الیکٹرانک کرائم بل: مہذب معاشرے کی جانب ایک قدم!
الیکٹرانک کرائم سے مراد وہ تمام جرائم لئے جاتے ہیں جن میں کوئی فرد کمپیوٹر یا انٹرنیٹ کے استعمال سے کسی بھی مجرمانہ کارروائی میں ملوث پایا جاتا ہے۔ لارڈ ایٹکن کے مطابق: ’’ہر مجرمانہ عمل جس میں کمپیوٹر کا استعمال کسی کو نشانہ بنانے یا کسی جرم کو پھیلانے کے لئے کیا جائے، سائبر کرائم کے زمرے میں آتا ہے‘‘۔۔۔ موجودہ دور میں سائنس نے جتنی ترقی کی ہے خاص طور پر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے استعمال کے حوالے سے ہر روز نئی سے نئی بات متعارف کرائی جاتی ہے۔ اس کا استعمال اچھے اور برے دونوں طریقوں سے ہو رہا ہے خاص طور پر معاشرے میں وہ افراد جو برائی کی طرف مائل رہتے ہیں، وہ اپنے مجرمانہ اور گھناؤنے عزائم کی تکمیل کے لئے ان تمام جدتوں کا استعمال بہت مہارت سے کرتے ہیں۔ غلط کام کرنے کے لئے زیادہ عقل کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے اگر یہ کہا جائے کہ جرائم پیشہ افراد انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کا استعمال ان لوگوں سے بہتر کرتے ہیں جو اس کو اپنے دفتر یا دوسرے ذاتی و معاشرتی کاموں میں سہولت کے طور پر کرتے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔
پاکستان میں سائبر کرائم کے بڑھتے ہوئے خدشات کافی پریشان کن ہیں۔ لوگ اپنی عام زندگی میں ان جرائم کے اثرات سے متعلق بھی پریشان رہتے ہیں۔ روزانہ فراڈ، دھوکہ دہی، حساس اور بنیادی معلومات کی منتقلی یا نقل، فحش پیغامات، فیس بک پر تصویروں کے غلط استعمال کے کئی کیسز رجسٹرڈ کرائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ان جرائم کی شرح روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ایف آئی اے کے ایک ریکارڈ کے مطابق 2007ء میں باسٹھ(62)، 2008ء میں دو سو ستاسی، (287) 2010ء میں تین سو بارہ (312) کیس رجسٹرڈ کئے گئے۔ 2015ء تک سائبر سے متعلق مختلف جرائم میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ ایف آئی اے کی ایک اور رپورٹ کے مطابق زیادہ تر کیس خواتین کے متعلق ہیں۔ پڑھی لکھی، اچھے خاندان اور دفتروں میں کام کرنے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کو فیس بک اور دوسرے سوشل نیٹ ورکس کے ذریعے ہراساں اور بلیک میل کیا جاتا ہے۔
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو پہلا سائبر کرائم 1820ء میں ہوا۔ اباکس (Abacus) جو کہ کمپیوٹر کی ابتدائی ترین شکل تھی، 3500 بی سی سے ہندوستان، جاپان اور چین میں استعمال کیا جاتا تھا۔ 1820ء میں جوزف میری جیکوارڈ جو کہ فرانس میں کپڑے کی بنائی کا کام کرتا تھا، اس نے ایک لوم بنائی۔ جیکوارڈ کے کارکنوں میں ایک خدشہ پیدا ہو گیا کہ اس لوم کے استعمال سے ان کے روز گار اور نوکری کو خطرہ ہو سکتا ہے تو انہوں نے جیکوارڈ کو اس مشین کے استعمال کے متعلق حوصلہ شکنی شروع کر دی۔ یہ سائبر کرائم کا پہلا واقعہ ہے۔ جدید دور میں کمپیوٹر اور موبائل پر انٹرنیٹ کے وسیع استعمال نے سائبر کرائم کے خدشے کو اور بھی بڑھا دیا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی جتنی ترقی کرتی ہے، اتنا ہی جرائم کے طریقے بھی جدید ہو گئے ہیں ذاتی اور کاروبار دونوں تعلقات میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی عملداری میں اضافہ ہوا ہے، لیکن خطرے کی بات یہ ہے کہ ہم کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا استعمال سوچے سمجھے بغیر کر رہے ہیں اور اس سے جڑے ہوئے خطرات کے بارے میں بالکل نہیں سوچتے۔ ان خطرات کی شدت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے۔
