں امنگ اور دماغوں میں ترنگ پیدا کرنا ایک خطیب کے دو میٹھے بول میں ہی پوشیدہ ہے۔
عالمی منظر نامے پر پاکستان کا جو مثبت تاثر اس عالمی تقریب نے دیا ہے وہ 18 کروڑ عوام کے دلوں کی ترجمانی کا خوبصورت تاثراتی مظاہرہ ہے۔ ملکی اور غیر ملکی اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں کے درمیان خیر سگالی کی جس خوبصورتی سے بادِ بہاری چلائی گئی ہے۔ یہ کئی سالوں تک اپنے بھرپور تاثر کی وجہ سے قائم رہے گی۔ پھر سب سے بڑی بات جو اس تقریب میں دیکھی گئی ہے کہ طلبا نے اس تقریب کو بے پناہ پسندیدگی کی نگاہوں سے خاموش خراجِ تحسین پیش کیا اور ہرسال اس سطح کی تقریب کے انعقاد کے لئے یو ایم ٹی کے اربابِ علم و دانش نے دل کھول کر اعلان کیا ہے کہ ایسی تقریب کا انعقاد پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی مضبوطی کا ضامن ہے اور ہر سال اس سے بھی ضخیم تقریب کا اہتمام کیا جائے گا، جس سے علاقائی ممالک کے درمیان اخوت و رواداری اور خیر سگالی کاماحول تخلیق پائے گا۔ یہ وہ ذریعہ ہے، جو دنیا بھر میں مسلّم ہے کہ تم بولو اور پہچانے جاﺅ۔ یہ کائنات نہ تو کلاشن کوف سے معرضِ وجود میں آئی ہے اور نہ ہی کسی ایٹم بم سے بنی ہے۔ اس کا وجود لفظ کا رہین ِ منت ہے کُن کہا گیا اور فیکون ہوگیا۔ لفظ بہت بڑی قوت ہے یہی وجہ ہے کہ یو ایم ٹی کے طلبا کے درمیان زیادہ سے زیادہ دباﺅ یا کھچاﺅ تبادلہ خیال سے ہی ہوتا ہے یہاں کبھی کوئی ایسا واقعہ رونما نہیں ہوتا کہ آپ کو کوئی ہڑتال یا اپنے مطالبات کے لئے جارحانہ انداز اپنا نا پڑے، کیونکہ اس کے سربراہ حسن صہیب مراد اور رانا افتخار احمد کی کاوشیں قابلِ قدر ہیں اور اس ادارے نے جہاں سینکڑوں سکالرز اور انجینئر پیدا کیے ہیں وہاں اس ادارے کے طلبا بیرون ممالک کھیلوں میں، تقریری مقابلوں اور جدید عہد کی اعلیٰ تعلیم کے لئے ہمیشہ سرگرداں ہیں بین الاقوامی کھلاڑیوں میں یو ایم ٹی کی جانب سے بے شمار نام شامل ہیں۔
نئی نسل کو جدید عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے یو ایم ٹی کا تعلیمی سفر 21 ویں صدی کے دوسرے عشرے میں داخل ہوگیا ہے اور اس عظیم ترین کامیابی اور کامرانی کے عقب میں ہائی پرو فائل فیکلٹیز کی ذہانت و فطانت کا رفرما ہے۔ تقریری مقابلوں کی طرح ڈال کر یو ایم ٹی نے پاکستان کے وقار میں اضافہ کیا ہے اور عالمی منظر نامے پر پاکستان کی ایک خوشگوار تصویر پیش کی ہے۔ پارلیما نی سیکرٹری حکومت پنجاب میاں محمد منیر نے اختتامی تقریب میں اپنے خوبصورت پیغام میں برملا اس کا اعتراف کیا کہ یو ایم ٹی کے اربابِ دانش نے یہ عظیم کارنامہ سر انجام دے کر بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن کیا ہے اور یہ تقریب بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی ہے اور آئندہ بھی اس نوع کی تقریبات جاری رہیںگی رانا افتخار جن کے انکسار میں، مَیں نے ہمیشہ ہی افتخار تلاش کیا ہے۔ انہوں نے 2015ء میں اس سے بڑھ کر تقریب کا انعقاد کرنے کا اعلان کیا اور اس کی ڈاکٹر حسن صہیب مراد نے بے پناہ حوصلہ افزائی اور تائید کی ہے۔ آخر میں ملکی اور غیر ملکی طلبا و طالبات کو ایوارڈز، شیلڈاور اسناد دی گئیں۔ علاقائی ممالک کی یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات دوستانہ ماحول میں خوبصورت جذبات لے کر الوداع ہوئے اور انہوں نے پاکستان کی یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات کی بے پناہ تعریف کی اور پاکستان کے بارے میں نیک خواہشات کے ساتھ روانہ ہوئے۔ اپنے اس دورانیے میں اُن کو لاہور کے تاریخی مقامات کی سیر بھی کروائی گئی ۔ ٭