معاملات دفتر اور دفتری کاغذات تک پہنچتے ہیں۔ آج کے زمانے میں ویب سائٹ کو ہیک کرنا، ای میل وغیرہ کا ریکارڈ حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ ماضی قریب میں سائبر کرائم کا سب سے بڑا واقعہ سٹی بینک فراڈ ہے جس میں 10 ملین امریکی ڈالر سوئیزر لینڈ کے بینک میں منتقل کئے گئے۔ یہ سارا کارنامہ روسی ہیکر گروپ کے لیڈر ولیڈمر کیون جو کہ ایک مشہور ہیکر تھا، نے کیا لیکن یہ ہیکر بعد میں ہیتھرو ایئرپورٹ پر سوئیزر لینڈ جاتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا۔ الیکٹرانک کرائم کا تدارک کوئی آسان کام نہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک ترقی یافتہ ممالک سے ٹیکنالوجی لیتے ہوئے ایک لمحہ بھی نہیں سوچتے اور حقیقت میں ٹیکنالوجی کی اس ترسیل کو روکنا ممکن بھی نہیں رہا۔ معلومات اور ٹیکنالوجی کی یہ ترسیل ان لوگوں کے لئے نعمت ثابت ہوئی ہے جو فراڈ اور غلط کام کرنے کے لئے نئے نئے طریقے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔پاکستان کے معاشرتی نظام پر بھی سائبر کرائم کے دورس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں ان جرائم کو روکنے کا ابھی کوئی قانون پاس نہیں ہوا۔ بہت عرصے سے ایسا کوئی قانون بنانے کے لئے کوششیں جاری تھیں اور آخر کار 13 اپریل 2016ء کو یہ بل قومی اسمبلی میں منظور کر لیا گیا۔ اس بل کے تحت انٹرنیٹ کے ذریعے دہشت گردی پھیلانے، ان کی معاونت کرنے والے اور فرقہ واریت میں ملوث ملزمان کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ پر فحش مواد کے ذریعے دوسروں کو بدنام کرنے والوں کو بھی مجرم قرار دیا جائے گا۔ اس بل کے نمایاں خدوخال میں سے کچھ یوں ہیں۔
(1) نفرت انگیز تقریر، فساد پھیلانے کی کوشش یا پھر مذہبی یا فرقہ وارانہ بنیاد پر نفرت پھیلانے کی پاداش میں پانچ سال تک قید، دس لاکھ روپے جرمانہ، یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ (2) حساس بنیادی معلومات کی منتقلی یا نقل کرنے کی پاداش میں پانچ برس تک قید، پانچ لاکھ روپے جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔ (3) دوسروں کو پریشان کن پیغامات بھجوانے یا مارکیٹنگ مقاصد کے لئے پیغامات بھجوانے کی پاداش میں پچاس ہزار روپے تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر جرم کا اعادہ کیا گیا ہو تو اس کی سزا، تین ماہ قید اور دس لاکھ جرمانہ ہوگا۔ (4) منفی مقاصد کے لئے ویب سائنس بنانے کی پاداش میں تین سال تک قید اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔ (5) کسی شخص کو غیر اخلاقی فعل پر مجبور کرنے یا کسی شخص کی اس کی رضا مندی کے بغیر تصویر شائع کرنے، فحش پیغامات بھجوانے یا غیر ضروری سائبر مداخلت کی پاداش میں ایک سال قید یا دس لاکھ جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔ (6) حساس معلوماتی نظاموں میں گڑبڑ کرنے کی پاداش میں سات سال قید اور دس ملین جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔
اس بل کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں قومی ایکشن پلان (این اے پی) کے تحت آنے والے جرائم کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ مثلاً مذہب اور فرقے سے متعلق نفرت انگیز مواد شائع کرنا یا نفرت انگیز تقریر کرنا۔ پاکستان میں ان جرائم کو کنٹرول کرنا انتہائی ناگزیر ہے، کیونکہ پاکستان اس وقت ملکی سطح پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ ان دہشت گردوں نے پورے ملک میں اپنا ایک جال بچھا رکھا ہے یہ دہشت گرد عام لوگوں کی طرح رہتے ہیں۔ ان کے آس پاس رہنے والے بھی لوگ نہیں جانتے کہ یہ کون ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ان کے نیٹ ورک کو توڑا جائے اور انہیں کمزور کیا جائے۔ ان کو پکڑنے میں یہ بل انتہائی اہم ثابت ہوگا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بل سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ یہ بل انفرادی آزادی کو محدود کر دے گا۔ ہمیں یہ بات سمجھنی چاہئے کہ ہمارے ملک میں تعلیم کی شرح بہت کم ہے۔ حکومت تعلیم کی شرح میں اضافے کے لئے اقدامات کر رہی ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ہر وہ انسان پڑھا لکھا سمجھا جاتا ہے جو اپنا نام لکھ سکتا ہے۔ اگر سروے کرایا جائے اس ضمن میں مزید حیران کن پہلو سامنے آئے گا۔ وہ یہ کہ غیر تعلیم یافتہ شخص جو اپنا نام نہیں لکھ سکتا وہ اپنے موبائیل پر انٹرنیٹ کا استعمال ان لوگوں سے زیادہ کرتا ہے جو پڑھے لکھے ہیں۔
انسانی حقوق کے نقطہ نظر سے یہ انسان کا حق ہے کہ وہ انٹرنیٹ، موبائیل اور کمپیوٹر کو استعمال کرے لیکن اس سلسلے میں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ ہمیں اس ٹیکنالوجی کا استعمال غلط طریقے سے نہیں کرنا چاہئے۔ انٹرنٹ کو غلط کاموں کے لئے استعمال کرنا، مثلاً دوسروں کو غلط پیغامات بجھجوانا یا ان کی تصویروں کا غلط استعمال کرنا دوسروں کی انفرادی آزادی کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ نہ صرف ان پڑھ، بلکہ پڑھے لکھے لوگوں کو بھی کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے محفوظ استعمال سے متعلق مکمل شعور ہونا چاہئے۔ یہ ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان چیزوں کا استعمال اچھے مقاصد کے لئے کرے۔ اس ضمن میں ہمیں اپنے بچوں کی بھی تربیت کرنی ہے، کیونکہ آئندہ وقتوں میں کمپیوٹر، موبائل اور انٹرنیٹ کا استعمال مزید بڑھے گا اور اس میں جدتیں بھی آئیں گی۔ جس طرح ہم اپنے بچوں کو کمپیوٹر کا استعمال سکھاتے ہیں، اسی طرح ان کا محفوظ استعمال بھی سیکھنا ضروری ہے۔ دفتروں میں کام کرنے والوں کو بھی ان تمام خدشات اور حقائق سے آگاہ کرنا چاہئے تاکہ ان کے لئے کم سے کم مسائل پیدا ہوں۔ اس کے علاوہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ایک مہم چلانے کی ضرورت ہے جس میں لوگوں میں یہ شعور پیدا کیا جائے کہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ وغیرہ کا صحیح استعمال کیوں ضروری ہے۔ ہر فرد کو اس ذمہ داری کو نبھانا ہے۔ ان تمام اقدامات سے سائبر کرائمز کو ختم تو نہیں کیا جا سکتا لیکن کافی حد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔
سائبر کرائم بل 2016ء ای۔ کرائم کو روکنے کی جانب اہم قدم ہے۔ اس سے کم از کم بہت سے لوگوں میں یہ احساس اُجاگر ہوگا کہ کسی کی ذاتی زندگی میں جھانکنا اور اسے معاشرتی سطح پر بدنام کرنے کی کوشش کرنا نہ صرف مذہب میں نا پسند کیا جاتا ہے بلکہ قانون میں بھی اس کی اجازت نہیں۔ بہت سے لوگ قانون سے ڈر کر غلط کام چھوڑ دیتے ہیں لیکن جو غیر اخلاقی کام جاری رکھتے ہیں ان کے لئے قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔ دیکھا جائے تو کسی کی عزت نفس پر حملہ کرنا کسی کی جائیداد پر قبضہ کر لینے سے بھی بڑا جرم ہے اور اس کی معافی کسی صورت میں بھی نہیں ہونی چاہئے۔ ان جرائم کی روک تھام سے ایک مہذب معاشرہ تشکیل پائے گا۔ ہر انسان یہ سوچے کہ اگر کوئی میری عزت نفس پر حملہ کرے تو کیا محسوس ہوگا؟ انسان دوسروں کے بارے میں غلط بات پھیلانے سے باز رہے تو بہت سی معاشرتی برائیوں کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